انقلاب اسلامی اور وحدت

36 سال قبل ایران کے مسلمان عوام نے برسوں کے رنج و مصائب اور جہدوجد کے بعد کامیابی حاصل کی

ID: 39474 | Date: 2015/04/26

 36 سال قبل ایران کے مسلمان عوام نے برسوں کے رنج و مصائب اور جہدوجد کے بعد کامیابی حاصل کی اور زمانے کے طاغوت اور سامراج کے ایجنٹ رضا شاہ کو اقتدار سے الگ کردیا۔ ایران کے عوام آزادی و خود مختاری اور عزت کے حصول کے لئے، بہترین راہ، اسلامی عوامی حکومت کی تشکیل کو سمجھتے تھے کہ جو مغرب سے وابستہ شاہی حکومت کی جگہ لے اور اس بلند و بالا نصب العین کے لئے، انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔


ایران ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف قومیتیں منجملہ فارس، عرب، ترک، کرد اور لر اپنی منفرد ثقافتی خصوصیات کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہیں۔ شیعہ، سنّی صدیوں سے عیسائیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کے ساتھ بہترین اور قابل احترام زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں۔وہ چیز کے جس نے مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں کے حامل ملک میں، اس صدی کے سب سے بڑے انقلاب کے نتیجے میں دنیا والوں کو حیرت زدہ کیا، امام خمینی رح کی مدبرانہ قیادت اور وحدت کے تحفظ اور متحدہ جدوجہد کی ضرورت کے حوالے سے آپ کی خاص توجہ تھی۔  حضرت امام خمینی رح نے جدوجہد کے سخت برسوں کے دوران، ہمیشہ عوام کے ایمان اور اتحاد کی طاقت پر تاکید فرمائی ہے اور آپ نے اپنی بے نظیر قیادت کے ذریعے ملت ایران کو تفرقہ اور تقسیم ہونے سے محفوظ رکھا، ہر چند کہ ایرانی ثقافت میں ہمیشہ ہی سے وحدت اور  دوسروں کے عقائد و ادیان کے احترام کے حوالے سے خاص توجہ دی جاتی رہی ہے، لیکن انقلاب کے سخت و بحرانی حالات میں تمام تر فرق کے باوجود اتحاد و وحدت کا تحفظ نہایت ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔


بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح ہمیشہ مشترکہ عقائد اور انسانی اقدار پر تاکید اور عوام کو اسلام کے حقیقی تعلیمات کی دعوت دیا کرتے تھے کہ جن میں سے ایک احکام، اتحاد و وحدت کا تحفظ اور تفرقہ سے اجتناب ہے۔ امام خمینی رح نے شیعہ و سنّی کو بھائی قرار دیا اور فرمایا : ہم اہل سنّت مسلمانوں کے ساتھ ایک ، واحد ، مسلمان اور بھائی ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات کہے کہ جو ہم مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کا باعث بنے، جان لو کہ ایسے لوگ جاہل ہیں یا ان کا تعلق ایسے گروہ سے ہے کہ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ شیعہ و سنّی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم سب بھائی ہیں۔ حضرت امام خمینی رح نے اسلام میں تفرقہ ڈالنے کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا: اے طاقتور مسلمانوں، اپنے آپ کو پہچھانو اور دنیا والوں کو بھی پہچھنواؤ کہ ظالم و جابر طاقتیں اور ان کے بدعنوان عناصر، تم کو برباد اور انسانی و اسلامی اقدار کو پائیمال کر نے کے لئے فرقہ وارانہ اور علاقائی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، تم خدائے تعالی اور قرآن مجید کے حکم سے تفرقہ پھیلانے والوں کو اپنے سے دور کردو، کیونکہ انہوں نے اسلام کو جونقصانات پہنچائے ہیں اور وہ خونخوار اور ظالموں سے کم نہیں ہیں۔ 


