اسلامی انقلاب کی کامیابی سے رحلت تک

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے رحلت تک

امام خمینیؒ اسلامی نظام کے ڈهانچوں کے استحکام ، اسلامی حکومت کے اغراض و مقاصد اور ترجیحات کی تشریح اور ہرمیدان میں عوام کی موجودگی کی تشویق کیلئے روزانہ اپنی قیامگاہ کے علاوہ مدرسۂ فیضیہ قم میں ہزاروں عقیدتمندون سے ملا قات اور ان سے خطاب فرماتے تهے ، امام ؒ انقلاب کی کامیابی کے بعد یکم مارچ ۱۹۷۹ء کو تہران سے قم روانہ ہوئے تهے جہاں آپؒ ؒ۲۲ جنوری ۱۹۸۰ء کو دل کی بیماری میں مبتلا ہونے تک قیام پذیر رہے ۔ امام ؒامراض قلب کے ہسپتال ۔ تہران ۳۹ دن تک زیر علاج رہنے کے بعد عارضی طور پر علاقہ دربند کے ایک گهر میں منتقل ہوئے ، پهر   ۱۷ مئی ۱۹۸۰ء کو اپنی مرضی سے جماران کے محلے میں واقع ایک چهوٹے گهر میں قیام پذیر ہوئے جس کے مالک ایک عالم دین حجت الاسلام سید مہدی امام ؒ جمارانی تهے ۔

ایران میں امریکہ کے جاسوسی اڈے پر قبضہ

دوسرا انقلاب

انتخابات کے کامیاب انعقاد اور ان میں کثیر تعداد میں عوام کی شرکت سے اسلامی حکومت کی جلد سرنگونی کی امریکی امیدوں پر پانی پهرگیا جس کی خبریں مسلسل مغربی ذرائع ابلاغ میں دی جاتی رہتی اور اندرون ملک انقلاب دشمن قوتوں کے بیانات میں اسے اچها لاجاتا رہتا تها ، شاہ ایران سمیت امریکہ میں منجمد ۲۲ ارب ڈالر ملکیت کے ایرانی اثاثوں اور سرمائے کی واپسی پر مبنی ایرانی عوام اور حکومت کے جائز مطالبے سے امریکہ اور یورپ نے چشم پوشی اختیار کی ، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ انہوں نے شاہی دور کے مفرور افراد کیلئے ملک سے باہر اسلامی حکومت کے خلاف اپنی سرگرمیوں کو منظم شکل دینے کی خاطر ہر قسم کی سہولتیں فراہم کیں ، وہائٹ ہاؤس کی سازشوں اور بغض و عداوت نے ایرانی عوام کے جذبات کو بهڑکایاتها ، ۴ نومبر ۱۹۷۹ء امام خمینیؒ کی ترکی جلاوطنی کی سالگرہ کی آمد آمد تهی کہ الجزائر کے دارالحکومت میں وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر مسٹر برژنسکی کے ساته جناب بازرگان کی غیر متوقع ملا قات کی اطلاع ایران پہنچی ، ۱۳ آبان ( ۴ نومبر) کو کالج یونیورسٹیوں کے مسلمان عناصر کے ایک گروہ نے جس کانام ’’ امام ؒ کے نقش قدم پر چلنے والے مسلم طلبہ ‘‘ تها تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ کیا اور سفارت کی حفاظت پر مامورمسلح امریکی پہریداروں کی مزاحمت کو ناکام بناتے ہوئے امریکی جاسوسوں کو گرفتار کیا ۔ سفارتخانے سے ملنے والی دستاویزات آگے چل کر پچاس جلدوں پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع ہوئیں جس کا عنوان ’’ ایران میں امریکی جاسوسی اڈے کی دستاویزات ‘‘ یہ ناقابل تردید دستاویزات ، ایران اور دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کی سازشوں اور بے شمار مداخلتوں کو بے نقاب کرنے کے علاوہ دنیاکے مختلف مقامت پر امریکہ کے بہت سے ایجنٹوں ، رابطہ رکهنے والوں اور جاسوسوں کے نام ، نیز جاسوسی کے امریکی طور طریقوں اور امریکہ کی سیاسی حرکات کے رازوں کو فاش کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ امریکہ کے سفارتخانے پر قبضہ جو اسلامی انقلاب کے لغت نامے میں ’’ جاسوسی اڈے پر قبضہ ‘‘ کی اصطلاح سے معروف ہواہے امریکی حکومت کیلئے بہت بڑی ذلت کا باعث بنا ۔

اس واقعے کے ایک دن بعد امام خمینیؒ نے بازرگان صاحب کا استعفی منظور کیا جس کے ساته بازرگان حکومت ختم ہوگئی ، عارضی حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے اس امید پر استعفی دیا تها کہ امام خمینیؒ امریکی سفارت پر قبضے کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے قبضۃ ختم کرانے کیلئے دباؤ ڈالیں گے، لیکن امام ؒ نے فورا بازرگان کا استعفی منظور کرکے انقلابی قوتوں کو اقتدار کی منتقلی اور مصلحت اندیشوں کے ہاته کاٹنے میں ایک دقیقہ بهی فروگذاشت نہیں کیا جن کی حکومت کے قلیل دورمیں حالات پر کمزور گرفت کی وجہ سے ایران ، انقلاب دشمنوں کی شورشوں کی آماجگاہ بن چکا تها ۔ امام خمینیؒ نے طلبہ کی اس انقلابی کاروائی کی حمایت کرتے ہوئے اسے پہلے والے انقلاب سے بهی بڑا انقلاب کا نام دیا ، حقیقت بهی یہی تهی ، ۲۲ بہمن ( ۱۱ فروری) کو کامیاب ہونے والے انقلاب میں امریکہ شاہی حکومت کی پشت پر صرف آراتها ، لیکن اب کے بارخود امریکہ اور اس کے خفیہ ایجنٹوں کی سازشیں بے نقاب ہورہی تهیں ۔ جاسوسی اڈے پر قبضے کے بعد امریکیوں نے ایران کو منوانے کیلئے کئی حربے آزمائے ، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے مملکت اسلامی ایران کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کرکے ، اس کا اقتصادی اور سیاسی محاصرہ کیا ، ایرانی عوام نے امام خمینیؒ کے پیغامات کی روشنی میں محاصرے کے اس کڑے وقت کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن وہ گهٹنے  ٹیکنے پر آمادہ نہ ہوئے۔

