چالیس شہدا کے وصیت ناموں سے ماخوذ چالیس مناجات

چالیس شہدا کے وصیت ناموں سے ماخوذ چالیس مناجات

خدایا! ایسی آنکه عطا کر جو تیرے لیے روئے ایسا ہاته عطا کر جو صرف تیرا دامن پکڑے۔ اور ایسی جان عطا کر جو تیری راہ میں چلی جائے۔

۱: شہید معلم مہدی رجب بیگی:

خدایا! ہمیں پرواز کرنا سیکها تاکہ تیری بارگاہ میں اڑ کر پہنچ جائیں۔ اور اپنے نور سے آگ ہمارے اندر بهر دے تاکہ لاعلمی کی ٹهنڈک میں کبهی سکڑ نہ جائیں۔ اپنے شہیدوں کے خون کو ہماری رگوں میں جاری کر تاکہ زندگی کی ہوس نہ کریں۔

خدایا! ایسی آنکه عطا کر جو تیرے لیے روئے ایسا ہاته عطا کر جو صرف تیرا دامن پکڑے۔ اور ایسی جان عطا کر جو تیری راہ میں چلی جائے۔

۲: شہید ڈاکٹر مصطفی چمران، محل شہادت دہلاویہ، سال ۱۳۶۰

اگر میرے اعضاء بکهر جائیں، میری ہستی آگ میں جل جائے اور میری راکه ہوا میں اڑ جائے تب بهی میں صبر کروں گا اور اپنے خدا کی عاشقانہ عبادت کروں گا۔ کاش میں شمع ہوتا تاکہ سر سے پیر تک جل جاتا اور تاریکی کو اپنے اطراف سے چهٹ دیتا۔ میں کفر و الحاد کو اجازت نہیں دوں گا کہ ہمارے اوپر مسلط ہو۔

۴: شہید مجتبی رسول زادہ، محل شہادت خرمشہر، سال ۱۳۶۱

خدایا! اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا عاشق ہو گیا ہوں مجهے اپنی طرف بلا لے ورنہ مجهے کمال حاصل کرنے کی توفیق عنایت کر تاکہ شہادت کے لائق بن سکوں۔

۴:شہید صفر علی خاجوی، محل شہادت شلمچہ، سال ۱۳۶۵

خدایا! اگر تو نے میرے جرم کی وجہ سے مجهے سزا دی تو تجهے ترے عفو و بخشش سے بلاوں گا اور اگر مجهے جہنم کی آگ میں لے ڈال دیا تو میں اہل جہنم سے یہی کہوں گا کہ میں تجهے دوست رکهتا ہوں۔

۵: شہید مجید پور کرمان محل شہادت، خرمشہر، سال۱۳۶۱

میرے پاس کوئی سبز اور ہری ٹہنی نہیں ہے کہ جسے میں اپنے ساته اس دنیا میں لے جاوں لیکن مجهے یہ امید ہے کہ یہ خشک ٹہنیاں وہاں ہری ہو جائیں گی اور پهل دیں گی۔

۶: شہید حسن رئوفی  فریمانی، محل شہادت پنجوین ، سال ۱۳۶۲

خدایا! میری مدد کر تا کہ میرے قدم نہ لڑکهڑائیں۔ اور میری ہدایت کر تا کہ میری گولیاں دشمنوں کے سینوں میں پیوست ہوں اور جب تیری صلاح اس میں ہو کہ یہ حقیر جان تیری بارگاہ میں پیش کرے تو میرے امام عج کو میرے سرہانے بهیج دے کہ میں شدت سے ان کا محتاج ہوں۔ خدایا میں تیر، گولی اور توپ کا درد تو تحمل کر سکتا ہوں لیکن امام خمینی کے رنج و الم کو تحمل نہیں کر سکتا۔

7- شهید حسین یحیایی محل ولادت تهران ، محل شهادت: شلمچه ، سال 1365

اے خدا! یہ میرا دل، میری جان اور روح صرف تجهے بلاتی ہے۔ اب دنیا اور اہل دنیا کے درمیان رہنے کا حوصلہ نہیں رکهتاہوں ۔ اب یہ چاہتا ہوں کہ اس گناہوں سے بهری وادی سے کوچ کروں اور اس عشق و محبت کی وادی میں قدم رکهوں۔

اے لوگو! روح اللہ کی روح کو الہی رہنے دو، دنیا طلبی کے راستے سے نکل کر رضائے الہی کے راستے پر گامزن ہو جاو اور اللہ کی مرضی کو طلب کرو۔

