منظوم جذبات امام خمینی کی یاد میں

منظوم جذبات امام خمینی کی یاد میں

ساز ہستی پر ترانہ اس کا گایا جائے گا //
جشن یادوں کا خمینی کی منایا جائے گا

قصر شاہی میں ہے اس کے حسن کی اب آب وتاب  /ـ/-/  خون سے اپنے کهلائے جس نے اسلامی گلاب

چہرہ باطل کو جس نے کردیا ہے بے نقاب  /ـ/-/  مرحبا ایران میں لایا جو ایسا انقلاب

بچے بچے کو ہنر اس کا سکهایا جائے گا

جشن یادوں کا خمینی کی منایا جائے گا

شمع دین مصطفیٰ ؐ کا اس کو پروانہ کہو  /ـ/-/  سرور کونینؐ کا تم اس کو دیوانہ کہو

کوثر وتسنیم کا تم اس کو پیمانہ کہو  /ـ/-/  جام جم کیا چیز ہے تم اس کو میخانہ کہو

ساز ہستی پر ترانہ اس کا گایا جائے گا

جشن یادوں کا خمینی کی منایا جائے گا

معرفت کے میکدے میں سب کا وہ پیر مغاں  /ـ/-/  گلشن انسانیت میں وہ بہار جاوداں

آدمیت کے سفر میں وہ امیر کارواں  /ـ/-/  ہیں گزر گاہوں پہ روشن اس کے قدموں کے نشاں

ہم وہاں ہوں گے جہاں بهی اس کا سایا جائے گا

جشن یادوں کا خمینی کی منایا جائے گا

عرش پہ ہوتے ہیں چرچے جس کے ایسا آدمی  /ـ/-/  فرش پہ سنتے ہیں قصے جس کے ایسا آدمی

منتظر رہتے ہیں رستے جس کے ایسا آدمی  /ـ/-/  منزلیں وابستہ در سے جس کے ایسا آدمی

درس گاہوں میں سبق اس کا پڑهایا جائے گا

جشن یادوں کا خمینی کی منایا جائے گا

دعوت حق کو جہاں میں عام جس نے کردیا  /ـ/-/  پهر مسلمانوں کا زندہ نام جس نے کردیا

سامراجی چال کو ناکام جس نے کردیا  /ـ/-/  روسیہ رشدی کو طشت از بام جس نے کردیا

راہ حق پہ چلنے والے اس حسینی کو سلام

راج ہے جس کا دلوں پر اس خمینی کو سلام

 

متین امروہوی - ہندوستان

ای میل کریں