گرفتار ہونے والے جاسوسوں کی رہائی کیلئے بنایا گیا امریکی منصوبہ صحرائے طبس میں رونما ہونے والے ایک حیران کن معجزانہ واقعے میں ناکامی سے دچار ہوا۔ ۴ اردیبہشت ۲۴ اپریل ۱۹۸۰ء کو، سی ۔۱۳۰ قسم کے چه فوجی طیارے ایران کے مشرقی صحرامیں واقع ایک سابقہ ( متروکہ ) امریکی اڈے پر اترے ، یہ واقعہ بنی صدر کے دور حکومت میں پیش آیا، پروگرام کے تحت آپریشن میں حصّہ لینے والے اور سواری کے طور پر استعمال ہونے والے آٹه ہیلی کاپٹروں کو یہاں پہنچنا تها ، ان طیاروں کو ایندهن حاصل کرنے کے بعد ہیلی کاپٹروں کے ساته تہران کی طرف پرواز کرکے اندرون ملک امریکی ایجنٹوں کی   مدد سے امام خمینیؒ کی رہائش گاہ سمیت دیگر حساس اداروں کو بم سے اڑانا تها ! ! لیکن اچانک ایک طوفان آیا جس کی وجہ سے صحراکی ریت ہوا میں اڑنے لگیں ، ایک دو ہیلی کاپٹر نیمٹس نامی بحری بیٹرے کی طرف واپس جانے پر مجبور ہوئے اور بعض ہیل کاپٹروں کو آس پاس کے صحراؤں میں ہنگامی طورپر اترنا پڑا ۔ نیچے اترے ہوئے کسی طیارے سے ٹکرانے کے بعد ایک اور ہیلی کاپٹر کے پرخچے اڑگئے ، اس حادثے میں آٹه جارح فوجی بهی ہلاک ہوئے ، اور اس وقت کے امریکی صدر جیمی کارٹرنے آپریشن کو ناکام قرار دے کر اسے ادهورا چهوڑنے کا اعلان کیا(1) ۔

۷ جولائی ۱۹۸۰ ء  کی موت واقع ہوئی،جس کے بعد ایران کی طرف سے عوام کے قتل عام میں ملوث اصل مجرم کے طور پر شاہ کو واپس کرنے کی شرط خود بخود ختم ہوگئی ، بالآخر الجزائر کی ثالثی ، مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کی منظوری اور ایران اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدۂ الجزیرہ کی رو سے امریکی جاسوس رہاہوئے اور اس کے عوض امریکہ نے وعدہ کیا کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور ایران کے منجمد اثاثو ں اور سرمائے کو واپس کریگا لیکن عملا ایسا کبهی  نہیں ہوا ؛ امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے مندرجہ ذیل اہم نتائج حاصل ہوئے : اسلا می انقلاب کے جاری رہنے کی ضمانت کا حصول امریکہ کے فرعونی غرور کی شکست اور تیسری دنیا کی اقوام کے اندر بڑی طاقتوں کے سامنے مقابلہ کرنے کی امید ۔ اس واقعے کے بعد امریکہ کی طاقت کا وہ طلسم ٹوٹ گیا جس کیلئے برسوں تک بڑے پیمانے پر مادی ، عسکری اور تشہیری سرمائے لگائے گئے تهے ، اس کے ساته تیسری دنیا کو مہار کرنے کے معاملے میں امریکہ کو مختلف مشکلات اور بحرانوں میں مبتلا ہونا پڑا ۔

۲۵ جنوری۱۹۸۰ء کو ایران کے پہلے صدارتی انتخابات ہوئے ، اس وقت امام خمینیؒ تہران کے امراض قلب کے ہسپتال میں زیر علاج تهے ۔ ان انتخابات میں سید ابولحسن بنی صدر اپنے حریفوں پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہوا ۔ وہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی دہلیز پر ملک واپس آیا اور اپنی تقریروں اورکتابوں کے ذریعے اپنے آپؒ کو ایک مذہبی ، انقلابی شخصییت اور ماہر اقتصادیات کے طورپر متعارف کرانے میں مصروف تها۔ امام ؒ نے بنی صدر کے صدارتی حکم کے نفاذ کے وقت فرمایا تها : میں بنی صدر صاحب کو ایک فقرے کی طرف متوجہ کراتاہوں ، یہ فقرہ سب کو یاد رکهنا پڑے گا وہ یہ ہے کہ ’’ حب الدنیا رائس کل خطیئۃ ‘‘ ( دنیا سے محبت تمام غلطیوں کا سرچشمہ ہے) (2) ‘‘ بنی صدر صاحب کی ذاتی فطرت اور اقتدار پرستی ، اس نصیحت پر عمل پیراہونے کی راہ میں اس کیلئے رکاوٹ بنی ، اس نے اپنے حاصل شدہ ووٹوں کے بل بوتے پر ابتدائے کارسے ہی امام ؒ کے نقش قدم پر چلنے والے گروہ کے ساته اختلافات شروع کرکے علمائے کرام سے دشمنی مول لی ، بنی صدر بهی سابقہ عارضی حکومت کی طرح بڑے ممالک کے ساته ساز باز اور سیاسی مصالحت پر یقین رکهتا تها ، اس نے مذہبی انقلابی قوتوں کو ملکی سیاست سے بے دخل اور انقلاب دشمن چهوٹے گرہوں سے وابستہ عناصر کو آگے لانا شروع کیا ۔ بنی صدر کے دور صدارت میں عراق نے بهر پور پیمانے پر حملہ کرکے ایران کی زمینوں پر قبضہ  کیا۔ صدر کے حامی عناصر کو اسلامی حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ اور بحران پیدا کرنے میں ہی اپنی بقانظر آرہی تهی ، اسی لئے وہ چیف آف سٹاف کی حیثیت سے بنی صدر کی پوزیشن کو مد نظر رکه کر ملکی دفاع اور دشمن کی جارحیّت سے مقابلہ کرنے کے مسئلے میں رکاوٹیں پیداکرنے کے علاوہ عوامی قوتوں اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو منظم اور مسلح کرنے میں مانع ہورہے تهے ، بنی صدر کی تفرقہ انگیز کاروائیوں کی وجہ سے قومی اتحاد کو خطرہ لاحق ہوچکاتها ، بالآخر   امام خمینیؒ نے ۱۰ جون ۱۹۸۱ء کے دن ایک مختصر فرمان میں بنی صدر کو چیف آف سٹاف کے عہدے سے معزول کردیا (3) جس کے بعد مجلس شورائے اسلامی نے اس کی نااہلی کے حق میں ووٹ دیا، بنی صدر کی معزولی کے ساته تنظیم مجاہدین خلق (منافقین ) کے اراکین اور حامیوں نے ۲۰ جون ۱۹۸۱ء کو خونی فسادات کرائے ، اس تنظیم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے  بعد عارضی حکومت کے سست روئیے اور بنی صدر کی حمایت سے بهر پور فائدہ اٹهاتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر کردیا تها۔

