رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای:

امام خمینی: پاسداران فورس نہ ہوتی، ملک بھی نہ ہوتا

سپاہ پاسداران کی تشکیل، اس عظیم مرد الہی کی دور اندیشی اور قلب نورانی کا ثمرہ ہے۔

ID: 45506 | Date: 2016/10/21

سپاہ پاسداران کی تشکیل، اس عظیم مرد الہی کی دور اندیشی اور قلب نورانی کا ثمرہ ہے۔


آيت اللہ العظمی خامنہ ای رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے روحانی و فکری ستونوں کو کمزور کرنے کےلئے پیدا کئے جانے والے انحرافوں اور ان میں تحریف کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:


اسلامی جمہوریہ کی فکری قوت کا ایک ستون، تسلط پسند طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا پر عدم اعتماد ہے اور اس بے اعتمادی میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔


رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں پاسداران انقلاب فورس کے تینوں شعبوں، بحریہ، فضائیہ اور زمینی فورس کی تشکیل سے متعلق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کو اس عظیم مرد الہی کی دور اندیشی اور قلب نورانی کا ثمرہ قرار دیا اور پاسداران انقلاب فورس کی اہمیت و مقام و منزلت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:


امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ معروف جملہ کہ اگر پاسداران انقلاب فورس نہ ہوتی تو ملک بھی نہ ہوتا، اس وجہ سے تھا کہ پاسداران انقلاب فورس وہ شجرۂ طیبہ ہے جس سے ایمان اور انقلابی و جہادی تحریک چھلکتی ہے اور ملک و انقلاب کی حفاظت انھیں اہم عناصر کی بقا پر منحصر ہے۔


آپ نے فرمایا: اسلامی انقلاب کی فتح کے سینتیس سال بعد اور خاص طور پر مقدس دفاع کا زمانہ گزرنے کے بعد اب پاسداران انقلاب فورس کے بارے میں اس تجربہ کار، عمیق اور اللہ پر توکل رکھنے والی ہستی کے اس نظرئے کی حقیقت اور بھی نمایاں ہوئی ہے اور یہ کہنا پڑتا ہےکہ پاسداران انقلاب فورس انقلاب کا محکم قلعہ ہے۔


آپ نے فرمایا: پاسداران انقلاب فورس دفاعی و سیکورٹی کے امور دیکھنے کے ساتھ ہی دیگر میدانوں جیسے تعمیرات، محرومین کی مدد، ثقافتی امور، فن و ہنر کے مسائل اور انقلابی فکر کی پرورش میں بھی فیصلہ کن کردار کی حامل اور بہت موثر ثابت ہوئی ہے، یہ اقدامات اسی طرح جاری رہنا چاہئے اور ان سے عوام اور رائے عامہ کو بھی مطلع کرنا چاہئے۔


رہبر انقلاب اسلامی نے سیکورٹی کو بہت اہم اور سماج کی علمی و مادی پیشرفت کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا: پاسداران انقلاب فورس کے فرائض میں داخلی و خارجہ سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے اور اگر خارجہ سیکورٹی نہ ہوگی اور سرحدوں کے باہر ہی دشمنوں کا راستہ نہیں روکا جائےگا تو داخلی سیکورٹی بھی ختم ہوجائےگی۔


رہبر انقلاب اسلامی نے زور دےکر کہا کہ کوئی بھی عقلمند انسان اپنی دفاعی قوت کو ختم نہیں کرتا، بنابریں ملک کی دفاعی طاقت میں روز افزوں استحکام آنا چاہئے اور ایمان، ملکی دفاعی توانائی کا سب سے اہم عنصر قرار دینا ہوگا، کیونکہ فریق مقابل پیشرفتہ وسائل سے تو آراستہ ہے لیکن ایمان کی طاقت سے محروم ہے۔


رہبر انقلاب اسلامی نے خودمختاری، ثقافت اور عقائد کو کسی بھی قوم کے تشخص کی بنیاد قرار دیا اور یہ سوال کیا کہ آخر کس وجہ سے ایک قوم اپنی شناخت سے دست بردار ہوکر مغرب کے غلط اور رسوا طور طریقوں کی پیروی کرنے لگے؟


کیا ہم اسلام کی روحانی و نورانی فکر چھوڑ کر اس طرح کے پست نظرئے کی پیروی کرنا شروع کر دیں؟


آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اعلی اہداف کےلئے کوشش کرنا عین عقل ہے، کیونکہ اگر کوئی قوم اعلی اہداف کی حامل نہ ہو تو آج کے مغربی سماجوں کی طرح اندر سے کھوکھلی ہوکر رہ جائےگی۔


رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی فکری توانائی کے عناصر میں سے ایک اہم عنصر عالمی استکباری طاقتوں پر جن کا مظہر آج امریکا ہے، اعتماد نہ کرنا ہے اور افسوس کی بات ہےکہ بعض افراد اس بے اعتمادی کو ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں، وہ ویسے تو زبان سے کہتے ہیں کہ امریکا دشمن ہے، لیکن حقیقت میں ان کے اندر امریکا کے سلسلے میں بے اعتمادی نہیں پائی جاتی!!


رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا کے سلسلے میں بے اعتمادی فکر و تدبر، عقلی استدلال اور عملی تجربات کا نتیجہ ہے۔


رہبر انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر آپ نے ہوشیاری نہ برتی اور امریکا کے توسیع پسندانہ نظام کی چالوں کو نہ سمجھا اور ان کی مسکراہٹوں کے فریب میں پڑے رہ گئے تو عین ممکن ہےکہ آپ 50 سال حتی 100 سال پیچھے رہ جائیں۔


آیت اللہ نے دشمن کے تسلط اور غلبے کی کوششوں کی طرف سے حکام کی ہوشیاری کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: امریکیوں کا اصرار ہےکہ مغربی ایشیا کے مسائل بالخصوص شام، عراق، لبنان اور یمن کے بارے میں ہم ان سے گفتگو کریں، مذاکرات کی اس درخواست کے پیچھے ان کا اصلی مقصد کیا ہے؟


ان کا واحد ہدف علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی موجودگی کو ختم کرنا ہے جو امریکیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔


رہبر نے فرمایا: عقلمندی کا تقاضا یہ ہےکہ جو لوگ اعلانیہ دشمنی برت رہے ہیں ان پر ہرگز اعتماد نہ کیا جائے۔ امریکا سے مذاکرات میں فائدہ تو در کنار، سراسر نقصان ہے اور اس چیز کو دلائل کے ساتھ ملک کے اعلی حکام کے سامنے بیان کیا جا چکا ہے اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہیں تھا۔


 


ماخذ:  http://urdu.khamenei.ir/  18-09-2016