حضرت سید الشہداء ؑ کو مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا

حضرت سید الشہداء ؑ کو مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا

ظالم کے مقابلہ میں اور حکومت ظلم وجور میں، عورتوں اور مردوں کو نہیں ڈرنا چاہیے۔ حضرت زینب(س) نے یزید کے سامنے اسے اس قدر رسوا کیا کہ بنی امیہ اپنی پوری تاریخ میں اتنے رسوا نہیں ہوئے تهے۔

عاشور کے موقع پر، سید وسالار مظلومین امام حسین علیہ السلام کی درسگاہ سے امام خمینی(رح) کا موقف اور پیغام، امام خمینی(رہ) اردو پورٹل کیطرف سے آنحضرت(ع) کے تمام دوستداروں اور پیروکاروں کی خدمت میں تقدیم کررہے ہیں۔(حصہ اول):

ہماری قوم نے چه ماہ کے بچے سے لے کر اسی سالہ بوڑهے تک کو راہ خدا میں قربان کیا ہے اور یہی اس عظیم شخصیت حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی پیروی ہے۔
    حضرت سید الشہداء ؑ نے سب کو سکها دیا کہ ظلم وستم اور جابر وظالم حکومت کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ وہ شروع سے جانتے تهے کہ جس راستے کو اپنایا ہے اس میں انہیں اپنے تمام اصحاب اور خاندان والوں کو فدا کرنا پڑے گا اور اسلام کے ان پیاروں کو اسلام پر قربان کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے نتیجہ سے بهی آگاہ تهے۔ اگر امام حسین(ع) کی یہ تحریک اور قربانی نہ ہوتی تو یزید(١) اور اس کے پیروکار، اسلام کا چہرہ مسخ کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے، وہ لوگ پہلے سے ہی اسلام کے معتقد نہیں تهے اور اولیاء اسلام سے کینہ اور حسد رکهتے تهے۔ سید الشہداء ؑ نے اپنی اس قربانی کے ذریعہ نہ صرف یزید کو شکست دی، بلکہ تهوڑا عرصہ ہی گزرا تها کہ لوگ متوجہ ہوگئے کہ کیا مصیبت ٹوٹ چکی ہے اور یہی مصیبت باعث بنی کہ بنی امیہ کی بساط الٹ گئی اور تاریخ کے ہر دور میں سب کو سکها دیا کہ راستہ یہی ہے۔ وہ تعداد کی کمی سے خوفزدہ نہ ہوئے۔ تعداد سے کام نہیں بنتا، بلکہ تعداد کی کیفیت اور دشمنوں کے مقابلہ میں جہاد کی کیفیت سے کام بنتا ہے۔ افراد ممکن ہے زیادہ ہوں، لیکن کیفیت کے اعتبار سے ناقص ہوں اور ممکن ہے افراد کم ہوں لیکن کیفیت کے اعتبار سے توانا اور سربلند ہوں۔

