شب قدر اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت

حضرت زہراء (ع) بھی اس درجہ عبادت کرتی تھیں کہ امام حسن (ع) فرماتے ہیں: دنیا میں فاطمہ زہرا (ع) سے زیادہ عبادت کرنے والا کوئی نہیں تھا اتنی عبادت کرتی تھیں کہ آپ کے قدم مبارک ورم کر جاتے تھے۔

ID: 59095 | Date: 2019/05/28

شب قدر اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت


شب قدر کا قرآن اور روایات کی روشنی میں بہت عظیم مرتبہ ہے اور بہت فضیلت کی حامل ہے۔ یہاں تک شب قدر کو ہزار ماہ کے برابر مانا گیا ہے۔ اس رات کو نزول قرآن اور ایک  سال کے مقدرات کی تعیین کی رات کہا گیا ہے۔ یہ رات بہت ہی مبارک اور فضیلت و عظمت کی حامل ہے۔ روایات میں شب قدر کو گناہوں کے بخشے جانے کی رات کہا گیا ہے اور جو اس رات میں بخشا نہ جائے وہ خدا کی نفرین اور لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: "من حرمہا فقد حرم الخیر کلہ؛ جو شب قدر سے محروم ہوا وہ تمام خیر سے محروم ہوا" شب قدر کی عظمت و فضیلت کی روشنی میں اس رات کا ائمہ معصومین (ع) کی سیرت میں جائزہ لیں گے۔


اس رات میں عبادت اور شب زندہ داری


پوری سال میں خصوصا ماہ مبارک رمضان کی راتوں بالخصوص شب قدر میں جن اعمال کی تاکید ہوئی ہے۔ وہ احیاء اور شب زندہ داری ہے۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: جو شخص شب قدر میں شب بیداری کرے تو اس آئندہ سال تک عذاب سے نجات مل جاتی ہے۔


ائمہ معصومین (ع)ان تمام سنت حسنہ کی رعایت اور پاس  و لحاظ کرتے تھے اور اس کی قدردانی کرتے تھے۔ رسولخدا (ص) نہ صرف شب قدر میں بیدار رہتے تھے بلکہ ماہ مبارک رمضان کے تیسرے عشرہ میں بستہ سمیٹ دیا کرتے تھے اور عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں تک بارش کی راتوں میں بھی جبکہ مسجد مدینہ میں چھت نہیں تھی رات بھر عبادت کرتے تھے اور شب بیداری کو ترک نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اپنی رفتار سے تشویق کرتے تھے تا کہ لوگ شب زندہ داری کریں اور نماز پڑھیں۔


حضرت زہراء (ع) بھی اس درجہ عبادت کرتی تھیں کہ امام حسن (ع) فرماتے ہیں: دنیا میں فاطمہ زہرا (ع) سے زیادہ عبادت کرنے والا کوئی نہیں تھا اتنی عبادت کرتی تھیں کہ آپ کے قدم مبارک ورم کر جاتے تھے۔ شبہائے  قدر میں نماز جماعت سے پڑھنے کی بڑی تاکید ہے۔


پانچویں امام، حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: جو کوئی شب قدر میں شب بیداری کرے تو خداوند رحیم اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ امام حسن عسکری (ع) بھی اپنے آباؤ و اجداد کی طرح طولانی مناجات کرتے اور پورے سال خصوصا شب قدر میں شب زندہ داری کرتے اور اپنے شیعوں اور چاہنے والوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے: 23/ ویں شب کو شب بیداری ترک نہ ہونے پائے۔  حضرات ائمہ معصومین (ع) جس بات کی طرف زیادہ متوجہ تھے اور جس پر عمل کرتے تھے وہ شب قدر میں مسجد میں حاضر ہونا تھا۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: ماہ مبارک رمضان میں ایک واقعہ رونما ہوا ہے جس کے ابعاد و جوانب اور جس کی حقیقت تا ابد ہمارے جیسے افراد کے لئے مبہم رہے گی اور وہ نزول قرآن ہے۔ شب قدر میں رسولخدا (ص) کے قلب مبارک پر قرآن کا نزول ہے۔


اس شب میں بھی گذشتہ شبوں کی طرح عمومی اور اس شب سے مخصوص اعمال ہیں۔ شب قدر کی تعیین کے بارے میں نظریاتی اختلاف ہے لیکن اس موضوع سے متعلق وارد شدہ روایات اور رسولخدا (ص) و ائمہ معصومین (ع) اور اصحاب کی سیرت کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے: ماہ مبارک رمضان کی 23/ شب ، کا شب قدر ہونا یقینی ہے اور 19/ ویں اور 21/ ویں کی شب اس کے ادراک کا وسیلہ ہے۔


خداوند سبحان کی بارگاہ قدس میں عاجزانہ درخواست اور التجا ہے کہ ہم سب کو شب قدر کا ادراک عطا فرمائے اور اس کی فضیلتوں سے فیضیاب کرے۔ آمین۔