امام خمینی(رح) کے مکتب فکر سے:

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسیروں کے ساتھ محبت کیجئے

اسلامی انقلاب در حقیقت جھوٹ، سرمایہ داری اور کمیونسٹ کی مکاریوں کے دور میں دردمندوں اور مستضعفین کے لئے امید کی کرن بنا۔

ID: 39217 | Date: 2015/03/04

داخلی اور بیرونی دشمنوں کے تمام تر پروپیگنڈوں کے باوجود اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دوران معمار انقلاب حضرت امام خمینی(رح) سے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ملاقات کو آتے۔ یہ ملاقاتیں اس بات کی بیانگر تھیں کہ دشمنوں کی جانب سے ایجاد کردہ خوف وہراس اور اسلامی حکومت کو بھیانک بنا کر پیش کرنا لوگوں پر کسی بھی صورت اثر انداز نہیں تھا۔ نہ فقط یہ کہ ان دنوں ایرانی مسلمان اس عظیم کامیابی پر جشن منا رہے تھے بلکہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے دیگر ادیان کے پیروکار بھی اس خوشی میں برابر کے شریک تھے۔ ان لوگوں نے بھی اسلامی حکومت کے پرچم تلے استقلال وآزادی کا شعار دے کر ایرانی عوام کی خوشی اور غمی میں شریک وسہیم ہونے کی آمادگی دکھائی۔


انقلاب کا پیغام زمینی حدود سے آگے بڑھ کر لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں، تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے ذمہ دار حضرات اور پرنٹ میڈیا میں لبنانی اور کویتی اہل سنت نیز شیعہ وفود کی تہران آمد ،ساتھ ہی ان لوگوں کی رہبر انقلاب امام خمینی(رح) سے ملاقات اور اسی طرح لیبیا کے اعلی عہدہ داروں کی جانب سے ایران آنے کی خواہش اس بات کی حکایت گر ہے کہ اسلامی انقلاب صرف ایک نظام میں تبدیلی لانے اور اس کی جگہ دوسرے نظام کی حاکمیت کا نام نہیں ہے۔


توجہ رہے کہ ان دنوں مصر اور سعودی نیز بعض دیگر عرب ممالک اضطراب و پریشانی میں شب وروز بسر کررہے تھے اور اسرائیل کے ذمہ داروں کو سخت حیرانی کے دور سے گزرنا پڑ رہا تھا!


اسلامی انقلاب در حقیقت جھوٹ، سرمایہ داری اور کمیونسٹ کی مکاریوں کے دور میں دردمندوں اور مستضعفین کے لئے امید کی کرن بنا۔ یہ وہ دور ہے جب ایرانی عوام کو اپنے انقلاب و نظام کے استحکام کی غرض سے دوسروں کی حمایت درکار نہ تھی بلکہ اب دوسروں کو اپنے یہاں انقلاب بپا کرنے اور آزادی طلبی کے لئے اسلامی انقلاب کے اہداف کا حامی اور مدافع بننا پڑ رہا تھا۔


یہ سب جو کچھ بھی ہے اس آزاد منش انسان کے افکار کا نتیجہ ہے جس نے شمع امید روشن کی اور گزشتہ دہائیوں میں قدرت وسیاست کے پاؤں تلے کچلے جانے والے کاروان بشریت کی رہائی کا مژدہ سنایا تھا۔


وہ مرد بزرگ جس نے صدیوں سے اعلی انسانی اقدار سے محروم عوام کے لئے عدل وعدالت کی مسند بچھائی۔ اس انسان نے اُس دور میں معنویات اور دین ومذہب نیز خدائی کا ترانہ چھیڑا جب ایک طرف تو کمیونسٹی تحریک نے دین ومعنویات کو بالائے طاق رکھ کے مادیت کو فروغ بخشا تھا اور دوسری جانب دنیا کے مختلف گوشہ میں ہر کوئی ڈیموکریسی، آزادی، عدالت خواہی اور انسانی حقوق کا نعرہ لگا رہا تھا، لیکن ان سب کے باوجود ظلم وستم اور فتنہ وفساد اسی طرح جاری وساری تھا!


ابھی 22 بہمن ماہ کا سورج کامیابی کی نوید لے کر طلوع بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس بیدار مغز، مرد خدا نے اپنے پیغام کے ذریعہ تنبیہ کرتے ہوئے کہا:


" آپ لوگوں نے گزشتہ حالات میں اسلام وانقلاب کی رشد کے موقع پر خود کو ثابت کر دکھایا اور اب بھی ضروری ہے کہ گزشتہ کی نسبت زیادہ، دنیا والوں کو یہ رشد وترقی دکھائیں تا کہ ان کی سمجھ میں آجائے کہ ایرانی عوام دوسروں کی بیساکھی کے بغیر اپنی سعادت کی راہ طے کرنے کی لیاقت وصلاحیت رکھتے ہیں۔


دھیان رہے کہ ابھی ہمارا انقلاب، دشمنوں پر کامیابی کے لحاظ سے مکمل نہیں ہوا ہے. . . جو لوگ اسیر کے عنوان سے آپ کے اختیارات میں ہیں ہرگز انہیں آزار واذیت نہ دیجئے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسیروں کے ساتھ مہر ومحبت کیجئے؛ یہ اور بات ہے کہ اسلامی حکومت صحیح وقت پہنچنے پر انہیں محاکمہ اور ان کے لئے عدل وعدالت کا نفاذ عمل میں لائے گی"۔


صحیفہ امام، ج6، ص126


 


منبع: جماران نیوز ایجنسی