۸: شهید سعید هدی محل ولادت  مراغه، محل شهادت: شلمچه، سال 1365

خدایا! یہ پنجرے میں بند مرغ صرف تجهے دیکه رہا ہے اور اپنے نازک پروں سے تیری طرف اڑنے کو تیار ہے۔ لیکن نہ اس وجہ سے کہ بدن کے پنجرے سے پرواز کرے اور اس بیکراں دنیا میں اڑے ، نہ۔ اس لیے کہ زمین و آسمان اپنی وسعت کے ساته بهی اس پرندہ کے لیے ایک بڑا پنجرہ ہیں۔ یہ پرندہ یہ چاہتا ہے کہ تو اپنی بارگاہ کا دروازہ کهولے اور وہ اس میں داخل ہو جائے۔

۹: شهید علی حسینی آقایی محل ولادت، تهران،محل شهادت: سومار 1361

 خدایا! میرا درد بهرا دل آزادی کا شوق رکهتا ہے تا کہ اس تاریک مسافر خانہ سے، اس عاشقوں کی جیل سے رہائی حاصل کرے اور تیرے بارگاہ میں تجه سے جا ملے۔

۱۰: شهید حاج عبدالستار قندانی‌پور
خدایا! دنیا سے وابستگی کی جڑوں کو میرے وجود کی خاک میں خشک کر دے اور دنیوی تعلق کی رگوں کو میرے دل کے اندر سے جلا دے۔

۱۱:شہید ابوالفضل راز فانی محل ولادت تہران، محل شہادت: عراق کی جیل، سال ۱۳۶۲

یا اللہ ! یا قدوس! یا ارحم الراحمین! میں ذلیل ہوں میں ناچیز ہوں اپنی عظمت کی بدولت مجهے توانائی دے۔ اپنے نور سے مجهے روشنائی دے۔ میرے بدن کا حصہ حصہ اسلام اور شہادت کا عاشق ہے۔ خدایا ایسا نہ ہو کہ میں آنکه بند کر کے اس دنیا سے چلا جاوں۔

۱۲: شہید احمد دادستا، محل ولادت: تہران۔ شہادت سال ۱۳۶۲

اے مہربانی کرنے والے! میں تیرا عاشق ہوں۔ اے بخشنے والے!میرے اوپرکرم کر دے۔ مجهے بخش دے مجهے عاشقوں کی صف میں جگہ عنایت کر۔ خدایا میرے وجود کو اپنی لقا کے لیے اور عاشق کو معشوق تک پہنچنے کے لیے آمادہ کر۔

۱۳: شہید سید داود مشکار گونہ فراہانی، محل ولادت تہران۔ محل شہادت: اہواز سال ۱۳۶۰

اس کے نام سے کہ میں جس سے ہوں۔ اس کے نام سے کہ جس کے نام سے زندہ ہوں۔ میری زندگی اسی کے لیے ہے میرا زندہ رہنا اسی کی وجہ سے ہے میرا جانا اسی کی طرف ہے میرا دوست وہی ہے میری جان وہی ہے۔ میرا معشوق وہی ہے میں اسے محسوس کرتا ہوں اپنے دل سے اپنے وجود کے ذرہ ذرہ سے۔ اے میرا سب کچه میں تمہاری یاد میں ہوں تو بهی مجهے یاد رکه کہ تیرے بغیر میں ہیچ ہو جاوں گا۔

۱۴: شہید بہزاد حداد ماہی محل ولادت تہران محل شہادت شلمچہ، سال ۱۳۶۵

خدایا! میں چاہتا ہوں کہ اگر شہید ہوں تو بغیر سر کے تا کہ امام حسین [ع] کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ خدایا! میرے اوپر رحم کر خدایا میں ہمیشہ چاہتا تها کہ شہید ہو جاوں میری اس تمنا کو بهر لا۔

۱۵: شہید جواد حیدری فرد، محل ولادت تہران، محل شہادت: جزیرہ مجنون۔ سال۱۳۶۲

خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس نفس سے جو سیر نہیں ہوتا۔ اور اس علم سے جو فائدہ نہیں پہنچاتا،اس نماز سے جو قبول نہیں ہوتی اور اس دعا سے جو مستجاب نہیں ہوتی۔

