سادہ زیستی

قرآن کریم اکثر مقامات پر انبیاء کے اجر نہ مانگنے کی حکایت کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ کسی طرح دنیا سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے اور خود کو ہمیشہ دنیا اور اس کے زرق و برق سے بے نیاز سمجھتے تھے

ID: 59509 | Date: 2019/07/05

اگر آپ بے خوف و خطر باطل کا مقابلہ کرنا چاہیں اور حق کا دفاع کریں اور بڑی طاقتوں، ان کے جدید ترقی یافتہ اسلحے، شیاطین اور ان کی سازشیں آپ میں اثر انداز نہ ہوں اور تم کو میدان چھوڑنے پر مجبور نہ کریں؛ تو خود کو سادہ زیستی کی عادت دو۔ اور دل کو مال و منال، جاہ و مقام اور شہرت و دولت سے تعلق پیدا کرنے سے دور رکھو۔ تاریخ کے بلند مرتبہ افراد نے جو قوم کی بڑی سے بڑی خدمت کی ہے تو انہوں نے خود کو دنیا و مافیھا کے تعلق سے الگ رکھا ہے۔ اور اکثر لوگ سادہ زیست اور دنیاوی زرق و برق سے دور رہے ہیں۔ جو لوگ پست حیوانی اور نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار تھے اور ہیں وہ لوگ اسے محفوظ کرنے کے لئے ہر ذلت و خواری کے لئے تیار رہتے ہیں۔ (صحیفہ امام، ج 18، ص 471)


میری ایک دینی تاکید سادہ زیستی اور دنیا میں زہد ہے، کیونکہ جو انسان جس قدر مادی زندگی کو دیکھے گا اتنی ہی وابستگی بڑھتی جائے گی۔ انبیاء اور اولیائے دین کی زندگی میں ان کی سب سے بڑی خصلتیں سادہ زیستی اور دنیا کی طرف بے توجہی ہے۔ رسولخدا (ص) کی زندگی میں جو چیز بیان ہوئی ہے ساری کی ساری دنیا و مافیھا سے بے رغبتی بیان ہوئی ہے۔ کم سے کم متاع دنیا پر قناعت، بے چارہ لوگوں کی ہمراہی، غریب و بے کس کی امداد اور بوریا نشینوں کی ہم نشینی، پریشان حال افراد کی خبر گیری اور کم سے کم اسباب زندگی پر قناعت اور لوگوں سے رابطہ میں کم خرچ ہونا، ہمیشہ فقراء اور مساکین کے ساتھ ہونا اور ان کی ہمراہی اور دل جوئی انبیاء کی خصلت رہی ہے۔


قرآن کریم اکثر مقامات پر انبیاء کے اجر نہ مانگنے کی حکایت کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ کسی طرح دنیا سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے اور خود کو ہمیشہ دنیا اور اس کے زرق و برق سے بے نیاز سمجھتے تھے۔ انسان جب تک مادی زندگی سے دل نہیں ہٹائے گا وہ حقیقت میں خدا کا گرویدہ اور امور الہی کا صاحب نہیں ہوسکتا۔


امام خمینی (رح) ماہ مبارک رمضان میں خدا کی مہمانی تک پہونچنے کے لئے اس نکتہ کی تاکید کرتے ہیں:


ہم یہاں پر عرض کریں کہ سارے انسانوں سے یہ معنی مطلوب ہے اور اگر خدا کی مہمانی میں شامل ہونا چاہیں تو وہ اپنی صلاحیت کے بقدر دنیا سے دوری کریں اور دنیا سے منہ موڑ لیں۔ (صحیفہ امام، ج 17، ص 491)


آپ نے اپنی اخلاقی کتابوں میں زہد، اس کے مراتب اور آثار کو بیان کیا ہے اور اسے شرح صدر کی علامت اور قلب کے آخرت کے لئے آمادہ ہونے کی نشانی اور بعثت انبیاء کا ذاتی مقصد اور معنوی مقامات تک پہونچنے کی راہ جانا ہے۔