امام حسین(ع) کی تحریک کا مقصد پہنچانا سب کی ذمہ داری

امام حسین(ع) کی تحریک کا مقصد پہنچانا سب کی ذمہ داری

اگر امام حسین(ع) کی تحریک نہ ہوتی تو ہم کبهی کامیاب نہیں ہوسکتے تهے۔ یہ اتحاد جو ہماری کامیابی کی بنیاد بنا، یہ مجالس عزا وسوگواری اور تبلیغ وترویج دین کی انہی مجالسوں کی وجہ سے تها۔

گزشتہ حصہ میں ہم نے عاشورا کے بارے میں امام خمینی(رح) کا موقف اور پیغام، امام حسین(ع) کے پیروکاروں کی خدمت میں پیش کیا تها اور اب اس مقال کا حصہ دوم، ملاحظہ فرما لیجئے:

تمام علما چاہے وہ خطبا ہوں یا ائمہ جمعہ وجماعت ہوں جو بهی عوام سے سروکار رکهتا ہے اور ان کے سامنے تقریر کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ امام حسین(ع) کی تحریک اور ان کے قیام کے مقصد سے لوگوں کو آگاہ کرے کہ وہ قیام کیا تها اور کتنے قلیل افراد نے قیام کیا تها اور کیسے کیسے مصائب اٹهانے کے بعد اسے انتہا کو پہنچایا۔ اگرچہ ان کی تحریک ختم ہونے والی نہیں۔
ہر سخنور اور مقرر کو اس چیز کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور ہم سب کو اس حقیقت کو پیش نظر رکهنا چاہیے کہ اگر امام حسین(ع) کی تحریک نہ ہوتی تو ہم کبهی کامیاب نہیں ہوسکتے تهے۔ یہ اتحاد جو ہماری کامیابی کی بنیاد بنا، یہ مجالس عزا وسوگواری اور تبلیغ وترویج دین کی انہی مجالسوں کی وجہ سے تها۔ سید مظلومین ؑ نے ملت کیلئے ایک وسیلہ فراہم کردیا کہ بغیر زحمت کے لوگ اکٹها ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے مسجدوں کو مورچے قرار دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہی مسجدوں اور اجتماعات جمعہ وجماعات کے ذریعہ اسلام کی ترقی کے تمام اسباب مہیا ہیں۔ خاص کر سید الشہدا ؑ نے اپنے طریقہ کار کے ذریعہ ہمیں سکها دیا کہ میدان میں اور میدان کے باہر کیسے رہنا چاہیے۔ جنگ کرنے والے افراد کو کیسے جنگ کرنا چاہیے اور جو لوگ محاذ جنگ پر نہ ہوں انہیں کس انداز میں تبلیغ کرنا چاہیے۔ انہوں نے جنگ کی کیفیت اور مٹهی بهر جماعت کی کثرت کے ساته جنگ کرنے کی کیفیت کو بتانے کے ساته یہ بتا دیا کہ تعداد کی کمی کے باوجود ظالم حکومت کا مقابہ کیسے کیا جائے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت سید الشہدا ؑ اور اہل بیت ؑنے ملتوں کو گوش گزار کی ہیں اور ان کے فرزند بزرگوار نے بهی یہ بتایا ہے کہ جب کوئی مصیبت آجائے تو کیا کرنا چاہیے۔ آیا انسان سرتسلیم خم کردے؟ جہاد میں نرمی کا قائل ہوجائے یا نہیں؟ بلکہ جس طرح حضرت زینب ؑ نے اس عظیم مصیبت کا مقابلہ کیا جس کے مقابلہ میں ہر مصیبت ہیچ ہے اور کافروں اور ملحدوں کے سامنے تقریریں کیں اور جب بهی موقع ملا، حق کو بر ملا کیا اور حضرت امام زین العابدین ؑ نے اس نقاہت اور کمزوری کے باوجود، کما حقہ تبلیغ کا فریضہ نبهایا، ایسے ہی کرنا چاہیے۔
    آپ حضرات اور تمام وہ علما جو ملک کے اندر ہیں، سب کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی اس نعمت اور اس کے عطیے کی حفاظت کریں اور اس نعمت کا شکر بجا لائیں اور اس کا شکریہ ہے کہ تبلیغ کریں۔ جو کام سید الشہدا ؑ نے کیا اور جو مقصد ان کا تها جو راستہ انہوں نے اختیار کیا اور جو کامیابی شہادت کے بعد انہیں اور اسلام کو نصیب ہوئی۔ اسے لوگوں کے سامنے آشکار کریں اور یہ باور کرائیں کہ اسلام میں جہاد کا انداز وہی ہے جو انہوں نے اختیار کیا۔ وہ جانتے تهے کہ سو افراد سے کم اس مختصر سی جماعت کو لے کر ہر لحاظ سے مسلح اس ظالم کے ساته مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
    یہ ماہ محرم ہے۔ اس میں آپ کو تبلیغ کرنا چاہیے۔ اس محرم کو زندہ رکهیے۔ ہمارے پاس جو کچه ہے اس محرم اور ان مجلسوں کی وجہ سے ہے۔ ہماری تبلیغی مجلسیں بهی محرم کی وجہ سے ہیں اور سید الشہدا ؑ کی شہادت اور ان کے قتل ہوجانے کا نتیجہ ہیں، ہمیں دنیا پر اس شہادت کی تاثیر کی گہرائی کو درک کرنا چاہیے اور توجہ رکهنا چاہیے کہ اس کی تاثیر آج بهی باقی ہے۔ اگر یہ وعظ وخطابت اور سوگواری کی مجلسیں اور اجتماعات نہ ہوئے تو ہمارا ملک کامیاب نہیں ہوسکتا تها۔ سب نے امام حسین ؑ کے جهنڈے کے نیچے جمع ہو کر قیام کیا۔ اب بهی آپ دیکهتے ہیں کہ جنگ کے محاذوں پر جب ان مجاہدوں کو دکهاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عشق امام حسین ؑ میںمحاذ جنگ کو گرم کررکها ہے۔

