حضرت  علی بن موسی الرضا (ع)امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں

حضرت علی بن موسی الرضا (ع)امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں

مامون دهوکہ اور نفاق کے ساته امام رضا علیہ السلام کو اے میرے چچا کے بیٹے اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے کہہ کر آپ علیہ السلام پر نظر رکهتا تها، کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ قیام نہ کرلیں اور سلطنت کو تباہ نہ کردیں

شیعوں کے آٹهویں امام ، امام رضا علیه السلام کی ولادت  ۱۴۸ه   کو مدینہ میں   ہوئی، آپ علیہ السلام کی عہد  سے شیعوں کے لئے خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے دور  کا آغاز ہوا،  اور یہ سابق ائمہ علیہم السلام کی کوششوں اور قربانیوں کا نتیجہ تها، ان کوششوں کا نتیجہ ہی تها کہ شیعوں کی ایک عظیم طاقت وجود میں آئی،  اب شیعہ حکومت کی بهاگ دوڑ ہاته میں لے سکتے تهے لیکن اس صورت حال نے عباسی حکمرانوں کو  خوف و هراس میں مبتلا کردیا  اور ان کو حل سوچنے پر مجبور کردیا، شیعوں کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے امام رضا علیہ السلام کو ولی عہدی دینا بهی اس مسئلہ کا ایک حل تها، اس طرح  امام رضا علیہ السلام کے دورہ امامت کو دو  الگ الگ ایک ولی عہدی سے پہلے اور دوسرا ولی عہدی کے بعد کے دوروں میں  تقسیم  کرتے ہیں۔

ولی عہدی قبول کرنے سے پہلے امام کی امامت کا دور ۱۷ سال ہے جس میں دس سال  ہارون کے دورہ حکومت میں اور پانچ سال امین کے اور دو سال مامون کی دورہ حکومت کے دوران مدینہ میں گزرے، جب آپ کے والد کی شہادت واقع ہوئی اس وقت آپ مدینہ میں تهے اس کے بعد آپ نے شیعوں کے  امور کی ذمہ داری  سنبهالی،  والد کے شاگردوں کو اپنے گرد جمع کیا اور دین ناب کے معارف  کی تعلیم دینا شروع کر دی،  ان سالوں میں شیعوں نے آپ سے استفادہ کیا اور ہدایت پائی اور دینی معارف کو بهی استحکام اور مستقل مزاجی ملی ، آپ کی شخصیت مدینہ میں ایسے جلوہ افروز تهی کہ پورا حجاز  اپنے مادی اور معنوی مسائل کے حل میں آپ ہی سے مدد لیتا تها۔

اس دور میں امام علیہ السلام کی ایک اور سرگرمی  یہ تهی کہ بہت سے شہروں کا سفر کیا اور سفر کے دوران ملاقاتوں میں بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا، یہ عظیم امام علیہ السلام سفر اختیار کرنے سے پہلے کچه لوگوں کو وہاں کے لئے روانہ کردیتے تاکہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں ،  امام علیہ السلام کی اس پالیسی کی وجہ سے لوگ زیادہ سے زیادہ امام علیہ السلام کے وجود سے بہرہ مند ہوتے اور اس طرح حکومت کو اور خطرہ محسوس ہونے لگتا، امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا دور تین سال تک رہا جو مامون کے دور ہی میں گزرا۔(ویکی فقہ سے لیا گیا)

امام خمینی  کا معصومین علیہم السلام سمیت امام رضا علیہ السلام  سے خصوصی لگاؤ تها ،  آپ ہمیشہ اپنے بیانات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی شان و منزلت پر گفتگو کرتے اور جہاں تک ان کی زندگی اجازت دیتی تهی انہوں نے ان حضرات کے زیارات کے لئے خود کو پابند کر رکها تها۔

امام رضا علیہ السلام کی کے بارے میں امام خمینی کے بیانات اور امام خمینی کی ان سے عقیدت کو  یہاں ان کے واقعات اور ان کے دوستوں سے اکٹا کیا گیا ہے :

امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کو لکها: سنا ہے کہ تمهارے غلام جب تم سوار ہوتے ہو جانے کے لئے تو تمہیں چهوٹے دروازہ تک چهوڑنے آتے ہیں وہ بخل کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کسی کو  کوئی چیز  نہیں دیں ، تمہیں میرے حق کا واسطہ جو تمہاری گردن پر ہے کہ آپ کا جانا اور آنا بڑے دروازے سے ہو اور جب آپ سوار ہوں تو سونا اور چاندی اپنے ساته لیں اور کوئی آپ کے عطا کرنے سے پہلے مانگنے کی پہل نہ کرے، اور اگر تمہارے  چچا مانگیں تو ان کو پچاس دینار سے کم مت دینا اور اگر زیادہ دینا چاہتے ہو تو دے دینا ، تمہیں اختیار ہے ،  اور میں نے ارادہ کیا  اس امر کا   کہ اللہ تمہیں مقام رفیع عطا فرمائے ،  تو انفاق کرو اور ڈرو مت کہ اللہ تم پر سختی نہیں  کرے گا۔(شرح چهل حدیث، ص ۴۰۳)