۱۶: شہید بہنام یوسفی اردبیلی،

اے میرے معبود! اے وہ ذات کہ پاک دل جس سے ملاقات  کے لیے تڑپتے ہیں۔ خدایا میں نے تیرے ساته دوستوں کی شہادت کے وقت اور دشمنوں کی طرف سے بموں کی بارش کے دوران یتیم بچوں کے نالہ و شیون کے وقت یہ عہد کیا تها کہ آخری خط تک جاوں اور اب میں نے اس عہد و پیمان کو وفا کر دیا ہے خدایا میں نے وفاداری اور خلوص کے ساته عمل کیا ہے تو مجهے قبول کر لے۔

۱۷: شہید مجید حاجی محمد زادہ اصل، محل ولادت مشرقی آذربائجان ، محل شہادت شلمچہ

اللہ اکبر، اللہ اکبر، کیا خوب معلم ہو اور کتنی مہربانی کی ہے۔ میں تیرا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تجه سے میں درس حاصل کیا ہے اور میدان عمل میں امتحان دیا  ہے اور اس ناچیز کو وادی عشق میں جگہ دی ہے۔

۱۸:شہید یعقوب مہدی زادہ اصل، محل ولادت اردبیل محل شہادت شلمچہ سال ۱۳۶۵

خدایا! اگر میری مدد نہ کی مجهے سہارا نہ دیا میں کیا کروں گا اور کہاں جاوں گا؟ میرا تیرے سوا تو کوئی نہیں ہے۔ میں تیرے سوا کوئی پناہ نہیں رکهتا۔ خدایا، اس ناچیز بندہ کا ہاته تهام لے، اور اس کی آواز کو جو اس کے دل سے نکلتی ہے سن لے اور مجهے ایک لمحہ کے لیے بهی میرے حال پر نہ چهوڑنا۔

۱۹: شہید غلام رضا شاہ میرزایی، محل ولادت اصفہان، محل شہادت: کردستان سال ۱۳۶۴

خدایا! محمد مصطفی [ص] سے کہہ دے آپکے چاہنے والوں نے حماسہ کهڑا کر دیا ہے ۔ علی مرتضی [ع] سے کہہ دے آپ کے شیعوں نے قیامت برپا کی ہے حسین مظلوم [ع] سے کہہ دے کہ آپ کے عزاداروں کے دلوں میں خون جوش مار رہا ہے۔

۲۰: شہید محمد حسین کاظمی محل ولادت اصفہان، محل شہادت: شلمچہ سال ۱۳۶۵

خدایا! تیرے وصال کی شراب کے علاوہ کوئی دوسری چیز میری پیاس کو نہیں بجها سکتی۔ تیرے دیدار کے علاوہ کوئی چیز میرے عشق کی آگ کو نہیں خاموش کر سکتی۔اور تیری رحمت کے علاوہ کوئی چیز مجهے سیر نہیں کر سکتی۔

۲۱: شہید عباس مرزایی

الہی، میرا دل تیری وجہ سے کام کر رہا ہے ورنہ اس دل کا کوئی کام نہیں ہے۔ ایک مردہ چراغ کا انجام کیا ہے۔ خدایا تیرے سوا کسی کی اطاعت ناممکن ہے۔ خدایا دل صرف تیری تمنا کرتا ہے۔

۲۲: شہید مرتضی شاہ محمدی محل ولادت تہران، محل شہادت: شلمچہ سال ۱۳۶۵

خدایا! بارالہا! میرے معبود! میرے مہربان مولا! یا رحیم ! یا کریم! یا رحمان! یا غفور ! اے بخشنے والے! یا ستار العیوب! تو گواہ رہنا میں گناہگار اور ناتوان یہ دوست رکهتا ہوں کہ دشمن میری آنکهوں کو پیشانی سے نکال دے میرے ہاتهوں کو جدا کر دے میرے پیروں کو کاٹ دے میرے دل کو زخموں کی آماجگاہ بنا دے اور میرے سر کو بدن سے الگ کر دے تاکہ دشمن یہ دیکهیں کہ اگر چہ انہوں نے میری آنکهوں، ہاتهوں، پیروں، سرو سینہ کو مجه سے چهین لیا ہے لیکن ایک چیز کو مجه سے نہیں چهین سکے اور وہ میرا ایمان ہے میرا خدا سے عشق ہے شہادت سے عشق ہے امام اور اسلام سے عشق ہے۔