لیکن مندرجہ بالا ہنگاموں کے چند گهنٹے بعد تہران کے باشندوں نے فسادیوں کو شکست دے کر ان میں سے بعض کو گرفتار کرلیا ۔ اس وقت سے منافقین علنیہ طورپر تخریبی کاروائیوں اور دشہت گردی کے جرائم کے مرتکب ہوئے ، ان کے سرکردہ رہنما اور اراکین گروہوں کی شکل میں گهروں کے اندر رپوش ہوگئے ۔ اسلامی جمہوری پارٹی منافقین کے دہشت گردانہ حملوں کی زد میں تهی ۔ یہ پارٹی جمہوری پارٹی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حضرات آیت اللہ خامنہ ای ، شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی ، شہید ڈاکٹر باہنر ، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی کے توسط سے امام ؒ کے مشن پر یقین رکهنے والے مؤمن عناصر کو منظم کرنے اور انقلاب دشمن چهوٹے گرہوں کی شرارتوں سے مقابلہ کرنے کیلئے قائم کی گئی تهی ۔ امام خمینیؒ کی روحانی حمایت کی وجہ سے دیکهتے ہی دیکهتے اس پارٹی کو ملک گیر سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی ، اس لئے یہ انقلاب دشمنوں کے راستے کا پتهر بن گئی تهی ،۲۷ جون ۱۹۸۱ء  کو منافقین نے تہران کی مسجد ابوذر میں بم رکها جس کے پٹنے سے آیت اللہ خامنہ ای خطاب کے دوران زخمی ہوگئے ، اس کے دوسرے دن( ۲۸ جون ۸۱ء ) کو ایک عظیم سانحہ رونما ہوا ، اسلامی حکومت کے ۷۲ بہترین عہدیدار اور امام خمینیؒ کے ساتهی اسلامی جمہوری پارٹی کے دفتر میں ایک طاقتور بم کے پٹنے سے شہید ہوئے ، یہ بم منافقین خلق تنظیم کے پٹهو عناصر نے رکها تها،  شہید ہونے والوں میں ملک کے چیف جسٹس آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کے علاوہ وزراء اورمجلس شورائے اسلامی کے اراکین ، عدلیہ کے بعض فرض شناس عہدیدار مفکرین ، مصنفین اور کچه انقلابی افراد شامل تهے ۔

دو ماہ بعد۳۰ اگست ۱۹۸۱ ء  کو ایرانی عوام کی ہر دلعزیز شخصیت محمد علی رجائی جنہیں بنی صدر کی معزولی کے بعد عوام نے صدر منتخب کیا تها ، وزیر اعظم حجت الاسلام ڈاکٹر محمد جواد باہنر کے ہمراہ اپنے دفتر میں رکهے ہوئے بم کے دهماکے میں شہید ہوئے ۔ ان حادثات میں حکومت کے نظم و نسق چلانے والے افراد کی شہادت کے بعد ان کی جگہ بر وقت انتخابات کے ذریعے نئے عہدیدار وں کی تقرری کے معاملے میں امام خمینیؒ کے فوری اور حتمی فیصلے ، معاملات کو منظم انداز میں چلانے اور دشمن کی حوصلہ شکنی کے بارے میں مؤثر کردار داکر نے کے ساته ساته عالمی خبری اور سیاسی حلقوں میں تعجب اور حیرانی کا باعث بنتے تهے ۔

اگر امام خمینیؒ کا ایمان و یقین اور حیران کن استقامت اور ایران کے مؤمن عوام کا فہم و فراست نہ ہوتا تو ان میں سے ہر ایک حادثہ اسلامی حکومت کے ڈهانچے کو بنیادوں سے گرادینے کے لئے کافی تها ۔ لیکن ہر سانحے کے بعد امام ؒ کے سکون بخشنے والے پیغامات اور خطابات ہی تهے جو مصائب و آلام کی برداشت کو آسان بناتے اور عوام کو اپنا مشن جاری رکهنے کیلئے عزم و حوصلہ فراہم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے تهے ۔ عوام نے ڈاکٹر بہشتی کی شہادت پر یہ نعرہ لگایا: ’’امریکہ کس خیال میں ہے ، ایران بہشتی جیسے لوگوں سے پر ہے‘‘ یہ نعرہ امام ؒ کے فرمودات سے ماخوذ تهاجن کے ذریعے آپؒ نے قتل کی ان واردات میں ملوث اصل دشمن امریکہ کے خفیہ ہاتهوں کو بے نقاب کیا تها ، یاد رہے کہ امام خمینیؒ نے اپنے انقلاب کے آغاز سے ہی عوام کو بار بار سمجها یا تها کہ اسلامی انقلاب ، اشخاص پر منحصر نہیں ہے چاہے وہ جتنے بهی بلند مرتبہ اور مؤثر کیوں نہ ہوں ، انقلاب کی حفاظت کرنے والا خدا اور خدا پرست عوام کا ایمان ہے ۔

