انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت سے کیا مراد ہے؟

حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا! میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟

ID: 52159 | Date: 2018/02/20

اللہ تعالی سورہ احزاب، آیت۳۳ میں فرماتا ہے: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً بےشک خداوند عالم چاہتا ہےکہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔


یہ آیت شریفہ گواہی دیتی ہےکہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں، کیونکہ "الرجس"، تمام گناہان صغیرہ و کبیرہ کو شامل اور اہل بیت ) تمام پلیدیوں سے دور ہیں۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟


فریقین [اہل سنت اور اہل تشیع] کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ کی ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں؛ ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہراء ) کی ذات مبارک ہے اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور آپ کی پُر افتخار زندگی بھی اس بات پر محکم دلیل ہے۔


امام محمد باقر علیہ السلام نے اس آیت " إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً " کے بارے میں فرمایا:


یہ آیت، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب (ع)، فاطمہ زہراء (س)، امام حسن و امام حسین (علیہما السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم (ص) کی زوجہ " امّ سلمہ " کےگھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ نے علی، فاطمہ، حسن و حسین کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا:


اللهم هولاء اهل بيتى وعدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذھب عنهم الرجس و طهرھم تطهيرا؛ فقالت و أنا معهم يا رسول اللہ؟! قال: أبشرى يا ام سلمہ فانك الى خير۔ اے اللّہ! یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ! ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک و منزہ قرار دے۔


اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا! میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟


آپ (ص) نے فرمایا: اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو تم خیر پر ہو؛ لیکن تم اہل بیت میں سے نہیں ہو۔ [نورالثقلين، ج4، ص270]


دوسری حدیث کے مطابق، قال رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله:" يا فاطمة! ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك" اے فاطمہ! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے۔


[ينابيع المودة، ص203؛ نیز مجمع الزوائد ج9 ص203]


اس حدیث کو بھی فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ حدیث کے مطابق، جس جس پر فاطمہ ) ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہوگا اور جس جس پر فاطمہ (س) راضی ہوگی خدا بھی راضی ہوگا۔


اور یہ بات بھی مسلّم ہےکہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بنا پر ہے؛ خدا ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر راضی نہیں ہوتا؛ اسی طرح عمل حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا۔


ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہےکہ فاطمہ زہراء سلام  اللہ علیہا ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں، کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب، شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا کےخلاف راضی نہیں ہوتا ہے؛ ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہےکہ اگر فاطمہ ) ناراض ہوجائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ ) راضی و خوشنود ہو تو خدا بھی خوشنود ہوگا؛ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ ) کی ناراضگی خدا کی ناراضگی اور فاطمہ ) کی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