غیرمسلم شعرا کی امام حسین(ع) کو خراج عقیدت:

امام خِمینی(رح): بنی امیہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو مسخ کرنا چاہتے تھے

لکھا ہے آسماں پہ فسانہ حسین ؑ کا -//- سب کا حسینؑ، سارا زمانہ حسینؑ کا
کوئی امام کوئی پیمبر کوئی ولی -//- کتنا ہے سربلند گھرانہ حسینؑ کا

ID: 41552 | Date: 2015/10/23

کربلا کوئی حادثہ یا واقعہ نہیں، کربلا ایک شعوری اور نظریاتی ٹکراو کا نام ہے۔ کربلا ایک مکتب ہے، ایک ایسی درسگاہ ہے کہ جہاں ذلت کی زندگی پر عزّت کی موت کی برتری کا درس دیا جاتا ہے۔


واقعہ کربلا، قیام حسین (ع) تاریخ انسانی کا وہ عظیم واقعہ ہے جس پر فکر انسانی صدیوں سے غور کر رہی ہے، تاہم سوائے اظہار حیرت کے اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔


عقل انسانی حسین (ع) سے محبت اور وابستگی کی بہت سی دلیلیں پیش کرتی ہے۔ کبھی کہتی ہے کہ چونکہ حسین (ع) نواسہ رسول (ص) تھے، اس لئے محترم ہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ علی (ع) ابن ابی طالب و فاطمہ الزھراء (س) کے فرزند تھے، اسی لئے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ حسین (ع) کا قیام انسانی اقدار کی سربلندی کے لئے تھا، اسی لئے انسانیت دوست لوگ حسین (ع) کو دوست رکھتے ہیں۔


امام حسین ؑ صرف مسلمانوں کے لئے ہی قابلِ تعظیم نہیں بلکہ دنیا کا ہر عدل پسند انسان امامِ عالی مقام کی قربانی اور ہدف کو تعظیم و تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔


حسین ؑ کی قربانی انسانی وقار اور عظمت کے لئے تھی۔ اسلام کی بقاء کا راز کربلا ہے۔ جس طرح نبی کی نبوت کسی ایک قوم یا قبیلے کے لئے نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح امام ؑ کی امامت بھی تمام عالمِ بشریت و جن و انس کے لئے ہوتی ہے۔


اسی مناسبت سے پرچمدار عاشورائے حسینی(ع)، بانی اسلامی انقلاب ایران حضرت امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:


" بنی امیہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو مسخ کرنا چاہتے تھے ۔۔۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے اس خطرے سے اسلام کو بچاتے ہوئے  اسکا اچھی طرح سے دفاع کیا ہے"۔


آپ(رہ) دوسری جگہ فرماتے ہیں: "حریت پسندوں اور مظلوموں کے سید وسالار کے مجالس عزا، درحقیقت سپاہ عقل کا سپاہ جہل پر غلبہ وکامیابی کی دلیل ہے نیــــز، عدل وانصاف کا ظلم وبربریت پر، امانت داری کا خیانت وغداری پر، اور اسلامی نظام حکومت کا طاغوتی حکومت پر فتح وظفر پانے کی اہم دلیل ہے۔ اس لئے سزاوار یہ ہے کہ ان مجالس کو بہترین اور نیکوترین انداز میں قائم کیا جائے اور ظالم سے مظلوم کا یوم انتقام میں پرچم سرخ عاشورا کلیدی رمز کے طورپر، لہرایا جائے"۔


یہ بھی آپ علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے: "ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام قصیدوں اور اشعار میں جو ائمہ حق علیہم السلام کے منقبت اور مرثیوں کیلئے تحریر کی جاتی ہے، بـضرور ہر عصر اور ہر مکان کے مصائب، ناگوار واقعات اور ظالموں کے مظالم کی یاد بھی کیا جائے"۔


اسی لئے صرف اردو زبان کے ہندو اور سکھ شعراء کا کچھ کلام قارئین کو ہدیہ کر رہا ہوں:


پروفیسر ستنام سنگھ خمار کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
لکھا ہے آسماں پہ فسانہ حسین ؑ کا
سب کا حسینؑ، سارا زمانہ حسینؑ کا
کوئی امام کوئی پیمبر کوئی ولی
کتنا ہے سربلند گھرانہ حسینؑ کا
ہوگی کوئی تو بات کہ صدیوں کے بعد بھی
جس دل کو دیکھئے، ہے دیوانہ حسین ؑ کا
میں حر ہوں چاہیے مجھے تھوڑی سے نقشِ پا
کوئی مجھے بتا دے ٹھکانہ حسینؑ کا
آزادی خیال کی تحریک ہی تو ہے
عاشور کو چراغ بجھانا حسین ؑ کا
مظلومیت کے وار سے ظالم نہ بچ سکا
آخر ہدف پہ بیٹھا نشانہ حسین ؑ کا
اب بھی زبانیں خشک ہیں پہرے فرات پر
دہرا رہا ہے خود کو زمانہ حسین ؑ کا
کب سے چکا رہا ہوں قصیدوں میں اے خمار
مجھ پر ہے کوئی قرض پرانا حسین ؑ کا


اسی طرح امر سنگھ جوش بھی اپنے انداز میں سیدالشہداؑ کو نذرانہ عقیدت مسدس کے اشعار میں یوں پیش کرتے ہیں۔
ظالموں کے اتنے جھانسوں میں بھی تو آیا نہیں
دیکھ کر طاقت کو تیرا دل بھی گھبرایا نہیں
دولتِ دنیا کے آگے صبر جھک پایا نہیں
زندگی ٹھکرائی تو نے عزم ٹھکرایا نہیں
دوسروں میں ایسی جرات کی فراوانی کہاں؟
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں؟


سردار ترلوک سنگھ سیتل اپنے قلم کو یوں وضو کراتے ہیں۔
جنگ کے میداں کو جب سرور چلے
ہر طرف بھالے، گڑے، خنجر چلے
دھوپ کے صحرا کا منظر الاماں
اوڑھ کر تطہیر کی چادر چلے
اف رے آلِ مصطفٰی پر یہ ستم
بیڑیوں میں پھول سا عابدؑ چلے
سن کے سیتل کربلا کا سانحہ
سینکڑوں خنجر میرے دل پر چلے


 


اسلام ٹائمز اور عربی امام خمینی(رح) پورٹل سے اقتباس