پیغمبر اعظم کے نام پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پرہمیں خون کے آنسو بہانا چاہئے

پیغمبر اعظم کے نام پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پرہمیں خون کے آنسو بہانا چاہئے

امام خمینی(رہ) کا انقلاب، ہمارے زمانہ کا دینی انقلاب ہےاور یہ انقلاب، عقلانیت اور تعبد کے درمیان الفت کا دوسرا نام ہے۔ جبکہ ہم آج اپنے پڑوسی ممالک میں ہوتا ہوا جو کچه دیکه رہے ہیں وہ حماقت ہے

      یادگار امام خمینی(ره)  حجۃ الاسلام والمسلمین جناب سیدحسن خمینی نے بروز جمعرات 12 خرداد ماہ کی شام، اسلامی انقلاب سے قبل قید وبند کی زندگی بسر کرنے والی بعض شخصیات کی موجودگی میں حسینیہ جماران میں منعقد ہونے والی افطار پارٹی کے موقع پرسرزمین عراق پر تکفیری ٹولیوں کے ذریعہ رونما ہونے والے حالیہ تلخ حادثات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

     موجودہ دور میں عالم اسلام ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے ؛ امام خمینی(رہ) کی قیادت میں آپ حضرات کی نصرت و یاری کے نتیجہ میں  کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب اور آج اسلام کے نام پر بعض پڑوسی ممالک میں پیش آنےو الے حالیہ حادثات کے درمیان فرق کو بنحو احسن درک کیا جا سکتا ہے ۔جو خود اسلامی انقلاب کے شکوہ وعظمت اور اس کی حقانیت پر بہترین دلیل ہے۔

    موصوف نے اضافہ کیا:اگر چہ امام خمینی(رہ) کی قیادت میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب کا پہلا پیغام شیعہ اور سنی کے درمیان  " اتحاد " تها ؛ لیکن آج  اطراف کے ممالک  اور قریبی علاقوں میں " تکفیر " قابل مشاہدہ ہے۔ امام خمینی(دہ) کا انقلاب اسلام کے نام پر ،لوگوں کے لئے اتحاد و یکجہتی کا پیغام بعنوان تحفہ لے کر آیا لیکن آج کے اس پُر آشوب دور میں اسلام کے نام پر  ہمارے پڑوسی ممالک میں جهوٹے اور بے بنیاد اصولوں پر رونما ہونے والے انقلابات " تکفیر" " قتل وغارت گری" اور " تشدد و بربریت " لے کر آئے ہیں ۔

    سید حسن خمینی نے مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

     ہماری قوم کا انقلاب کی ابتدا ،اخلاقیات کے باب سے ہوئی ۔ایک ایسا انقلاب ،جس کا رہبر ،مددگار،ذمہ دار حضرات اور فوجی دستے سب کے سب اسلام کے آئین اور اخلاقیات کے پائبند تهے۔امام کی رہبری میں کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار ہونے والا انقلاب اگر چہ قبل اس کے کہ سماج اور معاشرہ میں زندگی بسر کرنے والوں کی توجہات اپنی جانب جذب کرتا اور رونما ہوتا ؛ان کے ضمیروں میں وہ کامیاب ہو چکا تها اور انقلاب سے قبل قید وبند کی مشکلات برداشت کرنے والے افراد کا یہ نعرہ کہ " ہمیں کسی چیز کی حاجت وضرورت نہیں " انقلاب کے اصل ڈهانچہ کو تشکیل دیتا تها۔

     موصوف نے پڑوسی ممالک میں تکفیری ٹولیوں کی نازیبا حرکتوں پر ا نسان کو انہیں اپنا ہم مذہب بتانے میں واقعی شرمناک بتاتے ہوئے اظہار فرمایا:آج جو کچه عرب ممالک میں ہو رہا ہے ؛اگر چہ اسلام کے نام پر ہے لیکن چونکہ ان کے یہاں سیرت و تعلیمات علوی و فاطمی کا فقدان ہے ،اس لئے سر وتن میں جدائی کرنا ان کا عمل قرار پاتا ہے۔

     یادگار امام رہ نے اسلامی انقلاب اور اسلام کی جانب میلان ورجحان رکهنے والے افراطی گروہوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ اسلامی انقلاب کا دیگر انقلابات سے اساسی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے انقلاب کے رہبر حضرت امام رہ  کا پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت سے مطابقت  رکهنا ہے اور صراحت فرمائی کہ ہمارے انقلاب کا تکیہ گاہ  اہلبیت اطہار علیہم السلام تهے اور اس کا محور تعلیمات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین علیہ السلام تها۔

