سوال: خزانہ اوراس کی تشخیص کے لئے کیا معیار ہے؟
جواب: خزانہ اوراس کی تشخیص کے لئے عرف معیار ہے ۔لہذا اگرا س کے مالک کاپتہ نہ ہوتوتمام صورتوں میں یہ اس کی ملکیت ہے جسے ملے چاہے کافر وں کے علاقوں میں ملے یااسلامی علاقوں میں سے غیر آباد زمین یا خرابے میں چاہے اس پر اسلام کی (حکومت کی ) کوئی نشانی ہویانہ ہواورپانے والے پر واجب ہے کہ اس کاخمس اداکرے ۔ تاہم اگروہ ایسی زمین میں خزانہ پائے کہ جوخریدنے کے ذریعے یاکسی اورذریعے سے اس کی ملکیت ہوگئی ہوتواس خزانے کی اطلاع اس صورت میں مالک ماقبل کودے کہ اسے احتمال ہوکہ یہ خزانہ اس کاہے ۔لیکن اگر اسے بھی اس کاپتہ نہ ہوتواس سے پہلے مالک کااطلاع کرے یہاں تک کہ بات ایسے شخص تک پہنچے کہ جس کے بارے میں علم نہ ہویا (یہ سلسلہ تحقیقی ایسے شخص پر منتہی ہوکہ )جس کے بارے میں احتمال نہ ہوکہ یہ خزانہ اس کاہے اس صورت میں یہ خزانہ اس کااپنا ہوگااوراس صورت میں خمس کی ادائیگی اس پرواجب ہے کہ جب سونا ہونے کی صورت میں اس کی مقدار بیس دینار تک ہواورچاندی ہونے کی صورت میں دوسودرہم تک ہواوراگران کے علاوہ کوئی اورچیز ہوتوپھران دونوں میں سے کسی بھی مقدار کے مطابق ہوتواحوط کی بناپر مثال کے طور پر کسی خریدے ہوئے چوپائے کے پیٹ میں سے کچھ مل جائے تووہ بھی خزانے کے احکام سے ملحق ہوجائے گا۔پس اگربیچنے والے کو اس کی خبر نہ ہوتواس پر خمس واجب ہے اوراس میں حدنصاب تک پہنچنا ضروری نہیں ۔مزید برآں یہ کہ بنابراحوط جوکچھ مچھلی کے پیٹ میں سے بر آمد ہو وہ بھی خزا نے سے ملحق ہو گابلکہ چند انتہا ئی استثنا ئی صور تو ں کے علاو ہ بیچنے وا لے کواس کی اطلاع دینا بھی ضروری نہیں ،بلکہ چوپایوں اورمچھلی کے علاوہ دیگر حیوانات بھی احوط کی بناپر اسی حکم میں ہیں ۔
تحریر الوسیلة، ج 2، ص 54