    لیکن محرم وصفر کے ان اجتماعات اور دوسرے اجتماعات میں، مبلغین، علما وخطبا کو چاہیے کہ آج کے سیاسی مسائل اور لوگوں کی ذمہ داری سے انہیں آگاہ کریں، خاص کر اس دور میں جب چاروں طرف ہمارے دشمن ہی دشمن ہیں۔ ملک کے عوام کو باور کرائیں کہ ابهی ہم راستہ میں ہیں۔ ہمیں انشاء ﷲ منزل مقصود تک پہنچنا ہے۔ ان حالات کے مطابق جو اب تک رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افراد میدان میں موجود تهے۔ اگر اسی حالت میں آگے بڑهیں تو آخرکار یقینی طورپر کامیاب ہوںگے۔ لیکن ہمیں سست نہیں ہونا چاہیے۔
    ہمارے ملک کا ابتدا سے ہی نعرہ یہ تها کہ ہمیں جمہوری اسلامی اور مکمل آزادی چاہیے جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی، اس نے ابتدا سے ہی دنیا کو بتا دیا کہ ہم امریکہ، روس یا کسی اور طاقت کی حمایت کے تحت نہیں ہیں۔ ہم خدائے تبارک وتعالیٰ کی حمایت اور پرچم توحید کے سائے میں ہیں کہ وہی امام حسین(ع) کا پرچم بهی ہے۔ جب آپ نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا ہے تو دنیا بهی آپ کے خلاف اٹه کهڑی ہوگی۔ ہمیں شروع سے ہی اس حقیقت کو مدنظر رکهنا چاہیے کہ جس طرح سید الشہدا ؑ نے ہر قسم کے اسلحے سے لیس اس اکثریت کے مقابلہ میں قیام کیا اور شہید ہوگئے ہم بهی شہادت کےلئے تیار ہیں۔ اس وقت جب کہ بعض ائمہ جمعہ(١) کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو حضرات موجود ہیں وہ اعلان کررہے ہیں کہ ہم سرحد شہادت تک اس فریضہ کو نبهائیں گے۔ سب کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔  ١١ فروری ١٩٧٩ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عالمی استکبار نے امریکہ کی سرکردگی میں انقلاب کو جڑ سے اکهاڑ دینے کی خاطر طرح طرح کی سازشیں کیں، منصوبے بنائے اور عملی اقدامات کیے۔ تفرقہ اندازی، کودتا اور ایران کے خلاف جنگ کے علاوہ کہ جو آٹه سال تک چلتی رہی۔ اس نے بم دهماکے کرائے اور ''مجاہدین خلق'' کے منحوس کارندوں کے ذریعہ خفیہ قتل وغارتگری کا بازار گرم کیا۔ ان ناپاک حملوں کے دوران جمہوری اسلامی ایران کے بہترین سربراہ اور سیاستمدان جن میں تبریز کے امام جمعہ، شہید آیت ﷲ مدنی، شیراز کے امام جمعہ، شہید آیت ﷲ دستغیب، یزد کے امام جمعہ، شہید آیت ﷲ صدوقی اور کرمانشاہ کے امام جمعہ، شہید آیت ﷲ اشرفی اصفہانی شامل تهے، شہید ہوئے۔ اپنی جانیں کهوبیٹهے۔
(صحیفہ امام، ج ١٧، ص ٥٨)

والسلام ۔ التماس دعــا


ای میل کریں