اتحاد و وحدت اسلام کی بنیادی ترین تعلیمات میں سے ہے۔ خداوند متعال سورہ مبارکہ آل عمران کی 103 آیت میں ارشاد فرماتا ہے، اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم  جہنّم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔ اسی طرح سورہ مبارکہ انفال کی 46 آیت میں ارشاد باری تعالی ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت میں خداوند متعال مسلمانوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف جنگ بلکہ ہر قسم کے نزاع و اختلاف اور باہمی چپقلش کی نفی کررہاہے۔ قرآن مجید کے مطابق تفرقے کا نتیجہ، صرف اس دنیا میں کمزوری اور سستی نہیں، بلکہ ان لوگوں کے لئے آخرت میں سخت عذاب ہے کہ جو اتحاد و وحدت کی بنیاد فراموش کر بیٹھے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت نمبر 105 میں ارشاد باری تعالی ہے، اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آ جانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذابِ عظیم ہے۔


پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیۖ  کی سنّت بھی، تمام مسلمانوں کے لئے ایک قابل قبول سند کے عنوان سے موجود ہے کہ جس میں اتحاد و وحدت پر توجہ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ سے دوری اختیار کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ جاہلانہ تعصب اور تنگ نظری، تفرقہ کے پیدا ہونے کی اصلی ترین وجوہات میں سے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی دنیا اس میں مبتلا ہے۔  پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیۖ  اپنے آپ کو تمام تعصبات اور تنگ نظری سے مبرّا سمجھتے تھے، آپۖ  کا ارشاد ہے، جو کوئی بھی دوسروں کو تعصّب کی دعوت دے اور اس کے لئے جنگ کرے اور اس دوران مارا جائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم ۖ نے مزید فرمایا: اختلاف اور تفرقہ پیدا مت کرو، کیونکہ تم سے قبل ایسے افراد تھے جنہوں نے اختلاف اور تفرقہ پیدا کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔


قطعی طور پر اسلامی وحدت یہ نہیں کہ شیعہ، سنّی ہوجائيں اور سنّی، شیعہ بن جائیں۔ وحدت اسلامی، اعتقادات اور مذہبی اسلامی عملی احکامات کو ایک کرنے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ وحدت اسلامی کا مطلب یہ ہے کہ مختلف اسلامی مذاہب کے پیروکار، اپنے خاص مذہبی عقائد اور احکامات پر پابند رہنے کے ساتھ ساتھ، سماجی و سیاسی تعلقات میں اسلامی امّہ کی مصلحت کو نظر میں رکھیں۔ مثال کے طور پر ان تمام فرق کے باوجود، تمام مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور خطرات کے پیدا  ہونے کی صورت میں سب متحد ہوجائیں، یکجہتی کے ساتھ خطرات کا مقابلہ کریں۔


انسانی زندگی کی پوری تاریخ میں، وحدت کے مفہوم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف و متعدد اسباب پیش کیئے گئے ہیں۔ مختلف معیارات منجملہ قومی، جغرافیائی، سیاسی اور طبقاتی مفادات کی بنیاد پر وحدت۔ لیکن بلآخر، اکثر معیارات اس اہم مسئلہ پر پورے نہیں اترے یا ان کی حیثیت ناپائیدار اور عارضی رہی ہے۔ کیونکہ اس قسم کے اصول کی بنیاد، وحدت کے حصول تک پہنچنے کے لئے متزلزل رہی اور دلوں میں نہ اتر سکی۔ بس وہ کون سے اصول اور معیارات ہیں کہ جو پائیدار اور تمدن ساز وحدت کو انسان کے لئے وجود میں لائیں اور ان کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیں اور ان کو ایک امت واحدہ میں تبدیل کردیں۔


ہر اس قسم کی وحدت کہ جو خدائے متعال پر ایمان کی بنیاد پر ہو، پائیدار اور سعادت و خوشبختی کی حامل وحدت ہے، مثال کے طور پر عداوت اور کینہ پروری جیسی صفات کو دوستی، محبت اور برادری میں تبدیل کردے۔ اس لحاظ سے خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ سب اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور جدا جدا نہ رہو۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح بھی ہمیشہ مشترکہ آسمانی کتاب اور خدائے یکتا پر ایمان کو شیعہ و سنّی کے درمیان وحدت کے لئے سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں اور آپ خود بھی دل کی گہریوں کے ساتھ اصل وحدت پر یقین رکھتے تھے۔ دین مبین اسلام مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ حتی دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ برتاؤ میں مشترکات پر توجہ دیں تاکہ بے اختلافات پیدا نہ ہوں اور دین کی صحیح سمجھ بوجھ کے لئے مساوی اور سازگار حالات فراہم ہوسکیں، اب کس طرح قبول کیا جائے کہ اسلام کے مختلف مذاہب کے پیروکار کہ جو بے پناہ مشترکات کے حامل ہیں، آپس میں تفرقہ پیدا کریں؟


