امام خمینی (رح) نے کس کو رہبر کے عنوان سے یاد کیا ؟

امام خمینی (رح) کے ایران آنے کے بعد انہوں نے امام سے ملاقات کی اور سن 1979ء کے سردی کے موسم میں انقلاب اسلامی کے احتجاجات میں شرکت کی

ID: 61336 | Date: 2019/10/30

امام خمینی (رح) نے کس کو رہبر کے عنوان سے یاد کیا ؟


محمد حسین فہمیدہ 6/مئی 1967ء کو شہر قم کے پامنار محلہ میں پیدا ہوئے۔ سن 1973ء قم کے کریمی پرائمری اسکول میں داخل ہوئے اور اگست 1977ء سے اپنی تعلمیات شہر قم کے سیکنڈری اسکول حافظ میں جاری رکھیں۔ اس کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ ایران کے شہر کرج ہجرت کرگئے اور اگست 1979ء خیابانی اسکول میں مشغول تعلیم ہوئے۔


امام خمینی (رح) کے ایران آنے کے بعد انہوں نے امام سے ملاقات کی اور سن 1979ء کے سردی کے موسم میں انقلاب اسلامی کے احتجاجات میں شرکت کی اور خوزستان صوبہ کے مڈبھیڑ میں شرکت آپ کا ایک اقدام ہے۔ یہ اسب اس وقت کیا جب 10/ یا 11/ سال کے تھے۔


محمد حسین فہمیدہ با اخلاق اور اچھے سلوک کے ایک نوجوان تھے۔ یہ شجاع، سرگرم اور بہت کوشش کرنے والے انسان تھے۔ انھیں مطالعہ سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ بالغ نہ ہونے کے باوجود نماز پڑھتے اور اپنے والدین کا خاص احترام کرتے تھے۔


یہ امام خمینی (رح) کے عاشق اور شیفتہ تھے اور اپنے پورے وجو د کے ساتھ امام کے فرامین کو اجرا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے؛ امام جو چاہیں گے میں وہی کروں گا اور میں ان کے ارادہ اور فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں۔ یہ مجاہد عوامی طالب علم با ایمان اور عمیق اور ثابت بصیرت کے ساتھ دشمن سے جنگ میں پیشقدم تھے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو کر تمام امت حزب اللہ اور عوامی مجاہدوں کو شجاعت، جاں نثاری اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور دشمن سے ہراساں نہ ہونے کا درس دیا۔


امام خمینی (رح) نے اس 13/ سالہ بچہ کو رہبر کے عنوان سے یاد کیا اور اس طرح سے ان کا نام اور ان کی یاد عظیم انقلاب کا سرچشمہ قرار پائی اور اسلامی سپاہیوں کے اندر دفاع مقدس اور جنگ کا طریقہ ایجاد کیا اور یکے بعد دیگرے کامیابی اور کامرانی کی راہ ہموار کی۔


یہ اسلام کا نامور اور مخلص سپاہی کمانڈروں کے انکار کرنے کے باوجود اپنے اصرار سے بارڈر پر گیا۔ اس مختصرمدت میں جو کام بھی ہوتا تھا۔ حسین فہمیدہ آگے آگے تھے اور انہوں نے اپنی استعداد اور صلاحیت ہر میدان میں دکھائی۔ خرم شہر میں اس مختصر مدت قیام کے دوران اپنے دوست محمد رضا شمس کے ساتھ زخمی ہوگیا اور دونوں ہی اسپتال میں لے جائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی مکمل زخمی بھرے بھی نہیں تھے کہ دوبارہ محاذ پر جانے کے لئے اصرار کرتے ہیں۔ کبھی عراقی سپاہیوں کے لباس میں اپنے ملک اور دین کا دفاع کرتے ہیں۔ ایک بار جب انہوں نے دیکھا کہ عراقی ٹینکوں نے اسلامی سپاہیوں کا محاصرہ کرلیا ہے تو یہ اپنے کمر میں بم باندھ کر ٹینک سے ٹکرا جاتے ہیں اور اپنی جان راہ حق میں قربان کردیتے ہیں۔


خداوند عالم ہم سب کو یہی شعور اور جذبہ دے تا کہ ہم اسلامی اور انسانی ناموس کی حفاظت کرسکیں۔ ایسے مجاہدوں میں لاکھوں درود و سلام۔