    دنیا کی بڑی طاقتیں اور مشرقی اور مغربی بلاک والے خواہ ہمارے انقلاب کے دشمن ہوں اور دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ اس تحریک کے خلاف قلم فرسائی کریں اور جهوٹ کے طومار باندهیں لیکن جو حقیقت ہے وہ واضح ہو کر رہے گی اور جس روز حضرت سید الشہداء ؑ کو مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا، بعض لوگ انہیں خارجی کہتے تهے کہ اس نے حکومت حق کے خلاف بغاوت کی ہے! لیکن نور خدا چمکتا ہے اور چمکتا رہے گا اور ساری دنیا نور سے منور ہوجائے گی۔
    ماہ محرم الحرام میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اس ماہ میں علمائے اعلام اور خطبائے عظام کی ذمہ داری کیا ہے؟ اور اس ماہ محرم میں ملت کے تمام اصناف کی ذمہ داری کیا ہے؟ امام حسین(ع)، ان کے اصحاب اور اہل بیت علیہم السلام نے ذمہ داری بتا دی ہے کہ میدان میں ایثار وفداکاری کا مظاہرہ کریں اور میدان سے ہٹ کر تبلیغ کریں۔ جس قدر امام حسین ؑ کی فداکاری خدا کی بارگاہ میں قدر وقیمت رکهتی ہے اور اس نے ان کی تحریک کو آگے بڑهانے میں مدد کی ہے، حضرت سید سجاد(ع) اور حضرت زینب(س)( ٢) کے خطبے بهی اسی قدر موثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں سمجهایا کہ ظالم کے مقابلہ میں اور حکومت ظلم وجور میں، عورتوں اور مردوں کو نہیں ڈرنا چاہیے۔ حضرت زینب(س) نے یزید کے سامنے اسے اس قدر رسوا کیا کہ بنی امیہ اپنی پوری تاریخ میں اتنے رسوا نہیں ہوئے تهے۔ راستہ میں، کوفہ اور شام میں جو تقریریں کیں اور حضرت سید سجاد(ع) نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس سے واضح کردیا کہ ہمارے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا گیا تها۔ سید الشہداء(ع) کے بارے میں یہ پروپیگنڈا ہورہا تها کہ انہوں نے حکومت وقت اور خلیفہ رسول ﷲ ؐ کے مقابلہ میں بغاوت کی ہے! حضرت سید سجاد ؑ اور حضرت زینب ؑ نے اس بات کو مجمع عام میں فاش کیا اور اس کی تردید کی۔ آج ہمارے ملک کا بهی یہی عالم ہے۔ حضرت سید الشہداء ؑ نے ہماری ذمہ داری معین کردی ہے۔ میدان جنگ میں تعداد کی کمی اور شہادت سے نہ گهبرائیے۔ جس قدر انسان کا مقصد اور ہدف عظیم ہو اسی قدر اس کو زحمت بهی اٹهانا چاہیے۔ ہم اب بهی صحیح طورپر نہیں سمجه پائے ہیں کہ اس کامیابی کا حجم کتنا ہے؟ بعد میں آنے والے اس کامیابی کی وسعت وعظمت کو سمجهیں گے۔ جو عظمت اس کامیابی کی ہے اسی کے بقدر مصیبتیں بهی جهیلنا پڑیں گی۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکهنا چاہیے کہ ہم نے اس خطہ میں سے کچه حکومتوں کے منافع کا قلع قمع کردیا ہے تو ہمیں کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا۔ ہمیں توقع نہیں رکهنا چاہیے کہ اس عظیم کامیابی کے بعد ہمیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ ہم جس طرح ماضی میں تهے ویسے ہی ہمیں اب بهی رہنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ یزید بن معاویہ جس کی پیدائش ٢٦ ه،ق اور ہلاکت ٦٢ ه،ق میں ہوئی اپنے باپ کے بعد مسند حکومت پر بیٹها۔ وہ علم وفضل سے عاری اور فسق وفجور کا دلدادہ جوان تها۔ یزید کی حکومت ساڑهے تین سال رہی۔ پہلے سال اس ملعون نے امام حسین(ع) کو ان کے ساتهیوں سمیت شہید کیا۔ دوسرے سال پیغمبر ؐ کے دارالخلافہ اور مدفن، مدینہ منورہ کو غارت وبرباد کیا اور تیسرے سال مکہ پر حملہ کیا!!!
٢۔ حضرت زینب(س) حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کی تیسری اولاد ہیں (ولادت ٦ ه،ق شہادت ٦٥ ه،ق)۔ آپ ؑ نے اپنے پدر عالیقدر ؑ اور برادر بزرگوار امام حسنؑ کی خلافت کے دوران پیش آنے والے حوادث اور ان دو حضرات کی شہادت کو اپنی آنکهوں سے دیکها۔ مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا کی جانب امام حسینؑ کی ہجرت میں آپ ؑ ان ؑ کے ہمراہ تهیں۔ واقعہ کربلا میں آپ ؑ موجود تهیں اور آپ ؑ نے اپنے بیٹوں، بهائیوں اور بهتیجوں کو شہید ہوتے دیکها تها۔ عصر عاشور جب شہیدوں کے پسماندگی اور اہل حرم ؑ کو یزیدی سپاہیوں نے اسیر کرلیا تو حضرت زینب ؑ نے نہایت شجاعت اور صبر واستقامت کے ساته اسیروں کے قافلہ کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی۔ کوفہ اور شام کی جانب قافلہ کے پورے راستہ میں جن لوگوں سے سامنا ہوتا تها، شہدائے کربلا کا پیغام ان تک پہنچاتی تهیں۔ عبید ﷲ بن زیاد (کوفہ کا گورنر) اور یزید (نام نہاد خلیفہ وقت) کے درباروں میں آپ ؑ کے پر جوش انقلابی خطبے مشہور ومعروف ہیں۔

صحیفہ امام، ج١٧،ص٥٨

جاری ہے


ای میل کریں