مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ سوئے اور اس کے سرہانے وصیت نامہ نہ ہو

باطل کے مقابلہ میں حق کی تبلیغ اور جمہوری اسلامی کے حقیقی چہرہ کو پیش کرنے کی کوشش کریں

ID: 54792 | Date: 2018/07/25

جن احکام کی دین اسلام نے تائید کی ان میں سے ایک وصیت بھی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ قرآن کریم نے وصیت کو پرہیزگاروں کی گردن پر ایک حق جانا ہے اور سورہ بقرہ آیت 180 میں ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا جب تم میں سے کسی ایک کے احتضار کا وقت آجائے اگر کوئی اپنا مال چھوڑ رہے تو والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے نیکی کی وصیت کرے یہ پرہیزگاروں کی گردن پر ایک حق ہے۔


مذکورہ بالا آیہ کریمہ میں لفظ "کُتِبَ" وجوب پر ظہور رکھتا ہے جیسا کہ روزہ کے بارے میں " کُتِبَ علیکم الصیام..." ذکر ہوا ہے۔ اور یہ وجوب ان مواقع پر ہے جب شخص مقروض ہے یا اس کی گردن پر کوئی حق ہے۔


پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ رات کو سوئے اور اس کے سرہانے وصیت نامہ نہ ہو۔


علماء اور بزرگان دین و حذہب اور بہت سارے مومنین ہمیشہ وصیت نامہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور ضروری مسائل میں اہم ترین مسئلہ کو اس میں لکھتے تھے۔ منجملہ لوگوں اور اللہ کے حقوق کی ادائیگی آیت اللہ العظمی مرعشی (رح) کے وصیت نامہ کے بعض حصہ میں ذکر ہے:


میری تاکید ہے کہ میرے مال کا کچھ حصہ بعنوان رد مظالم خرچ کیا جائے۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ میں تاکید کرتا ہوں کہ میری طرف سے تمام مومنین بالخصوص اہل علم اور ان میں بھی خاص کر میرے شاگردوں سے معافی طلب کی جائے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی کہ کبھی درس و بحث میں ناراض ہو اور ان کے ساتھ تند کلامی کردی ہو اور خدا گواہ ہے کہ یہ اپنے اختیار سے نہیں ہوا ہے۔


دوسرے پیراگراف میں فرماتے ہیں: میں تاکید کرتا ہوں کہ کسی شخص کو معین کیا جائے تا کہ وہ بلند آواز سے میرے تشییع جنازہ میں اعلان کرے کہ اگر کسی کا میرے اوگر کوئی حق تھا اور میں اسے ادا نہ کرسکا ہوں یا ادائیگی میں کوتاہی کی ہے تو وہ مجھے معاف کردے۔


امام خمینی (رح) اپنے وصیت نامہ میں فرماتے ہیں:


باطل کے مقابلہ میں حق کی تبلیغ اور جمہوری اسلامی کے حقیقی چہرہ کو پیش کرنے کی کوشش کریں۔


وصیت کیا ہے؟


1۔ وصیت یہ ہے کہ انسان اپنے مرنے کے بعد کے لئے تاکید کرے کہ اس کے لئے کچھ امور انجام دیئے جائیں یا کہے کہ میری مرنے کے بعد اس کے مال سے کسی غیر کی ملکیت قرار دی جائے یا اپنی اولاد یا جن لوگوں کا صاحب اختیار تھا کے لئے سرپرست اور ولی معین کرے اور جس سے وصیت کرتے ہیں اسی وصی کہا جاتا ہے۔


2۔ جب انسان اپنے اندر موت کی علامت دیکھے تو فورا لوگوں کی امانتیں انھیں واپس کردے اور اگر لوگوں کا مقروض ہے اور قرض دینے کا وقت آگیا ہے تو فورا اسے ادا کردے۔ اور اگر خود نہ دے سکے یا قرض کی ادائیگی کا وقت نہیں آیا ہے تو اس کی وصیت کردے اور اپنی وصیت پر لوگوں کو گواہ بنائے، لیکن اگر اس کا قرض معلوم ہو اور اسے اطمینان بھی ہو کہ اس کے ورثہ ادا کردیں گے تو پھر وصیت کرنا ضروری نہیں ہے۔


3۔ جو شخص اپنے اندر موت کی علامت دیکھے اور اگر خمس، زکوة اور مظالم اس کی گردن پر ہیں تو فورا ادا کرے اور اگر نہ کرسکے چنانچہ خود مال رکھتا ہو یا احتمال دے کہ کوئی اسے ادا کردے گا، تو وصیت کرے۔


4۔ جو شخص اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اگر کسی کے پاس کوئی مال رکھتا ہو یا کہیں چھپا رکھا ہے کہ ورثہ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی وجہ سے ان کا حق نابود ہوجائے گا تو انہیں خبر کردینا چاہیئے۔


5۔ وصی مسلمان، بالغ، عاقل اور مورد اطمینان ہو۔


6۔ وصی میت کے مرنے کے بعد خود کو معزول نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس وصیت کو دوسرے کے حوالہ کرسکتا ہے۔


وصیت لکھنا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ حق اللہ یا حق الناس سے کوئی واجب چیز اس کی گردن پر ہو اور وصیت کے بغیر اس کے نابود ہونے کا خطرہ ہو۔