عوام کے اندر اجتماعی شعور و آگہی اور سیاسی معاملات کے سلسلے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا اور ان معاملات کے تجزئیے کی صلاحیت کو اجاگر کرنا امام خمینیؒ کی ایک اہم کامیابی تهی ، مغربی ذرائع ابلاغ کئی سال سے اپنے تجزئیوں میں امام ؒ کی رحلت کے بعد اسلامی حکومت کے شیرازوں کے بکهر جانے کو یقینی قراردے رہے تهے ۔ مغربی مفکرین سیمیناروں میں اور مغربی حکام اپنے مذاکرات میں سنجیدگی سے اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے رہے ، اسی بنا پر اندرون ملک انقلاب دشمن قوتوں نے اپنے آپؒ کو اس وقت کیلئے آمادہ کررکها تها، لیکن دنیا نے دیکها جب امام ؒ کی روح ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرگئی تو دشمن کے وعدے وعید پورے ہوتے ہوئے نظر نہ آئے اور ان کی برسوں کی توقعات نقش بر آب ثابت ہوگئیں ،  اس کی وجہ  وہی حقیقت ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ( یعنی امام ؒ کی رہنمائیاں اور عوام کا شعور ) امام خمینیؒ نے اس جامد اور غیر متحرک نسل کی از سرنو تعمیر ذات اور تربیت کا فریضہ انجام دیا جو پہلوی حکومت کی پچاس سالہ من مانیوں اور غداریوں کی وجہ سے مایوس اور بے حس ہو چکی تهی ، اسی تربیت کا اثر تهاکہ یہ نسل تهوڑے ہی عرصے میں اپنی سابقہ عادتوں ، معاشرتی روابط اور زندگی کے تمام پہلوؤ ں میں رچ بس جانے والے دیرپا ، پائدار اور اقدار کے منافی خیالات چهوڑ کر اپنے آپؒ کو نئی امنگوں کے مطابق ڈهالنے میں کامیاب ہوگئی ، اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت وہ لاکهوں نوجوان ہیں جو آٹه  سالہ جنگ کے محاذوں پر عراق کی جارح افواج کے سامنے رضا کارانہ طورپر اور روحانیت و آگاہی کی منزل کی عروج پر فائز ہوکر جان کی بازی لگاتے رہے ، انکے فہم و ادراک کی سطح اور ایمانی و روحانی درجات کا اندازہ شہیدوں کے شائع شدہ وصیت ناموں میں نظر آتاہے ، یہ وہی لوگ تهے جو انقلاب کی کامیابی سے چند سال پہلے تک ہر قسم کی برائیوں میں ملوث ، غلط پروپیگنڈوں کے زیر اثر اور نشہ آور سرگرمیوں میں مصروف تهے ۔

جنہوں نے امام خمینیؒ کے دورمیں موجود معاشرے کو نہیں دیکهاہے ، شاید وہ ان باتوں کو حقائق سے دور ، مبالغہ آمیز اور امام ؒ و انقلاب سے بے انتہا محبت اور لگاؤ کا نتیجہ سمجهیں گے ، لیکن اب بهی ایسے زندہ شواہد اور مدلل اسناد اور دستاویزات دستیاب ہیں ، جن کے ہوتے ہوئے ، اس حقیقت کو ثابت کرنے کیلئے بحث و مباحثے کی ضرورت نہیں ہے ، آج بهی ایران کے مذہبی معاشرے کی لغت میں ان لوگوں کو پرسہ دینے کی بجائے مبارک باد دی جاتی ہے جنہوں نے امام خمینیؒ کے مشن کے لئے  اپنے لخت جگر کا نذرانہ پیش کیا ہے ، اس کے علاوہ ایران میں ایسے والدین بهی ہیں جنہوں نے اس راہ میں اپنے کئی جگر گوشوں کو قربان کیاہے اور جب آپؒ ان لوگوں کے احساسات دریافت کریں گے تو وہ اسے اپنے خاندان کیلئے فخر و مباہات اور خدا کی طرف سے دی ہوئی نعمت قرار دیتے ہیں ۔ شاید مغرب والے اس بات کو نہ مانیں کہ امام ؒ اورانقلاب کے شیفتہ و دلدادہ والدین اور دیگر رشتے دار، اپنے عزیزوں کے خفیہ ٹهکانوں کے بارے میں خود پولیس والوں کو اطلاع دیتے تهے جو انقلاب دشمن ایجنٹ تهے ، اس بهاری ذمہ داری کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے ایرانی خاندانوں کے افراد میں پائے جانے والے گہرے جذباتی تعلقات کو مدنظر رکهنا ضروری ہے جن کا موازنہ کسی صورت میں مغربی خاندانوں کی سرد مہری پر استوار بے جان تعلقات سے نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اب بهی ان ہزاروں مجاہدین سے جن کے ذہنوں میں محاذ جنگ کی یادیں تر وتازہ ہیں پوچه لیاجائے کہ محاذ پر موجودگی کے دوران ان کیلئے سب سے مشکل ترین وقت کونسا تها ؟ تو وہ کہہ اٹهیں گے کہ وہ گهڑی ان کیلئے ناقابل برداشت تهی جس میں جنگ بندی پر مبنی ( اقوام متحدہ کی ) قرار داد نمبر ۵۹۸ کی منظوری کی خبر نشر کی گئی ، اس دن عوامی رضا کاروں کے ناقابل کنٹرول جذبات اور گہرے غم و غصے کا بیان ، قریب سے مشاہدہ کئے بغیر زبان سے ناممکن ہے ، کیونکہ ان کو یہ افسوس لاحق ہو رہاتها کہ جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری سے ان کیلئے گلزار شہادت میں داخل ہونے کا دروازہ بند ہوچکا اور ان کی قافلہ ٔ شہداسے ملنے کی امیدیں اکارت ہوگئی تهیں ۔

