وہ جملہ جو کربلا میں بنی ہاشم کے پہلے شہید کے لئے کہا گیا

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی منزلت اور مقام

ID: 53321 | Date: 2018/04/30

فارس نیوز کے رپوٹر کی رپورٹ کے مطابق:حضرت علی اکبر سالار شہیدان امام حسین(ع)  کے بڑے بیٹے ہیں جو 33ہجری قمری کو مدینہ میں پیدا ہوے آپ کی والدہ محترمہ لیلی، ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی ہیں جن کی ماں میمونہ بنت ابوسفیان ہیں۔


حضرت اکبر علیہ السلام سب سے زیادہ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ تھے جیسا کہ آپ کے والد امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جب بھی مجھے رسولخدا (ص) کی زیارت کا اشتیاق ہوتا ہے تو میں علی اکبر (ع) کے چہرہ کو دیکھ لیتا تھا اسی وجہ سے جب عاشور کے دن میدان میں جانے کی اجازت مانگی اور میدان نبرد کے لئے روانہ ہونے لگے تو امام حسین (ع) نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر فرمایا: اللهم اشهد علی هؤلاء القوم فقد برز الیهم غلام اشبه الناس برسولک محمد خلقا و خلقا و منطقا و کنا اذا اشتقنا الی رؤیة نبیک نظرنا الیه...».


دشمن بھی حضرت علی اکبر علیہ السلام کی فضیلتوں کا قائل تھا :


شیخ مفید نے اپنی الارشاد میں نقل کیا ہے کے ابوالفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن معاویہ بن ابی سفیان نے اپنی ساتھیوں اور اتحادیوں سے کہا: آپ کی نظر میں خلافت کے لئے امت میں سے سب سے مستحق اور لائق شخص کون ہے؟


سب نے جواب دیا ہم کسی کو نہیں جانتے جو تمہارے علاوہ اس منصب کا حقدار ہو معاویہ نے کہا: ایسا نہیں ہے (اولی الناس بهذاالامر علی بن الحسین بن علی جده رسول الله و ضیه شجاعه بنی هاشم و سخاه بنی امیه ورهو ثقیف)


اس منصب حکومت کے لئے سب سے زیادہ مستحق حسین علیہ السلام کا فرزند علی اکبر علیہ السلام ہے جس کے دادا رسول خدا صلی اللہ عیہ و آلہ وسلم ہیں جس نے بنی ہاشم کی شجاعت، بنی امیہ کی سخاوت اور قبیلہ ثقیف کی خوبصورتی کو اپنے اندر جمع کیا ہے۔


حضرت علی اکبر علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں امام خمینی رح کا بیان


اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح نے اپنے اخلاقی دروس میں سے ایک درس میں فرمایا ؛ جو کچھ بھی ائمہ اطہار س اور خاص کر امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی اکبر کے بارے میں  فرمایا ہے وہ اس چیز کو بیان کرتا ہے کہ اگر حضرت علی اکبر علیہ السلام کربلا میں شہید نہ ہوتے تو وہ امام مفترض الطاعہ ہوتے یعنی ایسے امام جس کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔


تہران میں اخلاق کے استاد آیت اللہ جاودان حضرت علی اکبر علیہ السلام کی منزلت اور مقام کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی عمر مبارک اٹھارہ سال بیان کی گئی ہے، مفید نے لکھا ہے کہ انیس سے پچیس سال تک بھی بیان کی گئی ہے اور اس بات کا احتمال قوی ہے کے کربلا میں آپ کی عمر پچیس سال تھی لیکن اگر انسان کے اندر صلاحیت پائی جاتی ہو اور اس کا استاد بھی اچھا ہو اور وہ با صلاحیت بن جاے تو اس کا کیا مطلب؟


دیکھیے ہم بہت اچھی باتیں سنتے ہیں لیکن بڑے آرام سے ان کو سن کر گزر جاتے ہیں اور ہم خود بھی سمجھتے ہیں کہ یہ بات اچھی تھی لیکن ایک با صلاحیت شخص اچھی بات کو سن کر اس سے جلدی نہیں گزرتا۔ آپ با صلاحیت شخص تھے۔


جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کے استاد اور مربی امام حسن مجتبی علیہ السلام تھے جس طرح امام حسن علیہ السلام کی اولاد امام حسین کے زیر سایہ پرورش پا کر بڑی ہوئی اسی طرح آپ کی پرورش بھی امام حسن علیہ السلام نے کی تھی۔ اور اس کے بعد امام حسین علیہ السلام آپ کے مربی ہیں یہ گھر نیک اور طاہر افراد کا ہے جس کی دلیل ہم سب کو معلوم ہے


 ایک مرتبہ امام علیہ السلام سوے گئے تھے اور نیند سے بیدار ہوے فرمایا انا للہ و انا الیہ راجعون، حضرت علی اکبر علیہ السلام نے فرمایا بابا آپ نے اس جملہ کو کیوں پڑھا؟


حضرت نے فرمایا میں خواب میں دیکھا کہ اس طرح ہوا کے یہ لوگ جار ہے ہیں اور موت ہم کو لے جا رہی ہے حضرت علی اکبر علیہ السلام نے فرمایا: أوَلسنا عَلی الحَق؟ کیا ہم حق پر نہیں ہیں امام نے فرمایا ہاں ہم حق پر ہیں پھر علی اکبر علیہ السلام نے فرمایا  جب ہم حق پر ہیں تو موت کا کوئی خوف نہیں، مگر یہ کوئی مذاق ہے یہ عظیم جملہ تھا جو ان زندگی میں لکھا لا نوالی بالمُوت ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں عاشورا کے دن آے اور اجازت مانگی آپ کو سب معلوم ہے، امام علیہ السلام نے اجازت دی اور فرمایا جاو میرے لال۔