مکتب امام خمینی (رہ) بڑے سے بڑے فرعون کیساته مقاومت کرنا سیکهاتا ہے

مکتب امام خمینی (رہ) بڑے سے بڑے فرعون کیساته مقاومت کرنا سیکهاتا ہے

علامہ جعفری: یہ ایک حقیقت ہے کہ مقاومت انقلاب اسلامی کے بعد سے شروع ہوئی ہے، مقاومت مکتب امام خمینی سے شروع ہوئی ہے، اسے کچلنا اتنا آسان نہیں ہے، امام خمینی نے لوگوں کو بصیرت، شعور اور حوصلہ دیا، جنہوں نے تل ابیب پر براہ راست میزیل داغے۔ آج کسی مسلمان حکمران میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسرائیل کے ساته لڑے، لیکن مقاومت کا بلاک لڑ رہا ہے۔

علامہ ناصر عباس جعفری کی اسلام ٹائمز سے گفتگو کے دوران، اندورن ملک کے چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک کو کون کون سے خطرات درپیش ہیں اور پاکستان کے عوام کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں؟

دنیا جاتنی ہے کہ سعودی عرب شام، لبنان، عراق اور دیگر ممالک میں دہشتگردوں کو پرموٹ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اگر شیعہ سنی اکٹهے ہوجائیں تو سب مسئلے حل ہوسکتے ہیں، دونوں کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، دونوں کا پاکستان کیخلاف کوئی اقدام نہیں، تکفیریت کے خلاف، اکٹها ہونا ضروری ہے۔ ماضی میں ملک میں ایک اقلیت کو سیاسی، معاشی اور ہر لحاظ سے طاقتور کیا گیا۔ پاکستان کے اندر بحران پیدا ہوگیا، لہٰذا ہم سمجهتے ہیں کہ اس بحران کا خاتمہ بهی شیعہ سنی اتحاد سے ہوگا۔ شیعہ سنی وحدت کو نچلی سطح تک لے جائیں گے، محبت، امن اور رواداری کو نچلی سطح تک پہنچائیں گے اور وہ ٹولہ جو ہمیں تنہا کرنا چاہتا تها، ہم اسے تنہاہ کر دیں گے۔
آپ نے اسلام ٹائمز کا اس سوال کے جواب میں کہ غزہ میں جاری صیہونی بربریت پر کیا کہیں گے؟کہا:
آج سے چند سال پہلے جب اسرائیل نے حزب اللہ سے جنگ لڑی تو اس میں اسرائیلوں نے تسلیم کرلیا تها کہ وہ براہ راست مسلمانوں سے نہیں لڑ سکتے۔ وہ اسرائیل جو نیل سے فرات تک کا خواب دیکه رہا تها، اس نے اپنے اردگر گرد دیواریں کهڑی کرنا شروع کر دی ہیں۔

 اسرائیلوں نے نام نہاد جہادیوں کے ذریعے سے شام، لبنان، عراق اور پاکستان کو الجهایا گیا ہے، اس سے فائدہ اسرائیل نے اٹهایا، اسرائیل کیلئے آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ ان حالات میں اسرائیل کو فرصت ملی ہے کہ وہ غزہ میں بیگناہوں کا خون بہائے۔ البتہ مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے کہ جب بهی انکے ساته جنگ لڑی گئی ہے وہ اور مضبوط ہوئے ہیں، آج اگر غزہ پر اسرائیل بمبار ی کر رہا ہے تو حماس بهی جواب میں اسرائیل پر راکٹ پهینک رہی ہے۔ اس کے آگے جهکے نہیں ہیں، اسرائیل تمام تر طاقت کے باوجود فلسطنیوں کو نہیں جهکا سکا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مقاومت انقلاب اسلامی کے بعد سے شروع ہوئی ہے، مقاومت مکتب امام خمینی سے شروع ہوئی ہے، اسے کچلنا اتنا آسان نہیں ہے، امام خمینی نے لوگوں کو بصیرت، شعور اور حوصلہ دیا، جنہوں نے تل ابیب پر براہ راست میزیل داغے۔ آج کسی مسلمان حکمران میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسرائیل کے ساته لڑے، لیکن مقاومت کا بلاک لڑ رہا ہے۔ یہ باور کرایا ہے کہ استعماری قوتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ آج حماس کو میزائل کس نے دیئے ہیں؟، اسلامی جمہوری ایران میں اتنی جرات ہے جو حماس کو راکٹ اور ہر طرح کی مدد کر رہا ہے، باقی کسی اور ملک میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کو میزائل دے یا ٹرینگ دے، یہ فقط مکتب امام خمینی میں ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے فرعون کے ساته بهی لڑا جاسکتا ہے۔ غزہ کی مقاومت کا تعلق اس گروہ سے ہے، جس نے گذشتہ پینتیس برسوں سے اسرائیل کو ہر محاذ پر شکست دی ہے۔ اس وقت غزہ میں فلسطینی مظلوم ہیں، مسلمانوں کو آپس میں الجهایا گیا ہے۔ اس وقت فلسطینیوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ انہیں تنہا نہیں چهوڑنا چاہیے۔ تکفیری ٹولہ استعماری طاقتوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ پوری دنیا کو پتہ چل جانا چاہے کہ مسلمانوں کا اصل حامی ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای ہیں۔ وہ ہمارے رہبر ہیں، جنہوں نے فلسطینیوں کو مسلح کیا، اور انہیں کهڑا کیا، انہیں اسرائیل کے سامنے کهڑے ہونے کا حوصلہ دیا اور مکمل سپورٹ کیا ہے۔ کہاں وہ گلیل اور پتهر سے لڑائی اور کہاں آج راکٹ اور میزائلوں سے لڑائی۔ آج اسرائیل کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ حماس کے پاس یہ ٹرینگ کہاں سے آگئی اور میزائل کس نے دیئے ہیں۔ ہمیں دیکه لینا چاہیے کہ اگر اللہ پر بهروسہ کرکے لڑا جائے، بهلے آپ پتهروں سے لڑیں تو اللہ آپ کی مدد کرتا ہے، ایک وقت میں پتهر ہوتے ہیں، تو بعد میں اللہ میزائل اور راکٹ دیدیتا ہے، بس ایمان کامل ہونا چاہیے۔ اللہ کی راہ میں قیام کریں فرشتے بهی مدد کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر فرعون سے لڑنے کیلئے اپنے بندوں کی مدد کی ہے۔ عالمی استکباری عمارتوں کی دیواروں میں داڑیں پڑ گئی ہیں۔
علامہ  جعفری مزید کہا کہ امام خمینی رہ نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کا اعلان اس لئے کیا تها کہ پوری دنیا کے مسلمان ملکر فلسطینیوں کی حمایت کریں۔ قدس کیلئے سب کو بهرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور تکفیریوں کو اس موقع پر رسوا کرنا چاہیے۔ اس کیلئے تمام توانائیاں صرف کرنی چاہیے۔ ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم فلسطین کو نہیں بهولے ہیں۔ اس سے ظالم کی حوصلہ شکنی ہوگی اور مظلوموں کے حوصلے بڑهیں گے۔

ای میل کریں