کیا اسلامی جمہوریت کے بانی ( امام خمینی رح) اپنے آپ پر بنیادی قانون کی رعائت ضروری سمجھتے تھے یا اپنے لئے اس سے ہٹ کر کچھ اختیارات کے قائل تھے؟
جواب: جہاں تک امام (رح) کے قول و فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام (رح) مسلسل عمومی آراء اور لوگوں کی تقدیر معین کرنے میں ان کے حق کی رعائت پر مبنی اسلامی جمہوریت کی بنیاد کی تاکید کرتے ہوئے اپنے آپ کے لئے تمام قسم کے قوانین اور ان میں سر فہرست بنیادی قانون کی رعائت لازمی سمجھتے تھے حتی اجرائی و عدالتی و قانونی مسائل میں مداخلت نہیں کرتے تھے جبکہ انقلاب کی ابتدا میں ان امور کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور امام (رح) سب کو شوق دلاتے تھے کہ قانونی دائرے میں حرکت کریں اور اس سے ہٹ کر کسی چیز کی توقع نہ رکھیں۔ واضح ہے کہ جس رہبر نے عظیم الشان انقلاب کی ہدایت کی اور اسے بارآور کیا نیز ہر وقت و ہر لمحہ اس کے سلسلہ میں دشمنوں کی سازش و فریب و مکاری کا خطرہ بھی محسوس کیا، عقلی و منطقی طور پر ہمیں اس رہبر کو یہ حق دینا چاہئے کہ وہ اضطراری صورت میں جدید نظام انقلابی کی حفاظت کی خاطر کچھ مقامات پر قانون سے ہٹ کر عمل کرے۔ لیکن جہاں تک امام (رح) کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے یہ مقامات بہت شاذ و نادر تھے۔ حسب ذیل دو قول نقل کئے جارہے ہیں جو اس موضوع کے بارے میں امام (رح) کی بنیادی نگاہ کی حکایت کرتے ہیں:
" ولایت فقیہ" ان امور پر ولایت ہے جنہیں ولی فقیہ اپنے راستے سے خارج نہ ہونے دے۔ پارلیمنٹ، صدر پر نظارت، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی خطا کر ڈالے، وزیر اعظم پر نظارت کہ کہیں کوئی خطا نہ ہو جائے، تمام امور پر نظارت، فوج و آرمی پر نطارت کہ کہیں کوئی غیر قانونی کام انجام نہ دے، ہم ڈیکٹیٹرشپ کا خاتمہ چاہتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ڈیکٹیٹرشپ ہو،ہم چاہتے ہیں ولی فقیہ ڈیکٹیٹرشپ کے خلاف ہو، ولایت فقیہ ڈیکٹیٹرشپ کی ضد ہے نہ ڈیکٹیٹرشپ۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۱۱)
اسلام قانونی دین ہے، پیغمبرؐ بھی قانون کے خلاف کوئی کام انجام نہیں دے سکتے اور نہ ہی انجام دیا البتہ انجام بھی نہیں دے سکتے تھے۔ خدا، پیغمبرؐ سے کہتا ہے کہ اگر ایک لفظ بھی خلاف بولو گے تو ہم آپ کی شہ رگ کاٹ ڈالیں گے۔ یہ قانونی حکم ہے۔ خدائی قانون کے علاوہ کسی کا قانون نہیں چلتا، اس کی حکومت سے ہٹ کر کسی کی حکومت نہیں ہے، نہ فقیہ اور نہ ہی غیر فقیہ کی۔ تمام قانون کے تحت عمل کرتے ہیں، تمام قانون کے مجری ہیں چاہے وہ فقیہ ہو یا غیر فقیہ سب کو قانون کے تحت ہونا چاہئے۔ (صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۵۳)