ایک 13/ سالہ نوجوان کس طرح شجاعت اور دلیری دکھاتا ہے ؟

شہید فہمیدہ نے اپنے اس دلیرانہ عمل سے انقلاب پیدا کردیا اور اپنے نام کو زندہ و جاوید بنادیا

ID: 56045 | Date: 2018/10/30

کیا آپ جانتے ہیں کہ روز نوجوان کونسا دن ہے؟ اس کا تاریخچہ کیا ہے؟ اس دن کو روز نوجوان کیوں کہا گیا؟ ہاں ، صحیح اندازہ لگایا کہ روز نوجوان ایک 13/ سالہ نوجوان کی بہادری اور جوانمردی کا دن ہے کہ اس نوجوان نے کمسنی کے باوجود ایسا کام کیا ہے کہ یہ کام بڑے ہوکر بھی کرسکتا تھا۔ اس نوجوان کا کارنامہ عظیم ہے۔ اس کی بہادری اور جوانمردی بے مثال اور بے نظیر ہے۔ جوانمردی کا تعلق عمر اور سن و سال سے نہیں ہے بلکہ دل سے ہے۔ بلند و بالا روح اور اعلی جذبہ سے ہے۔


13/ سالہ نوجوان شہید حسین فہمیدہ کی شہادت کے دن کو روز نوجوان کہا گیا ہے۔ 30/ اکتوبر کو اس نوجوان کی شہادت کی وجہ سے روز نوجوان رکھا گیا اور ہر سال یہ 13/ سالہ نوجوان عبرت، جوانمردی اور شجاعت کا درس دیتا هے۔ یقینا ایک 13/ سالہ نوجوان کس طرح شجاعت اور دلیری دکھاتا ہے کہ سب کو حیران کردیتا ہے۔ یہ نوجوان جنگ کے اوج کے زمانہ میں باقی تمام لوگوں کی مخالفت کے باوجود محاذ جنگ پر چلا جاتا ہے اور جاکر اس نے اپنے ملک اور عزیز وطن کی بہت مدد کی۔ اس نوجوان نے اپنے پیٹ پر بم باندھ کر عراقی کی بعثی فوج کے ٹینک سے جا کر ٹکرا جاتا ہے۔ شہید فہمیدہ نے اپنے اس دلیرانہ عمل سے انقلاب پیدا کردیا اور اپنے نام کو زندہ و جاوید بنادیا۔


واقعہ یہ ہی کہ یہ نوجوان شہید اور اس کا دوست دونوں ہی ایک ساتھ تھے۔ جب عراقی فوج نے حملہ کیا تو یہ لوگ دشمن کی فوج کے محاصرہ میں آگئے۔ اس کا دوست محمد رضا زخمی ہوگیا۔ حسین فہمیدہ نے بڑی زحمت اور مشکل سے خط کی پشت تک پہونچایااور خود اپنے جنگی مرکز پر واپس آگیا اور دیکھا کہ 5/ عراقی ٹینک اسلامی سپاہیوں پر حملہ آور ہونے والے ہیں اور انھیں قتل کرنے کی فکر میں ہیں۔ یہ دیکھے ہی محمد حسین نے اپنے پیٹ پر بم باندھا اور ٹینک کے نیچے چلا گیا۔ اس نے تاریخ جمہوری اسلامی بلکہ عالم انسانیت کی تاریخ میں ایسا کام کیا کہ بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔


مجاہد کبیر، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) اس کے بارے میں فرماتے ہیں: ہمارا رہبر اور قائد وہ 13/ سالہ نوجوان ہے جو اپنے چھوٹے دل کے ساتھ سینکڑوں قلم اور زبان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس کی قدر زبان و قلم سے کہیں زیادہ ہے۔ اس نے اپنے پیٹ میں بم باندھ کر دشمن کے ٹینک کے نیچے خود کو پھینک دیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود شربت شہادت نوش فرمالیا۔


یقینا اس بچہ کی کمسنی اور اس کا حوصلہ قدردانی کے لائق ہے۔ اس نے اپنے اس کارنامہ سے رہتی دنیا تک کے لئے اپنے ہم عمر نوجوانوں اور دنیا کے تمام انسانوں کو یہ درس دے دیا اور جہاد کا طریقہ سکھایا، اپنے ملک، وطن اور اپنی حیثیت کے لئے اپنی جان کی بازی لگا کر لوگوں کو دفاع کا طریقہ بتایا۔ اس نوجوان نے یہ بھی تعلیم دے دی کہ ملک اور اپنی عزت و ناموس کے لئے جان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔ ایک جان کی قربانی دے کر ہزاورں اور لاکھوں جانوں کو بچالینا چاہیئے۔ اسلام اور ملک جان کے دفاع میں اپنی ہر چیز کو قربان کردینا چاہیئے۔ ورنہ ایک بچہ کیا کرسکتا تھا۔ اس کے پاس ہمت و حوصلہ تھا، اس کی اپنی جان تھی اس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور باقی انسانوں اور اس وقت کے مجاہدین کو حوصلہ دے دیا کہ اس طرح سے جنگ جیتی جاتی ہے۔ صرف ہتھیار کافی نہیں ہیں بلکہ حوصلہ اور آہنی ارادہ، فکر و شعور ہونا بھی ضروری ہے اور اس سے بڑھ اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا۔


ایسے نوجوانوں کو مبارک ہو کہ انہوں نے رہتی دنیا تک کے لئے اسلام کی آبرو بچالی اور اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔ خداوند عالم ہر نوجوان اور جوان کو یہ ہمت اور حوصلہ اور عزم و ارادہ عطا کرے۔ آمین۔