حجت الاسلام شیخ علی دوانی: (2)

امام(ره) کی جلاوطنی کے بعد عاشورائی ثقافت سے متعلق منحرف نظریات کا پرچار

بہت سے دلسوز علماء اور دانشور اس فکر میں تھے کہ عزاداری سے متعلق انحرافات سے لوگوں کو کس طرح بچایا جائے؟

ID: 41586 | Date: 2015/10/26

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ نارمک کی جامع مسجد کے متولی نے مجھ سے کہا: جوانوں کے ساتھ رواداری اور محبت سے پیش آنے کی ضرورت ہے، یہ لوگ غلط سمت میں حرکت کر رہے ہیں!


انہوں نے شہید مطہری کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "عاشور کی شب، مرتضی مطہری نے خطابت کے دوران حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا اور دوران مصائب خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔ ان کی تقریر کے بعد انہی جوانوں نے تلخ لہجے میں اعتراض کرتے ہوئے ان سے کہا: یہ رونا کیوں؟


کیوں آپ ہم سے امام حسین علیہ السلام کے غم میں رونے کی تاکید کرتے ہیں؟


اگر امام حسین علیہ السلام نے ظلم کے خلاف قیام کیا ہے اور اس راہ میں شہید ہوئے ہیں تو گویا انہوں نے اپنے ہدف کے حصول کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں لہذا رونا کس بات کا!!


اور قیام کا دوسرا رخ یہ ہو سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے قیام کے دوران غلط راستے کے انتخاب سے دشمن کے نرغے میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں، اس صورت میں بھی رونے کا سوال نہیں ہوتا! کیونکہ انہوں نے حکمت عملی سے کام نہ لیا اور صحیح راستے کا انتخاب نہیں کیا جس سے ان کی شہادت واقع ہوئی"!!  


مسجد کے متولی نے جوانوں کے انحرافی عقیدے سے متعلق بات کرتے ہوئے مزید کہا: یہ انتہا پسند جوانوں کے ٹولے اس دعوئے کے ساتھ کہ وہ امام خمینی کےحامی ہیں اور شاہی جابرانہ نظام کے خلاف بر سر پیکار ہیں، کہتے تھے: "رونے اور رلانے کا عمل موجودہ نظام کی سرنگونی کیلئے جد وجہد کے ساتھ کسی طرح میل نہیں رکھتا ہے اور رونا اور رلانا نیز تاریخ کی یاد دہانی، لوگوں کو راستے سے منحرف کرنے کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں شاہی نظام کے خلاف کی جانے والی کوششیں انحراف کا شکار ہوسکتی ہیں"!!


ایسے میں بہت سے دلسوز علماء اور دانشور اس فکر میں تھے کہ عزاداری سے متعلق انحرافات سے لوگوں کو کس طرح بچایا جائے؟ اور ایسے واقعات کی خبریں مسلسل امام خمینی کو نجف اشرف میں موصول ہوتی رہتی تھی۔


سید محمد کوثری جو خود ذاکر اهل بیت(ع) تھے، نے مجھے بتایا کہ جب امام خمینی کے فرزند مصطفی خمینی کی پر اسرار طریقے سے موت واقع ہوئی تو امام خمینی نے بغیر کسی اظہار غم کے اپنی شریک حیات کو  اس خبر سے اس طرح آگاہ کیا: "مصطفی ایک الہی عطیہ تھا اس کو خدا نے ہم سے لے لیا"۔


امام خمینی کے حلقہ احباب میں موجود افراد، امام کے بارے میں بہت فکرمند تھے اسی لئے مجھ سے درخواست کی کہ میں امام کی خدمت میں حاضری دوں، دوستوں کے اصرار پر میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور خیریت دریافت کرنے کے بعد امام سے مجلس پڑھنے کی اجازت طلب کی  اور انہوں نے اجازت دیدی۔


بیان مصائب کے دوران جب امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کو یاد کرتے ہوئے میں نے کہا: میری جان آپ پر قربان! جب آپ اپنے کڑیل جوان کے سرہانے پہنچے ۔۔۔۔ جیسے ہی میرے منہ سے مصائب کا یہ جملہ نکلا تو امام خمینی نے جیب سے پاکیزہ سفید رومال نکالا اور مظلوم کربلا کے مصائب میں اس قدر گریہ کیا کہ اس سے پہلے میں نے آپ کو  اس طرح گریہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا!!


 


بشکریہ امام خمینی(رح) پورٹل