جواب: پہلوی حکومت کے اواخر میں جبکہ امام خمینی ؒعراق میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تهے ، نیویارک میں عراق و ایران کے وزراء خارجہ کی ملاقات ہوئِی اور اس ملاقات میں امام خمینی کے عراق سے نکالنے کے منصوبے کا دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ نے اعلان کیا۔ ۱۳۵۷ه ش میں ستمبر کی پہلی تاریخ کو نجف میں بعثی فوج نے امام کے گهر کامحاصرہ کرلیا۔ جب یہ خبر پهیلی تو عراق و ایران اور دیگر ممالک کے مسلمانوں میں غم و غصہ اور ناراضگی کی لہر پهیل گئی اور سب نے اس اقدام کی پر زور مخالف کی ۔ عراق کے رئیس ادارہ امنیت نے امام خمینی سے ملاقات میں کہا تها کہ آپ اس ملک میں اس شرط کے ساته رہ سکتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد سے ہاته کهینچ لیں اور سیاست میں دخل نہ دیں اور امام نے مستحکم عزم کے ساته جواب دیا کہ امت اسلام کے تئیں جو ذمہ داری محسوس کرتا ہوں اس کی وجہ سے نہ سکوت اختیار کروں گا اور نہ ہی کسی قسم کی مصالحت کا قائل ہوں۔ ۴/اکتوبر کو امام نے عراق کو کویت کے ارادہ سے ترک کردیا۔ کویت کی حکومت نے شاہ ایران کے اشارہ پر امام کے کویت میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ پہلے لبنان یا شام کی جانب امام کی ہجرت کی بات ہوچکی تهی لیکن آپ نے اپنے فرزند )حجۃ الاسلام احمد خمینی( سے مشورہ کرنے کے بعد فرانس ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔
امام خمینی رح ۶/اکتوبر کو پیرس میں پہنچے اور دو دن کے بعد پیرس کے اطراف میں واقع نوفل لوشاتو میں ایک ایرانی کے گهر میں منتقل ہوگئے۔ قصرالنیرہ کے مامورین نے فرانس کے صدر کی یہ بات امام کے گوش گزار کی کہ وہ کسی بهی طرح کی سیاسی سرگرمی سے اجتناب کریں گے۔ آپ نے ایک شدید اور تند ردعمل میں اس بات کی تصریح کی کہ اس طرح کی پابندی ڈیمو کریسی کے خلاف ہے اور اگر میں مجبور ہوجاوں کہ ایک ایرپورٹ اور ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کروں اور کہیں جائے پناہ نہ ملے تب بهی میں اپنے ہدف سے ہاته نہیں کهینچوں گا۔ امام چار مہینہ سے ملک فرانس میں رہے کہ اس مدت میں نوفل لوشاتو ایک چهوٹا دیہات دنیا کے اہم ترین خبر ی مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ خبرنگاروں ، مفکروں اور خارجی طالب علموں کی جماعتوں سے امام کی مختلف ملاقاتوں اور انٹرویوز نے حکومت اسلامی کے حوالے سے آپ کے نظریات اور اہداف و مقاصد تحریک کو پوری دنیا کے لوگوں تک پہنچایا۔ اس طرح سے دنیا کے بہت سارے لوگ آپ کے تفکر اور قیام سے آشنا ہوئے۔ حضرت امام نے اسی چهوٹے سے دیہات سے ایران میں بحرانی ترین دوران تحریک کی رہبری کی۔