معاشرتی سطح پر اس قسم کی تبدیلی کا رونما ہونا اور ایک عظیم قوم میںاسلام پسندی کی لہروں کو متحرک کرانا آسان اور معمولی کام  نہیں تها ، لبنان میں حزب اللہ کی رزمیہ سرگرمیاں اسی دگر گونی کا کرشمہ ہیں جو مغربی پروپیگنڈوں کے برعکس ایران کی مداخلت یا حمایت کی وجہ سے اس طرح کی استقامت اور مزاحمت کا ا ظہار نہیں کرہی ہے ، امریکہ اور سابقہ سوویت یونین طویل عرصے سے ، وسیع پیمانوں پر اور براہ راست وہاں موجود تهے ، بیروت کی امریکن یونیورسٹی برسوں سے لبنان میںسرگرم عمل ہے ، امریکہ اور یورپ نے لبنان کے حوادث میں اپنی مسلح افواج بهیجی تهیں ، ایک عرصہ پہلے تک ، لبنان شرق اوسط میں مغربی سیاست کی بڑی دکان کہلا تا تها ، بهلا وہ کونسا عامل ہوسکتا ہے جس کی بناپر ایک چهوٹے سے ملک میں جوہر سے محصور اور اسرائیل کے ساته متصل ہے ، لوگوں کی ایک ایسی جماعت جو اپنے دشمنوں کے سامنے چهوٹی ہے ۔ معمولی دفاعی صلاحیتوں کے ساته اس طرح ڈٹ گئی کہ مغربی ممالک کی افواج کو برملاطورپرلبنان چهوڑکرجاناپڑا،کئی سالوںسے شدیدترین اقتصادی پابندیوں اور اسرائیل کی آئے دن بمباریوں اور جارحانہ کاروائیوں کے باوجود ، مغربی طاقتیں حز ب اللہ کے وجود کو اپنے لئے بوجه محسوس کرہی ہیں ، جبکہ حز ب اللہ میدان میں ڈٹی ہوئی ہے ، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لبنانی مسلمانوں نے دیرینہ ثقافتی اور عقیدتی تعلقات کی بناپر دوسرے اسلامی ممالک سے پہلے امام خمینیؒ کی شخصیت اور پیغام کو سمجها ، اسی طرح فلسطین میں حماس تحریک کی تشکیل اور دیگر اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکوں کی نشأۃ ثانیہ میں اسی فکر اور پیغام کی براہ راست یا بلا واسطہ تاثیر نظر آتی ہے ۔

یہ صرف امام خمینیؒ کی سیاسی فکر اور جدوجہد کی نوعیت ہی نہیں تهی جس سے ایسی دگرگونی پیداہوئی بلکہ امام خمینیؒ کی انسان اورمعاشرے کو سمجهنے کی صلاحیت اور آپؒ کا دبستان تربیت ہے جس نے ان سیاسی تغیرات کیلئے فضا سازگار بنائی ہے ، افسوس اس بات کا ہے کہ ، انسان، معاشرہ ، تاریخ ، اور تربیتی مسائل سے متعلق امام ؒ کے نظریات کے مختلف پہلوؤ ں کو ابهی تک نظم و ترتیب نہیں دی جاسکی اور یہ اسی طرح ناشناس حالت میں بکهر ے پڑے ہیں ۔ تربیت اور معاشرہ کی شناخت سے متعلق امام ؒ کے مکتب فکر کا ان نظریات سے کوئی ربط نہیں ہے جن کی تدریس اسی عنوان سے تیسری دنیا اور اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں میں کی جاتی ہے ۔

امام خمینیؒ کی تحریک کی بنیاد انبیاء ؑ کی سیرت وکردار پو مبنی ہے ، یعنی وہی سیرت جس پر عمل پیراہو کر گمنام اورمظلوم غلاموں کے درمیان میں ابوذرؒ اور سلمانؒ جیسی ہستیاں منظر ظہور پر آجاتی اور آج کے جاہلی معاشرے سے اسلامی تہذیب و ثقافت کے ہر اول دستے کو تیار کیا جاسکتا ہے ، یہ طرز وروش دور حاضر میں بهلا یا جاچکا ہے اور جس علم کوآج کل ہم عمر انیات کے نام سے جانتے ہیں اس کی روسے انسان اور انسانی تعلقات کی تعریف غیر آسمانی ، لیبر لزم اور ہیومنزم، کے مغربی افکار و نظریات کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو خود یورپ کے دور نشأۃ ثانیہ کی پیداوار ہونے کے علاوہ خودی کو فراموش کرنے ، مادیت نیز انسان پر مشین کے غلبے کے اصول کو اپنانے کا نتیجہ ہے ۔ میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں جو انقلاب کی کامیابی کے بعد کے مشکل ترین سالوں میں انقلاب کی قیادت ہے ۔