۲۳: شہید محمد رضا مصلی نژاد محل ولادت استان فارس، شہادت سن ۱۳۶۵

خدایا! ایک گروہ چاہتا ہے کہ تجهے دوسروں کے استدلال سے پہچانیں ایک گروہ تجهے کتابوں اور علمی بحثوں میں تلاش کرتا ہے۔ ایک گروہ آیتوں سے تجهے پہچاننے کی کوششوں کرتا ہے۔ لیکن اے میرے مولا ہمیں توفیق دے کہ ہم خود تیرے ذریعے تیرا ادراک کریں امام حسین [ع] کے بقول ہم تیرےوجود سے تجه پر استدلال کرتے ہیں۔ پس ہمیں اپنے انوار کے سایہ میں جگہ عنایت کر۔

۲۴: شہید رسول فر محسنلو محل شہادت شلمچہ سال ۱۳۶۷

خدا وندا! اب جب تیرے سامنے ہم اپنے آپ کو تنہا پاتے ہیں اور تیری حکومت کے دائرہ سے فرار نہیں کر سکتے تیرے حضور میں اپنے آپ کو ذلیل و خوار اور ناچیز سمجهتے ہیں۔ یا غیاث المستغیثین! مجهے رہا نہ کرنا اگر رہا کر دیا تو شیطان کے چنگل میں گرفتار ہو جاوں گا۔ خدا وندا! اب بہت ہو گیا ہے یہ دنیا اب میرے لیے پنچرہ بن چکی ہے جو میری روح کو اذیت و آزار دیتی ہے اور اسے شکنجہ کرتی ہے۔

۲۵: شہید علی اکرامی

خدایا! اپنی اطاعت کو مجهے الہام کر، اور اپنی نافرمانی سے مجهے دور کر، اور جو چیز تیری خشنودی کا باعث سے اس تک رسائی حاصل کرنے کی توفیق عنایت کر۔ اور مجهے اہل بہشت کے درمیان جگہ عنایت کر۔ اور ہمارے دلوں سے بدگمانی کے پردے ہٹا دے اور ہمارے ضمیر سے باطل کے نقش کو مٹا دے۔

۲۶: شہید رضا خان محمد سن شہادت: ۱۳۶۲

 بار الہا! مجهے پاک اور خالص بنا دے۔ میرے دل کے آشیانہ میں اپنے عشق کے پرندہ کے علاوہ کسی کو راستہ نہ دے۔ میری مدد کر تا کہ میں اپنے سرکش نفس سے مقابلہ کر سکوں۔ میری مدد کر تاکہ میں تیرا بندہ بن سکوں اور تیری چوکهٹ پر سر جهکائے رہوں تیرے لیے زندہ رہوں اور تیرے لیے مروں۔

۲۷:شہید عباس محمدی محل ولادت: خراسان، محل شہادت: شلمچہ سال ۱۳۶۵

خدایا! کتنا اچها ہے ہجرت کرنا اور جہاد کرنا۔

خدایا! کتنا اچها ہے جہاد کرنا اور شہادت پانا۔

خدایا! کتنا اچها ہے دنیوی تعلقات سے دور ہونا اور ذات کبریا سے مل جانا۔

خدایا! اتنا اس راستے پر چلوں گا کہ تیرے حضور تک پہنچ جاوں۔ اس قدرتیری خاک پر سجدے کروں گا کہ تجهے پالوں۔ اس قدر دعا کروں گا کہ تو میرے دل کو اپنا گهر بنا لے۔ اور اس قدر دروازہ کهٹکهٹاوں گا کہ تو دروازہ کهول دے اور میری جان کا خریدار بن جائے۔

۲۸: شہید سید علی سید حسینی محل ولادت تہران، سال شہادت ۱۳۶۵

خدایا کتنی خوبصورت ہے موت تیری راہ میں۔

خدایا! میں جانتا ہوں کہ تو کون ہے لیکن نہ اسقدر کہ علی [ع] جانتے تهے۔

خدایا! میں نے چشم بصیرت سے دیکها ہے لیکن نہ اس قدر کہ حضرت محمد [ص] نے دیکها۔

خدایا! تیری کتاب اور جوکچه تیری طرف سے اس پر نازل ہوا ہے، یقین رکهتا ہوں لیکن نہ اس قدر کہ ہمارا عزیز رہبر خمینی کبیر یقین رکهتا ہے۔

۲۹: شہید سید جلال معصومی محل ولادت گلپائگان ، سال شہادت ۱۳۶۳

اے معبود! اے پالنے والے! کتنا خوبصورت  ہے تیرے جمال کا جلوہ اور کتنا با عظمت ہے تیرے جلال کا منظر۔ میں حیرت میں ہوں کہ کیسے تیرا شکریہ ادا کروں۔ خدایا! عزت اور ذلت تیرے ہاته میں ہے پس مجهے میرے حال پر مت چهوڑنا۔

