پیغمبر اور فقیہ کی حاکمیت، امام خمینی(رح) کی نظر میں:

نہ کل پیغمبر (ص) ڈکٹیٹر تھے اور نہ آج فقیہ ڈکٹیٹر ہو سکتا ہے

حاکم اگر عادل نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے، مالیات وصول کرنے اور ان کو صحیح طریقے سے مصرف کرنے اور قانون کو صحیح طور پر اجراء کرنے میں عدل وانصاف کا لحاظ نہیں رکھےگا۔

ID: 41706 | Date: 2015/11/09

جیسا کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد اس بات میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا کہ منصب خلافت کس کو سنبھالنا چاہیے لیکن اس کے با وجود مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ منصب خلافت پر فائز ہونے والے شخص کو عالم وفاضل اور آگاہ ہونا چاہیے اختلاف صرف دو موضوعات میں تھا:
1- چونکہ اسلام کی حکومت قانون کی حکومت ہے لہذا رہبر و زعیم اور حاکم کیلئے قانون کے بارے میں علم و آگاہی ضروری ہے جیسا کے روایات میں بھی وارد ہوا ہے صرف رہبر و حاکم کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ جس کام اور مقام پر فائز ہوں اس کے بارے میں علم و آگاہی رکھتے ہوں۔ البتہ حاکم ورہبر کیلئے ضروری ہے کہ وہ علمی میدان میں سب سے افضل و اعلی ہو۔ ہمارے آئمہ (ع) اپنی امامت کیلئے اسی مطلب کو استدلال کے طور پر پیش کرتے تھے کہ امام کو دوسروں سے افضل ہونا چاہیے۔ شیعہ علماء نے دوسروں پر جو اعتراضات وارد کئے ہیں وہ بھی اسی امر سے متعلق ہیں کہ جب فلاں حکم کے بارے میں خلیفہ سے معلوم کیا گیا تو خلیفہ اس کا جواب نہ دے سکے، پس وہ امامت اور خلافت کے لائق و سزاوار نہیں ہے، فلاں کام کو اسلامی احکام کے خلاف انجام دیا، لہذا خلافت و امامت کےلائق نہیں ہے ۔۔۔( نہج البلاغہ، ص588، خطبہ172؛ الاحتجاج، ج1، ص229)


2- رہبر اور حاکم کو اخلاقی اقدار اور اعتقادی کمال کا حامل اور عادل ہونا چاہیے جو شخص حدود الہی یعنی اسلامی سزاؤوں کو جاری کرے گا اور بیت المال میں دخل اور تصرف کرنے کے امور کو سنبھالے گا اور حکومت کا نظام اپنے ہاتھ میں لے گا اور خداوند متعال اس کو اپنے بندوں پر حکومت کا اختیار بخشےگا اس کو گناہکار اور بد کردار نہیں ہونا چاہیے، خداوند ظالم اور گنہکار کو ایسا حق و اختیار عطا نہيں کرتا ہے۔ (سورہ بقرہ/124)


امام خمینی(رح) اپنے بیانات اور تحریروں میں اس موضوع کے متعلق فرماتے ہیں:
حاکم اگر عادل نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے، مالیات وصول کرنے اور ان کو صحیح طریقے سے مصرف کرنے اور قانون کو صحیح طور پر اجراء کرنے میں عدل وانصاف کا لحاظ نہیں رکھےگا اور ممکن ہے وہ اپنے خاندان والوں، قریبی ساتھیوں اور دوستوں کو معاشرے پر مسلط کردے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کیلئے مصرف کرنے میں مشغول ہوجائے۔ (ولایت فقیہ- 61-58)


اسلام میں قانون حکومت کرتا ہے، پیغمبر اکرم (ص) بھی الہی قانون کے تابع تھے، آنحضور قانون کے مطابق عمل کرتے تھے، خداوند تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: جو میں چاہتا ہوں اگر اس کے خلاف تم عمل کرو گے تو میں تمہارا مؤاخذہ کروں گا اور تمہاری شہ رگ کاٹ دوں گا۔ (الحاقہ/ 44)


اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ (معاذ اللہ) ایک ڈکٹیٹر شخص ہوتے یا ایک ایسے شخص ہوتے کہ جس سے لوگ ڈرتے کہ اگر وہ کبھی موقع پاکر مکمل قدرت حاصل کرلیں گے تو ڈکٹیٹری کریں گے، نہ کل پیغمبر (ص) ڈکٹیٹر تھے اور نہ آج فقیہ ڈکٹیٹر ہو سکتا ہے۔


(صحیفہ نور، جلد10، ص29)
فقیہ میں استبداد نہیں پایا جاتا ہے، وہ فقیہ جو ان اوصاف کا حامل ہوتا ہے وہ عادل ہوتا ہے، ایسی عدالت جو سماجی عدالت کی مظہر، ایسی عدالت جس میں جھوٹ کا ایک کلمہ اس کو عدالت سے ساقط کردے گا، نامحرم پر ایک نظر اس کو عدالت سے گرا دےگی ایک ایسا انسان نہ غلط عمل کرسکتا ہے اور نہ کبھی غلط کرتا ہے۔


(صحیفہ نور، جلد11،ص133)


 


بشکریہ لیڈر ویب سائٹ