رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای:

مغربی ملکوں کے تمام نوجوانوں کے نام آیت اللہ العظمی خامنہ ای، رہبر انقلاب کا خط

حالیہ برسوں میں عالم اسلام پر لشکر کشی کہ جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں، مغرب کی تضاد آمیز روش کا ایک اور نمونہ ہے۔

ID: 41899 | Date: 2015/11/29

بِسْمِ ٱللَّـهِ ٱلرَّحْمَـنِ ٱلرَّحِيمِ


اندھی دہشت گردی نے فرانس میں جو تلخ سانحے رقم کئے، ان سانحوں نے مجھے ایک بار پھر آپ نوجوانوں سے گفتگو پر مجبور کر دیا۔ میرے لئے یہ افسوس کا مقام ہے کہ گفتگو کی وجہ اس طرح کے واقعات بنیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر دردناک مسائل، چارہ جوئی کی زمین اور ہم خیالی کا میدان فراہم نہ کریں تو دگنا نقصان ہوگا۔


دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی انسان کا رنج و الم اپنے آپ میں تمام نوع انسانی کے لئے اندوہناک ہوتا ہے۔ وہ منظر کہ بچہ اپنے عزیزوں کے سامنے دم توڑ دیتا ہے، ایک ماں جس کے خاندان کی خوشی سوگ میں تبدیل ہو جاتی ہے، ایک شوہر اپنی بیوی کا بے جان جسم اٹھائے کسی سمت بھاگ رہا ہے، یا وہ تماشائی کہ جسے نہیں معلوم کہ چند لمحے بعد اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے جا رہا ہے۔ یہ ایسے مناظر نہیں ہیں جو دیکھنے والے کے احساسات و جذبات کو جھنجھوڑ نہ دیں۔ جس کے اندر بھی محبت و انسانیت کی کوئی رمق ہے، یہ مناظر دیکھ کر متاثر اور رنجیدہ ہوگا؛ خواہ وہ فرانس میں رونما ہوں یا فلسطین و عراق و لبنان و شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے یہی احساسات ہیں اور وہ ان المیوں کو انجام دینے والوں اور ذمہ داروں سے بیزار اور متنفر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے یہ رنج و الم بہتر اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کی بنیاد نہ بنیں تو ان کی حیثییت تلخ و بے ثمر یادوں تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ یہ میرا نظریہ ہے کہ صرف آپ نوجوان ہی آج کے ناموافق تغیرات سے سبق لیکر مستقبل کی تعمیر کی نئی راہیں تلاش کرنے اور اس انحرافی پیش قدمی کو روکنے پر قادر ہوں گے جس نے مغرب کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔


یہ صحیح ہے کہ دہشت گردی آج ہمارا اور آپ کا مشترکہ درد ہے۔ لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس بد امنی اور اضطراب کا سامنا آپ نے حالیہ سانحے میں کیا، اور اس رنج و الم میں جسے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے عوام برسوں سے جھیل رہے ہیں، دو بنیادی فرق پائے جاتے ہیں۔


ایک تو یہ کہ عالم اسلام حدود کے اعتبار سے کئی گنا زیادہ وسیع علاقے میں، اس سے کئی گنا زیادہ حجم کے ساتھ اور بہت زیادہ طولانی مدت کے دوران تشدد اور دہشت کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔


دوسرے یہ کہ بد قسمتی سے اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے گوناگوں روشوں سے اور بہت موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔


عالم اسلام میں بیداری کی تحریک کے ساتھ مغرب کا دوہرا رویہ مغربی پالیسیوں کے تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


اس تضاد کا ایک اور روپ اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی ہے۔ فلسطین کے ستم دیدہ عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین قسم کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر آج یورپ کے عوام چند روز اپنے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور پر ہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں سال سے حتی خود اپنے گھر میں بھی صیہونی حکومت کی انہدامی اور قتل و غارت کی مشین سے محفوظ نہیں ہیں۔


حالیہ برسوں میں عالم اسلام پر لشکر کشی کہ جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں، مغرب کی تضاد آمیز روش کا ایک اور نمونہ ہے۔


ان برسوں کے دوران عالم اسلام کو حملہ آوروں کے دوہرے روئے اور مصنوعی چہروں سے جو رنج پہنچا ہے وہ مادی خسارے سے کم نہیں ہے۔


عزیز نوجوانو! میں امید کرتا ہوں کہ آپ اسی وقت یا مستقبل میں فریب سے آلودہ اس ذہنیت کو تبدیل کریں گے، اس ذہنیت کو جس کا ہنر دراز مدتی اہداف کو پنہاں رکھنا اور موذیانہ اغراض و مقاصد پر ملمع چڑھا دینا ہے۔ میری نظر میں سلامتی و آسودگی قائم کرنے کے سلسلے میں پہلا مرحلہ اس تشدد انگیز فکر کی اصلاح کرنا ہے۔ جب تک مغرب کی سیاست پر دوہرے معیار حکمفرما رہیں گے، جب تک دہشت گردی کو اس کے حامی اچھی اور بری قسموں میں تقسیم کرتے رہیں گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی و اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی، اس وقت تک تشدد کی جڑوں کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


دوسری جانب یہ سوال بھی کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جو یورپ میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں فکری و نفسیاتی پرورش پائی، داعش جیسے گروہوں کی جانب کیوں مائل ہو رہے ہیں؟ کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ کچھ افراد جنگ زدہ علاقوں کا ایک دو سفر کرکے یکبارگی اتنے انتہا پسند بن جائیں کہ اپنے ہی ہم وطنوں پر گولیوں کی بوچھار کر دیں؟!


موصولہ اطلاعات کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قانون وضع کئے گئے ہیں کہ جو شہرویوں کو مسلمانوں کی جاسوسی کی ترغیب دلاتے ہیں۔ یہ برتاؤ ظالمانہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لا محالہ (خود ظالم کی طرف) پلٹ کر آنے کی خاصیت رکھتا ہے۔


دوسرے یہ کہ مسلمان اس ناقدری کے مستحق نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بخوبی پہچانتی ہے۔ اس دور میں بھی جب اہل مغرب اسلامی سرزمین میں مہمان بن کر آئے اور صاحب خانہ کی دولت پر ان کی نگاہیں گڑ گئیں اور اس دور میں بھی جب وہ میزبان تھے اور انھوں نے مسلمانوں کی فکر و عمل سے استفادہ کیا، اکثر انھوں نے مہربانی اور رواداری کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔


بنابریں میں آپ نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک صحیح شناخت اور گہرے ادراک کی بنیاد پر اور ناگوار تجربات سے سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کے ساتھ صحیح اور باعزت رشتے کی داغ بیل رکھئے۔ ایسا ہوا تو وہ دن دور نہیں جب آپ دیکھیں گے کہ اس 'نتیجے' کی بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت اپنے معماروں کے سروں پر اعتماد و اطمینان کا سایہ کئے ہوئے ہے، انھیں تحفظ اور آسودگی کی حرارت عطا کر رہی ہے اور روئے زمین پر تابناک مستقبل کی امیدوں کی روشنی بکھیر رہی ہے۔



سید علی خامنه‌ای


۸ آذر ۱۳۹۴ ہجری شمسی (مطابق 29 نومبر 2015)


 


منبع: khamenei.ir