امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں

نفسانی خواہشات کی غلامی

بعض انسان اپنی نجات کے لئے سب کچھ کرتے اور دوسروں کو ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات کے جال سے نکالنے میں لگادیتے ہیں اور اس فانی دنیا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے

ID: 58874 | Date: 2019/05/11

امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں


نفسانی خواہشات کی غلامی


انسان اپنی رفتار و گفتار میں دو طرح سے عمل کرتے ہیں: کبھی زمینی ہوتے ہیں اور ان کا سارا ہم و غم فانی دنیا کے لئے ہوتا ہے اور اپنی پوری بہتر سے بہتر دنیاوی زندگی اور عیش و عشرت کے لئے ہی جانتا ہے اور اس کی شب و روز کی تگ و دو بھی اسی کے لئے ہوتی ہے اور بس، اور اس کی فکر کا محور زرق و برق دنیا بنانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔


بعض انسان اپنی نجات کے لئے سب کچھ کرتے اور دوسروں کو ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات کے جال سے نکالنے میں لگادیتے ہیں اور اس فانی دنیا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ انبیائے الہی سارے کے سارے دنیا سے قطع تعلق اور عالم بالا سے متصل اور مربوط تھے۔ امام خمینی (رح) اپنے بیانات میں اس سلسلہ میں بہت ساری تنبیہات اور بیداری رکھتے تھے اور دنیا کے اسیر انسانوں اور آخرت سے بے خبر افراد کی مذمت کرتے تھے۔ آپ نے خود کو اس طرح سے بنایا تھا کہ دنیا سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ دوسروں کو اور مسلسل اس کی تاکید بھی کرتے رہتے تھے۔ لوگوں کو اس دنیا میں اپنی عمر کو ضائع کرنے سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔


جان لو کہ انسان نفس کا قیدی اور خواہشات کا اسیر ہے اور اس کی گردن میں طولانی شہوت اور غضب کا طوق پڑا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں وہ  روحانی اور معنوی مقامات میں سے کسی ایک مقام کا مالک نہیں سوسکتا۔ اس کے نفس کی باطنی سلطنت اور اس کا نافذ ارادہ ظاہر نہیں ہوسکتا اور مقام استقلال اور عزت نفس جو عظیم روحانی کمال ہے، انسان کے اندر پیدا نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ قید اور بندگی باعث ہوگی کہ انسان اپنے نفس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے سرپیچی نہیں کرے گا اور کسی حال میں نفس کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکے گا۔ اور جب نفس کے اندر نفس امارہ اور اس کے باطن میں شیطان کی حاکمیت مضبوط ہوجائے گی تو اپنی ساری طاقت اس کی اطاعت میں لگادے گا، اس کے سامنے خضوع و خشوع کرے گا اور اس کی غلامی اور بندگی کو اپنا امتیاز جانے گا۔ ایسے لوگ صرف گناہ کرنے پر اکتفاء نہیں کریں گے بلکہ آہستہ آہستہ بڑے بڑے گناہ کی جرات کریں گے۔ اس کی وجہ سے عقائد سست پڑ جائیں گے، افکار میں ظلمت و تاریکی آئے گی اور پھر اس کی بعد انکار پر انکار کرے گا، اسے کوئی اچھی بات بھلی نہیں معلوم ہوگی، نفس کی غلامی کی زنجیر اتنی زیادہ مضبوط ہوجائے گی کہ پھر اس سے آزاد ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن اور محال ہوجائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہوا و ہوس کا اسیر اور قیدی انسان انبیائے الہی اور اولیائے ربانی سے بغض و دشمنی کرے گا اور ان کا زبردست مخالفین بن جائے گا۔ (شرح چہل حدیث، ص 258)


خداوند عالم سے یہی دعا اور عاجزی کے ساتھ التجا ہے کہ ہم انسانوں کو اس ظلمت و تاریکی اور آخرت سے دوری کے اسباب سے بچائے اور اپنا سچا پیروکار بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم سب قرآن و حدیث سے ماخوذ معارف نبوی اور علوی کے حامل بن کر اپنی اور دوسروں کی نجات کا سامان فراہم کرسکیں۔ آمین۔