ایران کا اسلامی انقلاب شیعہ و سنّی سمیت مختلف اسلامی مذاہب میں وحدت کا علمبردار رہا ہے، بلکہ سامراج کے ساتھ دشمنی اور ظلم کے خلاف نفرت کی ماہیت کی وجہ سے حریت پسند انسانوں میں خاص محبوبیت کا حامل ہے۔ حضرت امام خمینی رح بھی ہمیشہ اپنے بیانات میں محروموں، مظلوموں اور دنیا کے آزاد منشن انسانوں کو مخاطب کیا کرتے تھے اور ان کو انسانی اقدار اور عدل انصاف کی بحالی اور ظلم کے خلاف قیام کی دعوت دیتے تھے۔ اس لحاظ سے اسلامی انقلاب نے نہ صرف وحدت کے نظریئے کو مختلف اسلامی مذاہب میں زندہ کیا بلکہ دنیا کے تمام مستضعفوں اور حریت پسندوں کے درمیان مشترکہ عقائد اور انسانی اقدار پر بھروسہ کرتے  ہوئے، سامراج کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کے حوصلے کو تمام دنیا میں زندہ کیا۔  


اسلامی انقلاب کا تجربہ جس طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے شیرین اور امیدوار کنندہ تھا، اسلام دشمنوں کے لئے خطرے کی گنٹی ثابت ہوا۔ مستکبروں نے اپنے تمام تر مسلحانہ حربوں کے باوجود ایمان اور اتحاد کی دولت سے سرشار عوام کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست کا مزا چکھا تھا۔ ایران کے مسلمان عوام نے اس بات کو خوب اچھی طرح جان لیا کہ دنیا میں اسلامی تمدن کی بنیاد، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی بدولت ہی رکھی جاسکتی ہے۔ اس روسے اسلام کے دشمن اور مستکبر مغربی حکمرانوں نے اپنی تمام تر طاقت کو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ عالم اسلام میں تکفیری سلسلوں کو شروع کرنا، مسلمان معاشروں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے ان کی نئی کوشش ہے۔   


بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح نے فرمایا:


آج ہمارے درمیان اختلاف، صرف ان لوگوں کے فائدے میں ہے کہ جو نہ شیعہ مذہب پر اعتقاد رکھتے ہیں اور نہ حنفی مذہب یا دیگر فرقوں پر، وہ چاہتے ہیں کہ نہ شیعہ رہیں اور نہ سنّی ۔ ہمیں اس بات پر توجہ کرنی چاہیے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہم سب اہل قرآن اور اہل توحید ہیں، اور حتمی طور پر ہمیں قرآن اور توحید کے لئے زحمت برداشت کرنی چاہیئے اور خدمت کریں۔ حضرت امام خمینی رح درحقیقت مسلمانوں کی وحدت کو کھوئی ہوئی عظمت کی واپسی کا باعث سمجھتے ہیں اور دنیا کے مسلمانوں سے چاہتے ہیں کہ توحید کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور عالمی سامراج کو اپنے ممالک اور خزانوں سے دور رکھیں۔ لہذا آپ فرماتے ہیں، اے دنیا کے مسلمانوں کہ جو اسلام کی حقیقت پر ایمان رکھے ہو، اٹھ کھڑے ہو اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ توحید کے پرچم تلے جمع ہوجاؤ۔ عالمی سامراج کے خیانت سے پر ہاتھوں کو اپنے ممالک اور خزانوں سے دور رکھو، اور اسلام کو زندہ کرو، آپسی اختلافات کو ختم کرو، کیونکہ تمہارے پاس سب کچھ ہے۔