مجلس شورائے اسلامی کے نمائندہ

امام خمینی(رح) نے دنیا کو اسلامی حکومت اور اسلام سے آشنا کیا: حداد عادل

امام امت کی نظر میں اسلامی جمہوریت کا مقصود « اسلامی ثقافت کا حصول » ہے۔ یعنی امام خمینی(رح) نے جس وقت اسلامی نظام کا نعرہ بلند کیا۔

ID: 39230 | Date: 2015/03/09

جماران نیوز ایجنسی کے مطابق، جناب غلام علی حداد عادل نے یہ یاد دلاتے  ہوئے کہ « امام خمینی(رح) نے جس وقت ایران کے لئے اسلامی حکومت کا انتخاب کیا تو فرمایا: صرف اور صرف اسلامی جمہوریت، نہ ایک حرف کم، نہ زیادہ » بیان کیا: اس ایک جملہ نے ہمیں ایک بڑے عہد وپیمان سے دچار کیا جو کہ دینی اور اسلامی حکومت کا احیا تھا۔ امام بزرگوار نے اس دنیا کو ایک بار پھر سے اسلامی حکومت سے آشنا کیا جس نے اسے فراموش کر دیا تھا۔


پارلیمنٹ کے ممبر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: امام امت کی نظر میں اسلامی جمہوریت کا مقصود « اسلامی ثقافت کا حصول » ہے۔ یعنی امام خمینی(رح) نے جس وقت اسلامی نظام کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ اس سے نہ ایک حرف کم، نہ زیادہ، تو آپ کا مقصد اسی اسلامی ثقافت کا حصول تھا۔


موصوف نے اضافہ کیا: کسی بھی ثقافت کا ایک ہارڈویر جیسا پہلو ہوتا ہے اور دوسرا سافٹ ویئر جیسا اور اسلامی ثقافت کی اہم ترین سند قرآن کریم ہے اور ہمارا نصب العین اسی اسلامی ثقافت تک رسائی حاصل کرنا ہے۔


جناب حداد عادل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کریم دو لحاظ سے اسلامی ثقافت پیدا کرنے میں محوریت اور موضوعیت رکھتا ہے اضافہ کیا: ایک تو الہی و معنوی آئیڈیولوجی اور مسلمانان عالم کے لئے آسمان کے ملکوتی آفاق کے راستے کھولنا اور دوسرے اس لحاظ سے کہ یہ قرآن کریم ہے جو مسلمانوں کو ہویت عطا کرتا، اس کے علاوہ امت مسلمہ میں ہم خیالی و ہم سوئی نیز اتحاد پیدا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم اسلامی ثقافت کے حصول کی غرض سے نازل ہوا ہے۔


موصوف نے کہا: اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قرآن کریم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ ہمارے معاشرے کے تمام افراد کو قرآن حکیم سے مانوس ہونا چاہئے۔ مقصد یہ نہیں کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت کو کافی سمجھ لیں بلکہ اس کے مفاہیم سے آشنائی پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ حقیقی اسلام تک پہنچنے کے لئے قرآن مبین سے ہی ہمیں آغاز کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ اس قرآن کی تفسیر بیان کرنے والے اہلبیت اطہار علیہم السلام ہی ہیں۔


آپ نے مزید بیان کیا: اگرچہ ہم نے گذشتہ 36 برسوں میں قرآن کریم کے مفاہیم کے سلسلہ میں کچھ اچھے کام انجام دئیے ہیں، لیکن بسا اوقات اس سلسلہ میں ہم نے سستی بھی کی ہے؛ اگر ہمارا اخلاق وکردار قرآنی نہ ہو تو ہماری یہ تلاوت، قرائت، تجلیل، تحلیل اور حفظ جیسی چیزیں بے معنی و بے سود ہو کر رہ جائیں گی۔


جناب حداد عادل نے اپنے اختتامی کلمات بیان کرتے ہوئے اضافہ کیا: میں نے اب سے تقریباً دس سال قبل رہبر معظم انقلاب کے ساتھ ایک سفر کیا جہاں خود رہبر نے بھی اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ عربی متن کے علاوہ فارسی، (اردو یا پھر کوئی اور زبان میں) بھی قرآن کریم پڑھنا چاہئے۔ بہتر ہے کہ تمام اداروں میں قرآن کریم کے ترجمہ کی قرائت پر بھی خاص توجہ دی جائے۔