راوی: علی ثقفی
ایک دن اپنے چار سالہ بیٹے ’’حامد‘‘ کے ساته امام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام ایک کمرے میں تشریف فرما تهے اور ایک تهیلہ جو نصف حد تک کاغذ وخطوط سے بهرا ہوا، آپ کے قریب تها۔ امام ایک ایک خط باہر نکالتے اور پڑهتے جا رہے تهے۔ جن خطوط کا جواب ضروری ہوتا ان کو کمبل کے نیچے رکهتے تاکہ بعد میں جواب مرقوم فرمائیں جبکہ باقی خطوط دوسری طرف رکهتے تهے۔
ہم سلام کر کے بیٹه گئے۔ امام نے حامد سے بات کرنا شروع کی۔ مثلاً پوچها کہ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ باوجودیکہ انہیں میرانام معلوم تها۔ تهوڑی دیر بعد حامد امام ؒ سے کهیلنے لگا۔ اس خاطر کہ بچہ امام کے کام میں خلل نہ ڈالے واپس نکلنے کی اجازت مانگی اور بچے کو بهی لے جانا چاہا۔ امام نے کہا: ’’بچے کو چهوڑ دو۔ اگر تمہارا کوئی کام ہے تو جا سکتے ہو‘‘ میں باہر نکلا۔ آدهے گهنٹے کے بعد خیال آیا کہ شاید بچہ امام کو تنگ کر رہا ہے۔ میں واپس آیا کہ اس کو لے جاؤں۔ دیکها کہ حامد اپنا سر امام کے زانو پر اور پاؤں دیوار پہ لگائے امام سے باتوں میں مصروف ہے اور کہتا ہے کہ اس کاغذ کو ٹهیک سے رکهیے۔ ٹهیک سے ترتیب دیجئے وغیرہ۔ بچے کی ایسی باتیں سن کر امام ہنس رہے ہیں۔ میں نے کہا: حامد آؤ چلیں۔ اس نے انکار کردیا۔ میں نے امام سے کہا: اجازت ہے کہ اس کو لے جاؤں؟ آپ کو تنگ کر رہا ہے۔ امام نے فرمایا: ’’نہیں! بچہ تنگ نہیں کر رہا۔ آپ جائیے‘‘۔