ایرانی قوم اور محرم کا کردار:

ایران میں اسلامی انقلاب، قیام عاشورا کا ثمرہ

امام خمینی(رہ): ماہ محرم کا چاند نظر آتے ہی شجاعت اور فداکاری کے مہینے کا آغاز ہو گیا ہے، یہ تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔

ID: 41550 | Date: 2015/10/27

دوران اسلامی انقلاب کا جائزہ لینے سے نیــز، ایرانی قوم کی آغاز تحریک اور امام خمینی(رح) قائد اور بانی انقلاب کی فرمایشات اور ہدایات پر توجہ سے، معلوم ہوتا ہے کہ بلا شک وشبہہ انقلاب اسلامی ایران، دشت کرب وبلا، میدان عشق و وفا کے سید وسالار ابا عبداللہ الحسین(ع) اور ام مصائب زینت کبری علیہا السلام کی تحریک اور پیغام کے نتائج میں سے ایک ہے۔


ایرانی عوام کے انقلابی جذبے کے آتش فشاں کو شعلہ ور کرنے میں 1978 کے محرم کا اہم کردار رہا ہے، شاہی نظام حکومت کی جانب سے سکیورٹی پر مامور اہلکار، عوامی اجتماعات کو منتشر کرنے سے قاصر تھے، محرم الحرام کے ایام کے قریب آتے ہی جلسے اور جلوسوں میں شامل افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ایسے میں شاہ نے اپنی تمام تر توجہ شمالی لائن پر مرکوز رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کو حکم دیا تھا کہ آزادانہ طور پر تاسوعا اور عاشورا کے دن لوگوں کو احتجاج کرنے دیا جائے۔


ایک ہی وقت میں عاشورائے حسینی(ع) اور شاہی نظام کی سرنگونی کیلئے عوامی تحریک کے ملاپ نے حکومت مخالف افراد اور گروہوں کے ذہنوں کو کافی عرصہ پہلے اس جانب متوجہ کیا تھا اور حکومت مخالف لوگوں کی اکثریت عاشورا کے انقلابی پہلو کی تفسیر میں مصروف عمل تھی۔ یہاں تک کہ حسین روحانی جیسے افراد جو مجاہدین خلق کے ممتاز اراکین میں سے تھے، امام خمینی سے ملاقات کیلئے نجف اشرف چلے جاتے ہیں۔ حسین روحانی کا بیان ہے کہ امام سے ملاقات کے دوران، میں نے  "امام حسین" اور "راه انبــیاء (کا کتابچہ)" کے نام سے تحریر شدہ دو کتابوں کو امام خمینی کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے ان دونوں کتابوں کے مطالعے کے بعد، تحریری طور پر اپنا نقطه نظر بیان کرتے ہوئے اول الذکر کتاب میں علماء کرام اور صنف روحانیت سے متعلق مطالب پر انتقاد کیا تھا۔(1)


 ڈاکٹر علی شریعتی جیسے اسکالر بھی اپنے ہم خیال افراد کے ساتھ قیام عاشورا کے انقلابی پہلو کی تفسیر کو لیکر میدان میں موجود تھے۔


"شہید جاوید" کے نام سے موسوم کتاب، جو واقعہ عاشورا کے تحقیقی جائزے سے متعلق تحریر کی جانے والے تھی، سیاسی تنازعہ میں تبدیل ہوگئی یہاں تک کہ امام خمینی کو بھی اس کتاب کے حوالے سے رد عمل دکھانا پڑا۔


 " حماسه حسینی" اسی ضمن میں لکھی جانے والے آخری کتاب ہے جو حوزہ علمیہ سے مربوط ممتاز عالم دین، شہید آیت‌الله مرتضی مطهری کے قیام حسینی(ع) کے بارے میں قلمی شاہکار ہے جو آج بھی قیام امام حسین علیہ السلام  اور عاشورا سے متعلق تحلیل اور تبصرے کے ماخذ کے طور پہچانی جاتی ہے۔


جہاں ایک طرف آیت ‌الله مرتضی مطهری جیسے نامور علماء کی یہ کاوشیں تھیں، دوسری طرف جوانوں اور انقلابیوں کی جانب سے عاشورا اور سیاسی میدان میں زور پکڑنے والے انقلاب کو جوڑنے کی کوشش میں بھی تیزی آرہی تھی جس سے انقلابی نظریے کی تقویت کیلئے مقدمات فراہم ہوتے جارہے تھے۔ اور یہ مقدمات عملی شکل میں  1978 کے محرم میں تحقق پائے جس کے نتیجے میں تہران سمیت ایران کے دیگر شہروں میں ان دو تاریخی واقعات کا حسین امتزاج سامنے آیا۔


امام خمینی(رح) نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:


ماہ محرم کا چاند نظر آتے ہی شجاعت اور فداکاری کے مہینے کا آغاز ہو گیا ہے، یہ تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں حق کی طاقت سے، باطل ہمیشہ کیلئے مغلوب ہوگیا ہے۔ ستمکاروں اور شیطانی طاقتوں کے ماتھے پر کبھی بھی نہ مٹنے والا باطل کا سیاہ دہبہ لگ چکا ہے۔ تاریخ بشریت میں نسل انسانی نے اس مہینے کی بدولت نوک نیزہ پر فتح و کامیابی کا ہنر سیکھا ہے (2)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(1) سازمان مجاهدین خلق؛ پیدایی تا فرجام؛ موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، ج1، ص 523


(2) صحیفه امام، مرکز حفظ و نشر آثار امام خمینی (ره)، ج5، ص77