حضرت زھرا (س) کی شرافت و فضیلت

جناب فاطمہ(س) کے چھوٹے سے گھر میں تربیت یافتہ افراد تعداد کے اعتبار سے اگرچہ صرف چار یا پانچ افراد تھے لیکن حقیقت میں وہ خداوند متعال کی قدرت کی جلوہ گاہ تھے

ID: 57548 | Date: 2019/02/08

حضرت زھرا (س) کی شرافت و فضیلت


حضرت زھرا (س) کا گھر خداوند متعال کی جلوہ گاہ


جناب فاطمہ(س) کے چھوٹے سے گھر میں تربیت یافتہ افراد تعداد کے اعتبار سے اگرچہ صرف چار یا پانچ افراد تھے لیکن حقیقت میں وہ خداوند متعال کی قدرت کی جلوہ گاہ تھے انہوں نے وہ خدمات انجام دیں کہ میں، آپ بلکہ پوری انسانیت ان کی خدمات پر تعجب کا شکار ہے زمانے کی حکومت کے سامنے جناب فاطمہ (س) کا خطبہ،پچیس سال حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا صبر اور اسی کے ساتھ ساتھ حکومت کی ہمکاری، اور اس کے بعد راہِ اسلام میں فداکاری، نیز ان کے دونوں بیٹوں یعنی امام حسن مجتبیؑ اورحضرت سید الشھداءؑ کی فداکاریاں ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہم سب جانتے ہیں۔ امام حسن مجتبیؑ نے بہت بڑی خدمت انجام دی جس کے نتیجہ میں انہوں نے اموی ظالمانہ حکومت کو رسوا کیا نیز امام حسین سید الشھداءؑ نے اسباب و ذرائع کی کمی کے باوجود اپنے اصحاب کی روحوں اور ایمانی روحوں کو کہ جو حقیقت میں خدائی روحیں تھیں، اس طرح مضبوط کیا کہ انہوں نے اپنے زمانے کے تمام ستمگروں پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے اسلام کو زندہ کر دیا۔ (صحیفۂ امام، ج۱۶، ص۸۸)


جناب فاطمہ (س) تمام خواتین کے لئے نمونۂ عمل


 تہذیبِ اخلاق اور دوسروں کو اخلاق کی تعلیم دینے میں بھی ان تمام حیثیتوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو جو ایک عورت کی عظیم الشان حیثیت ہے اور اس میں حضرت زھرا (س) کی مثالی زندگی کو نمونۂ عمل بنانے کی کوشش کرو اور ہم سب کو انہیں اپنے لئے  نمونۂ عمل قرار دینا چاہئے، ہمیں ان اور ان کی اولاد سے اسلام اور اسلامی قوانین سیکھنا چاہیے اور ہمیں ان (جناب زھرا سلام اللہ علیھا) کی طرح زندگی بسر کرنا چاہیے۔ (صحیفۂ امام، ج۱۹، ص۱۸۴)