۲۸ جون ۱۹۸۱ء  کو امام ؒ کے بیسیوں ساتهیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں کی شہادت کے بعد منافقین کے چهوٹے گروپ کے سرکردہ رہنما (مسعود رجوی) معزول صدر بنی صدر کے ہمراہ زنانہ کپڑے پہن کر تہران ائرپورٹ پر موجود سازشی عناصر کی مدد سے پیرس کی طرف بهاگ نکلنے میں کامیاب ہوا ان کے طیارے کا پائلٹ شاہ کا وہ مخصوص اور قابل اعتماد پائلٹ تها(4) جو ملک سے آخری بار فرار کے وقت شاہ ایران کا طیارہ چلا کر لے گیا تها ، انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت کے دعوؤں کے باوجود فرانس کی حکومت نے ان لوگوں کو پناہ دی جنہوں نے علنیہ طورپر دہشت گردی کی کاروائیوں اور پبلک مقامات پر بم دهماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی تهی ، دیگر یورپی ممالک اورامریکہ میں بهاگے ہوئے منافقین کو مغربی حکومتون کی حمایت حاصل ہو گئی اور ایران ،عراق جنگ کے دوران انہوں نے صدام سے گٹه جوڑ کر کے اپنا ہیڈ کوارٹر عراق منتقل کرتے ہوئے جنگ کے پورے عرصے میں پٹهو اور جاسوسوں کے طورپر اپنی خدمات بعثی افوج کے لئے پیش کیں ۔ ان کا بنیادی کام، ملک کے اندر اپنے کارندوں کے ذریعے محاذوں کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنا، ایرانی شہروں کے رہائشی علاقوںں پر میزائیل گرانے کیلئے ضروری معلومات فراہم کرنا ، ایرانی قیدیوں سے پوچه گچه اور ایران کے خلاف عراق کی فوجی کاروائیوں میں حصّہ لیناتها ، ایران اور عراق کے درمیان جنگ بندی کے    بعد۱۹۸۸ ء  میں منافقین کی ایران میں گهسنے کی کوششیں مرصاد آپریشنز کے ذریعے شدت سے ناکام بنادی گئیں، اس واقعے میں حملہ آور پٹهو عناصر ایک ہزار سے زیادہ لاشیں چهوڑنے کے بعد بهاگ کر واپس عراق چلے گئے ۔ دنیا میں امریکہ سے وابستہ اداروں کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جو باتیں ہوتی ہیں عام طورپر اسی چهوٹے گروپ کے دعؤں پر مبنی ہوتی ہیں ، وہ مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بے بنیاد باتیں گڑه لیتے ہیں ۔

منافقین ایرانی عوام کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت مجرم ہیں ، معاصر ایرانی تاریخ کے مشہور ترین مجرموں میں کوئی ایسا شخص نہیںہے جس کا جرم منافقین کے جرائم کی حد تک پہنچ سکے ۔ منافقین کے ہاتهون اسلامی جمہوری پارٹی کے دفتر میں بم دهماکے سے اسلامی نظام کے ۷۲ ہر دلعزیز عہدیداروں نے جام شہادت نوش کیا ، اس کے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور وزیر اعظم بهی ردجہ شہادت پر فائز ہوئے ، منافقین کی دہشت گردانہ کا روائیوں میں مندرجہ ذیل ممتاز شخصیات بهی ذیل کی تاریخوں میں ایرانی عوام سے چهین لی گئیں ۔

یز د کے امام ؒ جمعہ آیت اللہ صدوقی (۲/ ۷ /۱۹۸۲ء)، کرمانشاہ کے امام ؒ جمعہ آیۃ اللہ اشرفی اصفہانی (۵ / ۱۰ / ۸۲ ۱۹ ء ) شیراز کے امام ؒ جمعہ آیۃ اللہ دستغیب (۱۱ / ۱۲ / ۱۹۸۱ء)، تبریز کے امام ؒ جمعہ آیۃ اللہ مدنی (۱۱ / ۹ / ۱۹۸۱) : یہ چار بلند پایہ شہدا ،شہدائے محراب کہلاتے ہیں ، آ یت اللہ قدوسی اور بریگیڈئیر دستجردی (۵ / ۹ / ۱۹۸۱ ء ) حجت الاسلام ہاشمی نژاد (۲۹ / ۹ / ۸۱ء) ان کے علاوہ بیسیوں دیگر علماء کرام منافقین کی مجرمانہ کاروائیوں کا شکار ہوئے جن میں سے ہر ایک ایران کے وسیع علاقے میں عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتا اور امام خمینیؒ کی تحریک میں اہم کردار اداکرنے والا تها ۔ سیاسی اور مذہبی رہنماؤ ں اور اسلامی حکومت کے عہدیداروں کے علاوہ گلی کوچوںاور بازاروں میں بہت سے لوگ اپنے انقلاب کے تحفظ کے جرم میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اور پبلک مقامات پر منافقین کی طرف سے رکهے گئے بموں کے پٹهنے کی وجہ سے شہید ہوئے (5) جس کی تازہ ترین مثالیں دو عیسائی پادریوں کا سفاکانہ قتل اور رواں سال۱۹۹۴ء کے یوم عاشورا کو مشہد میں حضرت امام رضا ؑ کی ضریح اطہر کے قریب ہونے والا بم دهماکہ ہے ( جس میں بہت سے زائرین شہید یا زخمی ہوئے تهے)

قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام سانحوں پر امریکہ ، یورپی ممالک اور بین الاقوامی ادارے نہ صرف خاموش رہے بلکہ انہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے علاوہ اپنے ہاں ان کیلئے قیام کی سہولتیں فراہم کیں ، اس سے قبل شاہ ایران کے ہاتهوں قتل و غارت کی کاروائیوں کی حمایت میں بهی ان کا یہی موقف تهاجو ان کے دعوؤں کے بالکل بر عکس ہے ، اسی لئے انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور بعد میں امام ؒ نے اپنے مواقف کا تجزیہ و تحلیل کبهی غیر ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی آرا اور مواقف کی بنیادوں پر نہیں کیا ۔ آپؒ کو یقین تها کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی حمایت کی ایجنسی کی حیثیت عالمی توسیع طاقتوں کے آلہ ہائے کار سے زیادہ کچه بهی نہیں ہے ، چنانچہ کمیو نسٹوں اور سابقہ سوویت یونین کے حریت پسندی اورسامراج مخالفت کے دعوے بهی اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں ، امام ؒ اس مطلب کی تاکید اپنی تقریر وں میں کرتے رہتے اور انہی حقائق کو مدنظر رکه کر اسلامی حکومت کے عہدیداروں کے سامنے ایک خوبصورت معیار پیش کرتے ہوئے فرماتے تهے کہ جس دن یہ عالمی ادارے ، امریکہ اور مشرقی ومغربی دنیاآپ کی تعریف کرنے لگیں گے اور اپنی مرضی سے آپؒ کے وجود اور انقلاب کو قبول کرلیں گے اس دن آپؒ کوا پنے مشن کی حقانیت پرشک کرنا پڑے گا ۔ 