     آپ نے اسلام کے نام پرشام اور عراق میں کئے جانے والے واقعات و حادثات کو پیغمبر پر سب سے بڑا ظلم و ستم گردانتے ہوئے کہا :انتشار واختلاف اور نفرت وکدورت کے بیج بونا نیز تشدد و بربریت کا بدترین صورت میں عام کرنا کسی بهی صورت اسلام  اور پیغمبر (ص) کے دفاع میں قابل قبول نہیں ہے۔

    سید حسن خمینی نے امام خمینی رہ کے اسلامی انقلاب میں دین اور عقلانیت کے درمیان پائے جانے والے محکم رابطہ کو اس کی اہم اور بارز خصوصیت بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید فرمائی کہ اسلامی انقلاب کی بنیاد عقلانیت پر استوار تهی ۔موصوف نے دوران گفتگو اضافہ کیا کہ اسلامی انقلاب کی اصل واساس تحجر ستیزی اور تحرک ہے ۔ہمارے انقلا ب میں موجود افراد دیندار کسی بهی صورت تحجر کے قائل نہ تهے ۔ان کے بر عکس متحجر وہ تهے جو انقلاب کا ساته دینے سے چوک گئے اور پهر بعد میں وہ  دوسروں سے جا ملے ۔

    یادگار امام نے بیان کیا :امام خمینی رہ کا انقلاب ،ہمارے زمانہ کا دینی انقلاب  ہےاور یہ انقلاب ، عقلانیت اور تعبد کے درمیان الفت کا دوسرا نام ہے۔ جب  کہ ہم آج اپنے پڑوسی ممالک میں ہوتا ہوا جو کچه دیکه رہے ہیں وہ حماقت ہے۔

    امام کا انقلاب ،ایک ایسی قوم کا انقلاب ہے جسے دنیا وآخرت کی سعادت مطلوب ہے۔ایک ایسی قوم کا انقلاب جو اپنی دنیا کو اس طرح بناتی ہے کہ آنے والے کل اور  آخرت میں بہتر اقدام کر سکے۔جب کہ اس کے مقابلہ میں علاقائی ممالک میں پیش آنے والے حادثات کی حیثیت اس انقلاب جیسی ہے کہ جو دین کے نام پر دنیا و آخرت کو خراب اور برباد کرنے کے در پے ہو ۔اس قسم کے انقلابات اور حرکات نے در حقیقت خدا وند عالم ،پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام کے سنا ہی نہیں کہ "دنیا ،آخرت کی کهیتی ہے "۔

    سید حسن خمینی نے اظہار فرمایا:

   حق تو یہ ہے ہم مل بیٹهیں اور ان مسلمانوں پر خون کے آنسو بہائیں جو اس طرح کی جنایات کے مرتکب ہوتے ہیں ۔مجهے نہیں لگتا کہ آج سے زیادہ کبهی اور اسرائیل نے خوشی کے دن دیکهے ہوں گے ،کیونکہ عالم اسلام کچه اس طرح اپنے مسائل میں گرفتار ہے کہ چاہے وہ افغانستان اور شام ہو یا پهر یمن ؛ہر جگہ جنگ وجدال نظر آتا ہے۔

    یادگار امام نے اپنی گفتگو کے دوران کہا:ہمیں اپنے انقلاب کی قدر سمجهنی چاہئے کیونکہ اس کے پہلے مرحلہ میں ہم مقدس ہستیاں جیسے امیرالمومنین علیہ السلام اوردیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کو دیکهتے ہیں تو دوسرے مرحلہ میں عظیم قائد امام خمینی رہ کی صورت میں اس کے پاس موجود تها تیسرے یہ کہ اس انقلاب کا پاک وپاکیزہ مقصد عقلانیت اور تعبد کے درمیان ایک محکم رابطہ استوار کرنا تها۔

    سید حسن خمینی نے اپنی گفتگو کا اختتام کچه اس طرح کیا:

    انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ اور امام خمینی رہ کی قیادت کا ثمرہ و نتیجہ ایک ایسا عظیم ملک ہے جس پر ہمیں فخر ہے اور اس کی اچهائی اور برائی ہم خود اپنا حصہ سمجهتے ہیں ۔ہمیں امید کہ ان دنوں جہان اسلام میں رونما ہونے والے تلخ حادثات جلد از جلد خاتمہ پائیں گے اور کدا وند کریم انشاء اللہ اس غیر انسانی اور غیر منطقی عمل کا ارتکاب کرنےو الوں کو اسلامی معاشرہ سے نیست ونابود فرمائے گا۔

ای میل کریں