حضرت زھرا (س) کی شرافت و فضیلت


  امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: میں حضرت صدیقہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ کہنے سے خود کو قاصر سمجھتا ہوں لہذا میں صرف ایک روایت پر اکتفا کرتا ہوں جو کتابِ کافی میں موجود ہے اور معتبر سند کے ساتھ منقول ہے وہ روایت یوں ہے کہ حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامیؐ کے بعد ۷۵ دن زندہ رہیں نیز ان ایام میں غم و حزن بھی ان پر غالب تھا اس دوران جبرائیل امین ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تعزیت پیش کرتے تھے اور آئندہ کے مسائل بھی ان کے سامنے بیان کرتے تھے۔ اس روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے ان ۷۵ دنوں میں جبرائیل کی رفت و آمد مسلسل تھی اور میرے خیال کے مطابق انبیائے اولوالعزم کے علاوہ کسی کے بارے میں ذکر نہیں ہوا ہے کہ ۷۵ دن تک مسلسل جبرائیل کی رفت و آمد رہی ہو اور آئندہ کے مسائل بیان کئے ہوں اور جو مسائل جناب زھرا (س) کے سامنے جبرائیل بیان کرتے، حضرت علی علیہ السلام ان کو مرقوم کرتے تھے کیونکہ زمانہ رسول خداؐ میں حضرت علی علیہ السلام کاتبِ وحی تھے اور اس مقام پر بھی وہ کاتبِ وحی تھے فرق یہ ہے کہ زمانہ رسول خداؐ میں جو وحی نازل ہوتی تھی وہ احکام پر مشتمل تھی اور یہ آئندہ کے مسائل پر مبنی تھی۔ جبرائیل کا کسی شخص پر نازل ہونا کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہیں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ جبرائیل ہر کسی پر نازل ہوسکتے ہیں اور ان کے نزول کا امکان پایا جاتا ہے بلکہ اس کام کے لئے مناسبت لازمی ہے یعنی جس شخص پر وہ نازل ہونا چاہتے ہیں اس کی روح اور مقامِ جبرائیل کے درمیان تناسب کا پایا جانا لازمی ہے کیونکہ وہ روحِ اعظم ہیں اب چاہے ہم اس چیز کو تسلیم کریں کہ جبرائیل کا نزول اس ولی خدا یا پیغمبر کی روح اعظم کی بنا ہے کہ اس کی روح کا تقاضا یہ ہے کہ جبرائیل کا نزول ہو یا ہم یہ تسلیم کریں کہ خداوند متعال حضرت جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور ان مسائل کو بیان کرو۔ چاہے ہم اس کو مانیں جسے صاحبانِ نظر کہتے ہیں یا اس کو مانیں جسے اہل ظاہر تسلیم کرتے ہیں دونوں صورتوں میں جب تک دونوں یعنی اس شخص کی روح اور روح اعظم یعنی جبرائیل کے درمیان تناسب نہ پایا جاتا ہو نزول جبرائیل نا ممکن ہے اسی تناسب کی وجہ سے اولوالعزم انبیاء جیسے حضرت رسول خداؐ، حضرت موسی و عیسی و ابراھیم علیھم السلام وغیرہ پر نزولِ جبرائیل ہوتا تھا جنہیں روح اعظم کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لئے تاریخ میں نہیں ملتا کہ جبرائیل اس پر نازل ہوئے ہوں حتی میں نے ائمہ علیھم السلام کے بارے میں بھی نہیں پڑھا کہ اس طرح جبرائیل ان پر نازل ہوئے ہوں صرف جناب زھرا (س) کے بارے میں، میں نے پڑھا ہے کہ مسلسل ۷۵ دن جبرائیل ان پر نازل ہوتے رہے اور انہوں نے جناب زھرا(س) کے سامنے ان کی نسل میں رونما ہونے والے مسائل کو بیان کیا۔ حتی ان کی نسلِ پاک میں حضرت امام زمانہ (عج) کے دور میں رونما ہونے والے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں شائد ایران کے مسائل بھی ہوں اگرچہ ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن امکان پایا جاتا ہے۔ بہر حال جناب زھرا(س) کے لئے بیان کئے جانے والے تمام فضائل و کمالات میں سے سب سے بڑی فضیلت و شرافت میرے نزدیک یہی فضیلت ہے اگرچہ وہ بھی اپنی جگہ بہت بڑے اور عمدہ فضائل ہیں لہذا میں اس فضیلت کو تمام فضائل سے بڑی و بلند فضیلت سمجھتا ہوں جو اولوالعزم انبیاء علیھم السلام کے علاوہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی حتی ان کے ہم مرتبہ بعض اولیاء کے سلسلہ میں بھی اس طرح کی فضیلت و شرافت نہیں ملتی۔ یہ جملہ نہایت ہی دلچسپ جملہ ہے کہ رسول خداؐ کے بعد جناب صدیقہ (س) کی خدمت  میں مسلسل ۷۵ دن جبرائیل کا نزول رہا ہے جو اب تک تاریخ میں کسی کے بارے میں نہیں ملتا۔ یہی وہ فضیلت  ہے جو حضرت صدیقہ (س) سے مخصوص ہے۔ صحیفۂ امام، ج۲۰، ص۴۔۶)