غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داریاں

یہ بات یاد رہے کہ صرف گھر میں بیٹھ کر دعا پڑھنے سے حجت خدا اور دینی راہنما کے ظہور کا زمینہ فراہم نہیں ہو گا اگر ہمیں ان کے ظہور کا زمینہ فراہم کرنا ہے تو دعاوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنے امام عصر (عج) کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کیلئے میدان عمل میں وارد ہوں اور اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں تاکہ دنیا بھر کے مظلومین کی دادرسی کی جاسکے۔

ID: 63653 | Date: 2020/04/08

غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داریاں


جس زمانے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اسے عصر غیبت کہا جاتا ہےعصر غیبت سے مراد ایسا زمانہ جب دنیا میں موجود حجت اور خلیفۂ خدا نظروں سے اوجھل ہو اور دنیا والے اسکی آمد اور اسکے ظہور کا انتظار کر رہے ہوں ایسے دور میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ افراد جو اپنے امام، پیشوا، آقا و مولا یا حجت خدا کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اپنے امام کے سلسلے میں ان پر کون سے فرائض عائد ہوتے ہیں؟  عصر غیبت میںں ہماری وہی ذمہ داریاں ہیں جو عصر معصوم علیھم السلام میں ہم پر عائد ہوتی ہیں عصرغیبت میں منتظرین کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہیکہ وہ قرآن ور اہل بیت علیھم السلام کے احکامات پر عمل کر کے حجت خدا کے ظہور کا زمینہ فراہم کریں کچھ اہم ذمہ داریاں منتظِر معاشرے پر عائد ہوتی ہیں جن کو مختصرا یہاں پیش کرتے ہیں:


1۔جس دین کا راہنما ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اس دین کی مکمل معرفت اور پہچان ضروری ہے یعنی دینی عقائد اور احکام سے آگاہ ہوا جاے کیوں کہ احکام اور عقائد سے آگاہی ہی ایمان کو مضبوط بناتی ہے۔


2۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں یعنی انسان جس ہستی کا انتظار کر رہا ہے اسے پہچانے اور اس کے کمالات اور اوصاف کی معرفت حاصل کرے کیوں کہ کسی کی معرفت کے بغیر اس کی پیروی اور اس سے محبت نہیں کی جا سکتی۔


3۔ قرآن اور اہل بیت علیھم السلام کے فرامین کے مطابق زندگی بسر کی جاے کیوں کہ ان کے علاوہ دوسرا کوئی دین کی حقیقت نہیں بیان کرسکتا۔


4۔غیبت کے زمانے میں کہ جب امام اور حجت خدا ہماری نظروں سے اوجھل ہیں تو ایسے وقت میں مراجع کرام اور ولی فقیہ کی پیروی کریں کیوں کہ عصر غیبت میں دین کی تبلیغ اور تشہیر کی ذمہ داری علماء کرام بالخصوص مراجع کرام کو سونپی گئی ہے لہذا ہمیں اپنے دینی اور سیاسی مسائل میں ان کی طرف رجوع کرنی ہو گی۔


4۔حجت خدا کے ظہور کے لئے زمینہ ہموار کرنے کے لئے ضروی ہیکہ دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ مل جل کر رہا جاے کیوں کہ منجی کا تصور صرف مسلمان میں ہی نہیں بلکہ یہ تصور دوسرے مکاتب فکر میں بھی پایا جاتا ہے بالخصوص حقیقی منتظران کو ہمدلی اور یکجہتی سے ظہور کا زمینہ فراہم کرنا ہوگا۔


5۔ تقوٰی اور پرہیزگاری انسان کو اپنے امام کی طرف گامزن کرتی ہے اور اس سے معاشرے میں پائی جانے والی برائیاں ختم ہوتی ہیں۔


6۔ اپنے اور دوسروں کے دلوں میں امام زمانہ(عج) کی محبت اجاگر کی جاے اور زندگی میں کسی بھی کام کو انجام دینے سے پلے یہ سوچنا ہو گا کہ میرے ہر کام کو میرا امام دیکھ رہا ہے۔


7۔ جس قوم میں احساس اور محبت نہ ہو وہ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی لہذا عصر غیبت میں برادران دینی کے حقوق کی رعایت کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور بالخصوص مومنین کا دفاع اور ان کی مدد کرنا ہمیں اپنے امام کے قریب کر سکتی ہے۔


یہ بات یاد رہے کہ صرف گھر میں بیٹھ کر دعا پڑھنے سے حجت خدا اور دینی راہنما کے ظہور کا زمینہ فراہم نہیں ہو گا اگر ہمیں ان کے ظہور کا زمینہ فراہم کرنا ہے تو دعاوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنے امام عصر (عج) کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کیلئے میدان عمل میں وارد ہوں اور اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں تاکہ دنیا بھر کے مظلومین کی دادرسی کی جاسکے۔