آٹه شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا روز سیاہ

آٹه شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا روز سیاہ

انبیائے ماسبق صرف شیعوں کے نہیں صرف مسلمانوں کے نہیں تمام بنی نوع انسانوں کے ہیں لیکن یہ درندہ صفت قوم جسے استعماری طاقتوں نے انہیں کاموں کے لیے وجود دیا ہے اسلامی اور الہی مقدسات کو ملیا میٹ کئے جا رہے ہیں! افسوس اور صد افسوس!

۸ شوال ۱۳۴۵ ه بمطابق ۱۹۲۶ء تاریخ اسلام کا روز سیاہ ہے، جب سرزمین حجاز کے غاصب حکمران عبدالعزیز بن سعود نے جنت البقیع (مدینہ منورہ) اور جنت المعلی (مکہ معظمہ) میں اجداد رسول، اولاد رسول، خانوادہ رسول، امہاة المومنین، اصحاب کرام اور بزرگان دین کے مزارات کو منہدم کرادیا! جنت البقیع اور جنت المعلیٰ صرف قبرستان نہیں بلکہ محسن اسلام کی عظیم یادگاروں کا مجموعہ تهے۔

سعودی حکومت کے بانی ابن سعود کی اس اسلام سوز حرکت جس پر مسلمانان عالم آج تک خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ہر سال ۸ شوال کو ”یوم انہدام جنت البقیع“ منا کر اس المناک سانحہ کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہ اسی احتجاج کا نتیجہ ہے کہ جس کے باعث روضہ رسول مقبول(ص) نجدیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ چلا آرہا ہے ورنہ اسے بهی سعودی حکومت بیدردی اور سفاکی کے ساته بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کرا کے زمین بوس کر دیتی۔

دراصل اس روح فرسا واقعہ میں ایک گهناﺅنی سازش ہے۔ اس بہانے سے نہ صرف اسلاف کی حرمت پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے بلکہ ان مدفون عظیم المرتبت شخصیتوں سے ناطہ توڑنے اور منہ موڑنے کی عملاً منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آج تجرباتی طور پر ابتداء میں جنت البقیع کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ پهر مکہ معظمہ کی عظیم قبلہ گاہ اور نجف و کربلا کے مقدس مقامات جو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہیں، ظلم کی آندهیوں میں اڑا دینے کی جسارت کی جاسکتی ہے۔

آج اس سانحہ کو ۷۷ سال گزر چکے ہیں ہر سال دنیا بهر کے خوش عقیدہ و بیدار ضمیر رکهنے والے مسلمان اپنی اسلام دوستی کا اعادہ کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں کی توجہ مسمار و برباد کردہ مزارات مقدسہ کی تعمیر نو کی جانب مبذول کراتے ہیں لیکن سعودی حکمرانوں نے کبهی بهی اس اجتماعی روحانی کرب کو محسوس نہیں کیا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مسلمان اس عظیم سانحہ کو فراموش کرتے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی فراموشی یا عدم توجہی اس بات کا باعث ہے کہ آج عراق و شام میں انبیاء علیہم السلام کے روزے ایسے گرائے جا رہے ہیں جیسے ریت کے ڈهیر کو زمین کے برابر کر دیا جاتا ہے اور کسی کو ٹس سے مس نہیں ہوتی!

انبیائے ماسبق صرف شیعوں کے نہیں صرف مسلمانوں کے نہیں تمام بنی نوع انسانوں کے ہیں لیکن یہ درندہ صفت قوم جسے استعماری طاقتوں نے انہیں کاموں کے لیے وجود دیا ہے اسلامی اور الہی مقدسات کو ملیا میٹ کئے جا رہے ہیں! افسوس اور صد افسوس!

اگر کل جنت البقیع کے انہدام کے خلاف ٹهوس اقدام کیا ہوتا اور ان ہادیان برحق اور اولاد رسول اعظم(ص) کی قبور مطهرہ پر دوبارہ روضہ تعمیر کروایا ہوتا تو آج یہ دیکهنے کو نہ ملتا جو عراق و شام میں ہو رہا ہے۔

۸ شوال کو ملت شیعہ کا ہر فرد سوگوار ہوتا ہے یہ دن ہمیں ہر سال سعودی حکمرانوں کے ظلم کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اس دن کو اس طرح نہیں منایا جاتا جیسے اس کے منانے کا حق ہے۔ عام مسلمانوں سے ہٹ کر خود ملت جعفریہ بهی اس عظیم سانحہ کو فراموش کرتی جارہی ہے چند افراد کے احتجاج سے ملت اپنی اجتماعی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ ہم سمجهتے ہیں کہ ۸ شوال کو ملت قومی دن قرار دے اور باضمیر برادران اہلسنت کے ساته مل کر اس عظیم سانحہ پر ایسا بهرپور احتجاج کرے کہ نجدی حکمران جنت البقیع اور جنت المعلیٰ کے مزارات دوبارہ تعمیر کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ آج مسلمانوں کی بے عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکمران انہیں جب چاہتے ہیں اسلام کا مقدس نام لے کر اسلام اور اسلامی شعائر کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔

مناسبت سے

آیت اللہ صافی گلپائیگانی نے اپنے جارى کردہ پیغام میں کہا ہے کہ بقیع چودہ صدیوں سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کی زیارتگاہ اور مرکز بیداری رہی ہے اور اس سے اسلام کی بزرگ ہستیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ قبرستان بقیع روضہ مقدسہ نبویہ کے بعد اسلام کا ایک مقدس مقام ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقریبا دس ہزار صحابہ مدفون ہیں ۔ آیت اللہ نے اپنے پیغام میں لکها ہے کہ وہابیوں نامی ایک چهوٹی سی اقلیت جو کہ برطانوی سامراج کی حمایت سے وجود میں آئی ہے دراصل دشمنوں نے تاریخ اسلام کے عینی ثبوت و شواہد مٹانے کے لئے امت مسلمہ کی گود میں ڈال دیا ہے۔

۔۔۔

شفقنا اردو سے اقتباس

ای میل کریں