۳۰: شہید غفور مومن زادہ محل ولادت: اردبیل، محل شہادت: شلمچہ سن ۱۳۶۶

خدایا! میں نے تیری طرف رخ کیا ہے اور تیرے کرم کی امید کا سرخ پهول اپنے دل میں اگایا ہے۔

خدایا! تیرے عاشق تیرے طرف آ گئے ہیں اور میں ابهی پنجرہ میں بند ہی ہوں۔ عشق کے چشمہ کو میری طرف جاری کر دے تاکہ میں اس سے اپنے جلے دل کو دهو پاوں۔

۳۱: شہید ڈاکٹر چمران محل ولادت: تہران، سال شہادت ۱۳۶۰

خدایا! تهکا ماندہ اور شکستہ دل ہوں، ظلم سے ناچار اور جہل سے بے بس ہوں طوفان حوادث کے سامنے ناتوان،مبہم اور نامعلوم کے سامنے ناامید ہوں اکیلا، بے سہارا اور لاچار ہوں زندگی کے تپتے صحرا میں اور حیات کی زنجیروں میں جهکڑا ہوا مغموم اور محزون آزادی کی تمنا کرتا ہوں اور میری مرجهائی ہوئی روح پرواز کی خواہش رکهتی ہے۔

۳۲: شہید محمد حسن ولیخانی محل ولادت تہران، سن شہادت: ۱۳۶۵

پروردگارا ! خون کی اس قربانی میں، خون کے خون کے ساته عہد و پیمان میں، مجهے آسمان کی فضاوں میں اپنے عشق کے ساته  وصال عطا کر۔مجهے میرے خون کی گرمی کے ساته خاک سے ملا دے کہ میں اس عشق کا دیوانہ ہوں۔

۳۳: شہید بیت اللہ حسن زادہ

اے میرے معبود! کتنا خوبصورت ہے تیرے جمال کا جلوہ، اور کتنی با عظمت ہے تیرے جلال کی جلوہ گاہ۔ میں اس حیرت  میں ہوں کہ یہ میں ہوں جسے یہ افتخار نصیب ہوا ہے کہ اس صحرا میں تیرے ساته راز و نیاز کر سکوں۔

کیا یہ میں ہی ہوں کہ جسے تیرے حضور میں حاضر ہونے کی توفیق حاصل ہوئی ہے! یہ لمحے  جن میں، میں تجه سے مناجات کر رہا ہوں کسی زمانے سے مقید نہیں ہیں بلکہ یہ ابدیت کا پیغام ہے کہ مجهے تمام دنیوی مشاغل سے بیزار کر کے اپنی بارگاہ میں حاضری کے لیے آمادہ کیا ہے۔ ہاں، اے میرے پروردگار! یہ میں ہوں نہ وہ میں جس نے کئی عرصہ تیری ملاقات کی تلاش کی۔ آج میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں دیکه رہا ہوں اور نہ کسی کو جانتا ہوں۔

۳۴: شہید مسعود امیری محل ولادت، کرمانشاہ، سال شہادت: ۱۳۶۷

خدایا! مہاجر چلے گئے اور ہم انصار رہ گئے۔

خدایا! بادلوں سے کہو گریہ کریں، پہاڑوں سے کہو شگافتہ ہو جائیں۔ سورج سے کہو طلوع نہ کرے اور سب سے کہو آنسوں بہائیں۔

خدایا! پرندوں سے کہو اپنے پروں کو شہیدوں کے خون سے رنگین کریں۔ اور کبوتروں سے کہو خون کے پیغام کو پیمان شکنی کرنے والوں تک پہنچا دیں۔

خدایا! ایک بار پهر فرشتوں سے کہہ دے " انی اعلم ما لا تعلمون" اور خلقت کے فلسفے کو خوزستان ، مہران، اور دوسری جنگی کربلاوں پر دکهلا دے۔

خدایا! محمد مصطفی [ص] سے کہہ دے آپ کا کلمہ پڑهنے والوں نے حماسہ کهڑا کر دیا ہے، علی مرتضی [ع] سے کہہ دے آپ کے شیعوں نے قیامت بپا کر دی ہے۔ اور امام حسین [ع] سے کہہ دے کہ آپ کا خون ویسے ہی ہماری رگوں میں ابل رہا ہے۔