مسلط کردہ جنگ

امام خمینیؒ اور ایرانی قوم کا آٹه سالہ دفاع مقدس

اسلامی جمہوری حکوت کو سرنگون کرنے کیلئے اقتصادی اور سیاسی محاصرے کے ذریعے ، عالمی سطح پر بنائے جانے والے امریکی منصوبے ناکام ہوئے ، امریکہ کے جاسوسی اڈے پر قبضے کے بعد صحرائے طبس کے آپریشن میں امریکہ کو شکست ہوئی اور کردستان کے تجزئے کیلئے کی جانے والی سازشیں بهی نقش بر آب ثابت ہوگئیں تو۱۹۸۰ ء  میں امریکی حکومت براہ راست فوجی کاروائیوں کو آخری راہ حل سمجهنے لگی تهی ،اس وقت دنیا کے حالات مشرقی اور مغربی بلاکوں کے درمیان طاقت کے توازن پر منحصر تهے ، جس کی وجہ سے امریکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یک طرفہ کاروائی نہیں کرسکتا تها ، دوسری جانب عالمی رائے عامہ میں ایرانی عوام کے ساته یک سوئی پائی جاتی تهی جو فرانس میں امام ؒ کی سرگرمیوں اور انقلاب کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے دوران ایران کے مسائل اور ایرانی قوم کی مظلومیت  اور حقانیت سے آگاہو چکی تهی ، لہذا امریکہ کیلئے براہ راست فوجی کاروائی کا جواز فراہم کرنے کے لئے حالات سازگار نہیں تهے ، اسکے علاوہ سیاسی حالات اور خلیج فارس کے اردگرد واقع حکومتوں کی غیر مستحکم پوزیشن اس طرح کی کاروائیوں کیلئے موزوں نہیں تهیں ، جنگ کے شعلوں کو بهرکانے کیلئے عراق کا انتخاب ایک سوچا سمجها منصوبہ تها ، کیونکہ یہ ملک سوویت یونین اور مشرقی بلاک کا حلیف سمجها جاتاتها ،ا س لئے عراق کا ایران کے ساته جنگ میں ملوث ہونا فطری طور پر امریکہ اور یورپ کے مقابلے میںسوویت یونین اور میونسٹون کو صدام کی حمایت پر مجبور کرنے اور مغرب کے ساته ان کی ممکنہ کشیدگی کی نفی کا سبب بنتا تها ۔

عراق فوجی طاقت اور اسلحے کے اعتبار سے علاقے کا دوسرا بڑا ملک ہونے کے ساته ایک تیل پیدا کرنے والا ملک بهی ہے لہذا ضرورت پڑ نے پر اپنی قومی دولت کے بل بوتے پر اور رجعت پسند عرب ممالک کی مددسے طویل عرصے تک ایران کے خلاف جنگ جاری رکه سکتا تها  اگر صدام اور امریکہ نے ابتدائی طورپر طویل جنگ کا ندازہ نہیں لگایا تها بلکہ یہ طے پایا گیا تها کہ عراقی حملے کے آغاز کے بعد کچه ہی دنوں کے اندر ایران اور اسلامی انقلاب کاکام تمام ہوجائے گا ۔

صدام کی توسیع پسندی کی صفت کے علاوہ ایران اور عراق کے درمیان پائے جانے والے دیرینہ سرحدی اختلافات امریکہ کیلئے ایسے حالات پیدا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہورہے تهے جن کی وجہ سے وہ صدام کو ایران کے خلاف جارحیّت کاا رتکاب کرنے کیلئے فوجی کاروائی پر اکسا سکے ؛ جنگ کے دوران دنیا م، ایران کے اس دعوے کے ثبوت میں پیش کی جانے والی دلائل اور دستاویزات کو ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں تهی کہ جنگ کی آگ بهڑ کانے والے در حقیقت امریکہ ، یورپی ممالک اور سوویت یونین ہیں ، بعد میں تیل کی جنگ میں جب امریکہ کا صدام سے آمنا سامنا ہوا تو اس وقت شائع ہونے والے انکشافات اور دستاویزات نے چهپے ہوئے حقائق سے پردہ اٹهایا ۔ بہر حال ۳۱شہریور ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ء کو عراقی فوج نے شمالی سرحدی مقام سے لے کر جنوب میں واقع بند گاہ خرمشہر اور آبادان تک ۱۲۸۰ کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد پر بهرپور فوجی یلغار کا آغاز کیا، اس کے ساته ساته اسی دن دوبجے دوپہر عراقی طیاروں نے تہران ائر پورٹ سمیت دیگر مقامات پر بمباری کی ، صدام کی فوجی ،مشینری ایرانی سرحدوں کے اندر کئی کلومیٹر کے فاصلے طے کرتے ہوئے آگے بڑهی اور ایران کے پانچ صوبوں کے وسیع حصّے پر قبضہ کیا گیا ، عراقی افواج کو فرانسیسی حکومت ، امریکہ اور برطانیہ کے اسلحہ ساز اداروں نے روسی فوجی ہتهیاروں سے لیس کرکے مدتوں پہلے جارحیّت کیلئے آمادہ کرایا تها ، جنگ کے ابتدائی مراحل میں سرحد ی علاقوں کے رہنے والوں نے جانکی بازی لگاکر مزاحمت کی لیکن پہلے سے مطلع اور آمادہ نہ ہونے کے علاوہ فوجی اسلحہ اور طاقت کی عدم موجودگی کی وجہ سے انہیں بعثیوں نے سفاکانہ انداز میں کچل دیا ۔ دیکهتے ہی دیکهتے مقبوضہ علاقوں میں واقع شہر اور دیہات ملیامیٹ ہو کر مٹی کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگئے اور لاکهوں افراد بے گهر ہو کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔

