انسان کو ان صفات سے آراستہ ہونا چاہئے

انقلاب اسلامی کا آغاز ہو رہا تھا تو خواتین کے انقلاب میں حضور سے متعلق، امام کے افکار سے ہم آشنا تھے۔

ID: 52232 | Date: 2018/02/23

انقلاب اسلامی کا آغاز ہو رہا تھا تو خواتین کے انقلاب میں حضور سے متعلق، امام کے افکار سے ہم آشنا تھے۔


فاطمہ زہراء (س) ماتمی دستہ کی زیر نگرانی، مرکز توحید میں "اسلامی قوانین اور خواتین کے حقوق" عنوان کے تحت ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں سهیلا جلودار زاده نے خطاب کیا۔


جماران کے مطابق، جلودار زاده نے اپنی گفتگو میں خطبہ فدک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس خطبے میں حضرت فاطمہ (س) کی کارکردگی اور فکر جلوہ گر نظر آتی ہے۔


انہوں نے مزید کہا: ہر کوئی جانتا ہےکہ خدا نے انسان کو اپنی بندگی کےلئے پیدا کیا ہے اور بندگی، صراط مستقیم سے عبارت ہے تاکہ انسان تکامل کے ساتھ سعادت سے ہمکنار ہوسکے۔ صراط مستقیم پر چلنے کےلئے مقدس کتابوں اور پیامبران الہی سمیت بہت سے اصول اور ضوابط، ہمیں نظر آتے ہیں اور تمام انبیائے الہی علیہم السلام اور آسمانی کتابوں کا اصل پیغام، "انسان، خدا، دنیا اور آخرت کے درمیان رابطے" کے سوا کچھ نہیں تھا؛ یہی وجہ ہےکہ ان چار الفاظ کے پیش نظر، صراط مستقیم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔


ایرانی مجلس شورائے اسلامی کے رکن خاتون، جلودار زاده نے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے وظائف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ معاشرے کے مختلف شعبوں کے پیش نظر مختلف کردار سامنے آ سکتے ہیں تاہم اصل ذمہ داری میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور اس ضمن میں صدر اسلام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جہاں سیاسی معاملات، جیسے بیعت و غیرہ میں مردوں کی طرح، عورتیں بھی شریک کار نظر آتی ہیں۔


انہوں نے یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ " خواتین کو معاشرے سے بےدخل کرنے کے بعد کیا ایک سالم معاشرے کی توقع کی جاسکتی ہے"؟ کہا: اس سوال کا جواب منفی ہے، کیونکہ معاشرے کے کسی بھی پہلو کو ناکارآمد بنانے کی صورت میں پائیدار معاشرے کا حصول ناممکن ہے۔


جلودار زاده نے مزید کہا: پالیسی سازی میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن اس راہ کی بنیاد، حقوق کے تحقق، عدالت ورزی، حریت اور خیرخواہی ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں ہماری حرکت، صراط مستقیم پر ممکن ہوسکے۔ اس اعتبار سے سیاست کا مفہوم، درحقیقت، حق گوئی اور حصول حق سے عبارت ہے؛ اسی لئے روح خدا کے مظہر ہونے کے ناطے، انسان کو ان صفات سے آراستہ ہونا چاہئے، چاہے اس کا تعلق مردوں سے یا پھر صنف نسواں سے ہو۔


انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور میں عورتوں کی محدودیت کےلئے کھڑی کی گئی دیوار منہدم ہوجاتی ہے، کہا: یہ مسئلہ امام خمینی کے کردار میں بھی پایا جاتا تھا؛ ہماری کامیابی کے نقشہ راہ میں امام خمینی کی ہدایات اور رہنمائی تھی جو مرد و عورت کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے۔ جب انقلاب اسلامی کا آغاز ہو رہا تھا تو خواتین کے انقلاب میں حضور سے متعلق، امام کے افکار سے ہم آشنا تھے اور اسی ضمن میں ہمیں اس بات کا بھی علم تھا کہ وہ خواتین کےلئے کسی قسم کے غیر متعارف حد بندی کے قائل نہیں تھے۔ انقلاب کے دوران، مرد اور عورت، امام کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن تھے، اسی لئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، شاہراہ انقلاب پر حرکت کر رہے تھے، یہی وجہ ہےکہ حقیقت میں اس شیشے کی دیوار کو ہم نے نہیں بلکہ امام خمینی ہی نے چکناچور کردیا تھا۔