مامون دهوکہ اور نفاق کے ساته امام رضا علیہ السلام کو اے میرے چچا کے بیٹے اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے کہہ کر آپ علیہ السلام پر نظر رکهتا تها، کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ قیام  نہ کرلیں اور سلطنت کو تباہ نہ کردیں،  کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد سے ہے  اور اس کے بارے میں وصیت ہوئی ہے تو ایسا ممکن نہیں کہ اس کو مدینہ میں آزاد رہنے دیا جائے، حکمران اپنی سلطنت  کو چاہتے تهے اور اس سلطنت کے لئے وہ سب چیزوں کو قربان کردیتےتهے، وہ کسی سے خاص دشمنی نہیں رکهتے تهے چنانچہ اگر امام علیہ السلام نعوذ باللہ درباری ہو جاتے تو ان کی بہت عزت و احترام کرتے اور ان کے ہاتهوں کو چومتے ۔(ولایت فقیہ ، ص ۱۵۲)

میں آپ لوگوں کا جو دور سے، مرکز ولایت اور ملکوتی مکان سے آئیں ہیں شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ بہت بڑی سعادت کے مالک ہیں کہ آپ کی آنکهیں اس عظیم ملکوتی بارگاہ پر کهولتی ہیں اور اس حرم شریف میں جو علم اور اللہ کی ملائکہ کا مرکز ہے آپ آتے جاتے ہیں جہاں آپ کی طرح جانا  ہمارے لئے ایک حسرت ہے۔(صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۱۰۶)

امام رضا علیہ السلام ان مشکلوں کے ساته اور ان روحانی آفات  کے ساته جو ان کے لئے پیدا کی جاتی تهیں، بغیر کسی اختلاف کے اور بہت آرام سے اپنے راستے پر گامزن ہوتے کیونکہ  وہ اپنی ملت کے امن کو برقرار رکهنے کے پابند تهے۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۴۲۶)

آپ معزز مہمان ہیں  آپ امام رضا علیہ السلام کے زیارت سے جو نور کا مظہر  اور  اللہ کی ملائکہ کے توجہ کا مرکز ہے تشریف لائے ہیں میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں ، اللہ آپ لوگوں کی حفاظت کرے،  میں امید رکهتا ہوں کہ آپ لوگوں کی دعا سے اللہ مجهے بهی امام رضا علیہ السلام کی قدم بوسی اور وہاں حاضر ہونے کی توفیق عطا کرے گا۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۴۲۶)

یہ معزز مہمان وہاں تشریف سے لائے ہیں جو اللہ کی ملائکہ کے توجہ کا مرکز ہے ، دراصل ایران کا مرکز امام رضا علیہ السلام کی زیارت ہے ، اور میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو امام رضا علیہ السلام کی خدمت گزاروں میں سے قرار دے، اور آپ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ وہاں رہتے ہیں، وہ لوگ جو براہ راست ان کے خدمت گزار ہیں اور وہ جو اس ملت اور اسلام اور جمہوری اسلامی کے خدمت گزار ہیں وہ تمام لوگ  اور اختیارات رکهنے  والے تمام لوگ امام رضا علیہ السلام کی خاص توجہ کے محتاج ہیں یہ تمام ہوائی فورسز اور اسلامی انجمن اور یہ سب امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے خدمت گزار ہیں اور آپ میرے بهائیوں جو براہ راست اس زیارت میں کام کرتے ہیں بہت زیادہ خوش قسمت ہیں کہ شاید آپ میں سے بہت اس کی طرف متوجہ بهی نہیں ہونگے، اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی اس زیارت کی برکت سے جمہوری اسلامی اسی طرح جیسے اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس کے بعد بهی ترقی کرتا رہے اور یہ جمہوری اسلامی اپنی اسلامیت پر باقی رہے  جب تک کہ یہ جمہوری امام زمانہ عج سے مشرف نہیں ہوتی اور اپنے مسائل ان سے حل نہیں کروا لیتی۔(صحیفہ امام، ج۱۶، ص ۳۸۸)

امام رضا علیہ السلام کو  جس فریب سے لے جایا گیا، اور ان کو جس زور سے  لے جایا گیا کس لئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے قرار نہیں تها، وہ نہیں چاہتے تهے کہ حکومت ان کے ہاتهوں میں پہونچے اور ایک موقعہ ان کو بهی ملے، تاکہ کم سے کم تعلیمات کو تو عام کریں۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۸)

میں اپنے معزز مہمانوں کو جو  اس عظیم عید کے موقع پر امام رضا علیہ السلام    کی زیارت سے تشریف لائے ہیں مبارکباد کہتا ہوں ہم آپ لوگوں کا استقبال کرتے ہیں آپ اس مرکز سے آئے ہیں جو نور کا مرکز ہے علم الہی کا مرکز ہے وہ مرکز ہے جہاں سب کو بوسہ دینا چاہئے اور ہمیں وہاں سے دوری پر افسوس کا اظہار  کرنا چاہئے۔  (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۶۳)

ای میل کریں