کیا انسان ابدی وجود کا مالک ہے؟ اگر ایسا پے تو کیوں دنیا میں پمیں ابدیت دکھائی نہیں دیتی؟

ID: 43592 | Date: 2016/03/26

قرآن کریم کی روشنی میں انسان کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ وه عالم ملکوت کے گلستان کا طائر ہے اور یہ آب و گل کی دنیا اس کا وقتی اور عارضی آشیانہ اور عالم ماده سے عالم روحانیت تک پهنچنے کا ایک زینہ ہے؛ انسان فطری طور سے ابدیت کا طالب ہے اور فطرتا زوال اور محدودیت سے گریزاں ہے۔


انسان کا وجود دو چیزوں سے مل کے بنا ہے، روح اور بدن۔


روح اور نفس ناطقہ انسان کی حقیقت ہے اور انسان کا بدن اور جسم، روح کا اوزار ہے۔ روح کا تعلق عالم ملکوت سے ہے اور وه ماده نہیں بلکہ ماده سے ماوراء مجرد ہے اور بدن و جسم کا تعلق عالم ملک سے ہے اور مادی ہونے کی بنا پر اس میں ماده کے اوصاف پائے جاتے ہیں جیسے رنگ، شکل، حجم، طول اور عرض وغیرہ


روح کے مادی نہ ہونے اور اس کے مجرد ہونے کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کا جسم اور بدن رفته رفته ڈھلتا اور ضعیف ہوتا جاتا ہے جبکہ روح اور نفس ناطقہ قوی ہوتی جاتی ہے۔


خداوند عالم اپنی آیتوں کے ذریعہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ای انسان تیری ہستی ابدی ہے اور ابدیت دنیائے فانی میں نہیں سما سکتی؛ اگر حیات جاوید اور ابدیت کی تلاش ہے تو وه ہمارے پاس ہے اور وه صرف خداوند عالم کے احکام کی پابندی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔


نتیجہ یہ کہ دنیا چونکہ محدود اور فانی گذرگاه ہے (چونکہ مادی اور جسمانی ہے اور جسم کی ایک صفت محدودیت ہے) لہذا ابدیت کو یہاں تلاش نہیں کیا جاسکتا اور روح چونکہ ایک ملکوتی وجود ہے اور زمانی حدود سے برتر ہے لہذا ابدیت کی طالب بہی ہے اور عالم آخرت میں ابدیت کو حاصل بھی کرلے گی۔


 


اسلام کوئست نت