۳۵: شہید ذبیح اللہ کرمی، محل ولادت: کرمانشاہ، سال شہادت: ۱۳۶۷

تمام مقدسات سے زیادہ امام کے پیغام نے میرے دل پر اثر چهوڑا ہے۔ میں جتنا روتا تها اتنا زیادہ شرمندہ اور غمناک ہوتا تها۔ میں شرم کے پسینے میں غرق بارگاہ رب العزت میں چلا گیا اپنے خون کے ساته اور خدا کی رحمت کے ساته تا کہ اس شرمندگی کو اپنے اندر سے دور کروں میں اس سے زیادہ امام کی مظلومیت کو نہیں دیکه سکتا تها۔ اور اسے برداشت نہیں کر سکتا تها۔

۳۶: شہید علی اکبر محل ولادت: نفت شہر، محل شہادت: طلابیہ۔ سن ۱۳۶۳

وہ انسان جس نے خدا کو پہچانا اس کا عاشق ہو گیا اور جو اس کا عاشق ہوا تمام کثافتوں کو اپنے سے دور کر دیتا ہے۔ وہ انسان جو خود خدا کو یا اسلام کو پہچانے تمام نیک کاموں کو اپنا وظیفہ سمجهتا ہے۔ میں خدا کے علاوہ کوئی نعمت نہیں رکهتا۔ اور آپ بهی نہیں رکهتے۔ یہ ایک وظیفہ ہے اور ہم سب کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے۔

۳۷: شہید عبداللہ حکمت شمار، محل ولادت۔ تہران۔ محل شہادت شلمچہ، سال ۱۳۶۶

اے کریم! میں نے سنا تها کہ تو سوائے پاک اور پاکیزہ متاع کے کسی چیز کا خریدار نہیں ہوتا۔ پس کس معیار پر مجهے کہ جو رو سیاہ، بدصورت، دل آلودہ ہوں خریدا ہے؟

اے رحیم! میں سرگرداں بندہ ہوں کہ جس کی گفتگو، خوراک و پوشاک ، دیکهنا سننا سب کچه گناہ ہے اگر دل ہے تو وہ بهی ریا سے آلودہ اور غیر خدا کا ٹهکانہ، پس اپنی واسع رحمت اور کرم کے واسطہ میرے سیاہ چہرے کو سفید کر دے میرے گناہوں سے در گذر کر دے اور میرے اوپر رحم نازل کر۔ اگرچہ میں تیرے باغ کا ایک کانٹا ہی ہوں۔

۳۸: شہید محمد علی فتاح زادہ، محل ولادت: تبریز، سال شہادت، ۱۳۶۴

خدایا! جب تجهے دیکهتا ہوں تو اپنے آپ کو تاجدار پاتا ہوں جس کے سر پر تاج رکها ہے۔ اور جب خود کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو اپنے آپ کو خاکسار پاتا ہوں جس کے سر پر خاک پڑی ہو۔

۳۹: شہید مسعود صالحی محل ولادت: ملایر، محل شہادت شلمچہ، سال ۱۳۶۶

خدایا! توفیق دے حق و باطل کی جنگ میں عشق کے ساته لڑوں اور طاغوت اور شیطان کو زمین بوس کر دوں۔

توفیق دے پروانہ کی طرح تیرے وجود کے اطراف میں چکر کاٹوں۔ اور اپنے آپ کو جلاوں تاکہ تمام زنجیریں ٹوٹ جائیں۔ اور آزادی کے ساته زندگی کے معرکہ میں کود جاوں۔ توفیق دے تاکہ تیز تلوار کے ساته تاریخ کے سکوت کو توڑ دوں۔ توفیق دے مادی لگاو سے اپنے آپ کو آزاد کر دوں۔

۴۰: شہید مرتضی عمرانی پور، محل شہادت شلمچہ، ۱۳۶۵

بار الہا! ایسا احساس کر رہا ہوں کہ اب تک آئمہ معصومین [ع] سے میرا کوئی رابطہ نہیں رہا ہے لہذا تجه سے یہ چاہتا ہوں کہ میری عمر کے آخری لمحے میں میرا پہلو ٹوٹ جائے میرا چہرا نیلا پڑ جائے اپنے بازووں میں درد جهیلوں، اور میرے سینے میں جلن کا احساس ہو تاکہ میرا جسد اور بدن آئمہ معصومین [ع] کے مشابہ ہو جائے۔

بشکریہ ایثاروشہادت خبررساں سائٹ

ای میل کریں