ایرانی فوج جو انقلابی حوادث کی وجہ سے شدید نقصانات سے دچار ہو کر متلاشی ہوچکی تهی تعمیر نوکے ابتدائی مراحل سے گذررہی تهی ہزاروں غیرملکی فوجی ماہرین جن میں سے اکثر امریکی تهے انقلاب کے دوران ایران چهوڑکر جاچکے تهے ، انہوں نے ایرانی فوج کو شدت کے ساته اپنا محتاج بنایا تها ۔ ایرانی قوم کے سرمائے سے خریدے گئے بہت پیچیدہ قسم کے اسلحے ، جدید فوجی طیارے اور جدیدترین مزائیل شاہی دور کے آخری ایام میں جنرل ہوئزر کی دوماہہ مساعی سے امریکہ منتقل کئے گئے تهے (6) امام خمینیؒ کے حکم پر قائم ہونے والی نو بنیاد سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ( اسلامی انقلاب کے محافظین کی گارڈ) ابتدائی مرحلے میں اور جنگ کے ابتدائی دنوں میں نفری ، اسلحہ اور تجربے کی کمی سے دچار تهی ،صدام حسین ان حقائق اور کمزوریوں سے واقف تها ، کیونکہ اس کیلئے  امریکہ ، فرانس اور اندرون ملک موجود ففته کالم کے ایجنٹ معلومات فراہم کرتے تهے ۔ اسی وجہ سے عظیم تر عراق کے نقشے بهی تیار کئے گئے تهے جن میں خوزستان صوبے کو مکمل طور پر اور ایران کے مغربی صوبوں کے کچه حصوں کو بهی عراق کی سرحدوں میں شامل دکهایا گیا تها ۔ صدام کو یقین تها کی ایران کی اسلامی حکومت عراقی حملے کے سامنے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت جلد سرنگوں ہوجائے گی اور عالمی سامراج بهی اس کی پشت پناہی کرے گا ۔

ایران پر عراقی حملہ شروع ہونے کے اعلان اور حملے کی اہمیت کے باوجود بین الاقوامی اداروں اور دنیا کی اہم طاقتوں پر مکمل خاموشی طاری ہوگئی ، ان طاقتوں کی پر اسرار خاموشی ، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ان کی گہری دشمنی ، اندرون ملک کے ( بد امنی پر مبنی ) حقائق اور بعثیوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر فوجی طاقت کا استعمال ، فیصلہ کرنے کی راہ میں سخت قسم کی دشواریاں پیدا کررہاتها ۔ ایران ایک انجام شدہ کاروائی سے روبرو ہواتها ،اور وہ ایک ایسے دو راہے پر کهڑا تها جہاں سے اسے ان دو راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑرہا تها ، ایک ایسی غری منصفانہ جنگ جو ظاہراً تاریک پس منظر اور مبہم پہلوؤں کی حامل تهی یا تو امریکہ کی خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم کر کے صدام کو پسپا ہونے پر مجبور کرنے کیلئے امریکہ کی آغوش میں پناہ لینا ، جس کا انجام انقلاب اور اسلام سے دستبرداری تها ۔

تا ہم یہ حالات اپنے تئیں نہایت مشکل ہونے کے باوجود اس حقیقت کے سامنے حقیر تهے جو امام خمینیؒ کو اپنے فریضے کی شناخت کی راہ میں تشویش اور شک و تردید میں مبتلا کر سکیں ، امام ؒ کو اس آیت پر قطعی ایمان تها : ’’ کم من فئۃ قلیۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ و اللہ مع الصابرین ‘‘ (7) ‘‘ امام خمینیؒ قومی قیادت کی ذمہ داری سنبهالنے سے برسوں پہلے ’’ فناء فی اللّٰہ ‘‘ کی روحانی منزلوں کو طے کرچکے تهے اور نظریاتی طورپر کتاب اسفار اربعہ کو جو انسان کامل کی ہجرت کے مترادف ہے کئی بار پڑها کر عملی طورپر ان راہوں پر بنحو احسن چل پڑے تهے ۔ امام خمینیؒ نے اپنے فقہی رسالہ عملیہ میں جہاد اور دفاع کے احکام کو ناقابل انحراف الٰہی فرائض کے عنوان سے بیان فرمایا ہے ، امام ؒ کی سابقہ زندگی اور آپؒ کی شخصیت کے تکاملی سفر سے واقف ہر شخص اندازہ لگا سکتاہے کہ آپؒ اس دور راہے پرپہنچنے کے بعد کس تناظر سے کونسا راستہ اختیار کرتے ۔

عراقی افوج کی جارحیّت کے خلاف امام ؒ کے ابتدائی ردعمل اور تقریریں امام ؒ کی شخصیت کی پہچان اور آپؒ کی قیادت کے لحاظ سے بہت دلچسپ ہیں جن کی باریکیاں اور خصو صیات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ امام ؒ نے فورا جارحیّت کے خلاف مزا حمت کا حکم دیا تها آپ نے اپنے ابتدائی خطاب میں تجزیہ کرکے فرمایا تها کہ جنگ کی آگ بهڑ کانے کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے اور اسی نے ہی صدام کو اکسایا ہے ۔ آپؒ نے کهل کر عوام کو یقین دلایا کہ اگر دشمن کی جارحیّت کے مقابلے کو شرعی فریضہ سمجه کر خداکی راہ میں اٹه کهڑے ہوجائیں تو دشمن کی شکست یقینی ہے ، اگر چہ ظاہری اسباب وعلل اسکے بر عکس کیوں نہ ہوں (8) عراقی جارحیّت کے دوسرے دن امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کے نام ایک پیغام میں جنگ کے معاملات کو نبٹانے اور حالت جنگ میں ملک کے نظم و نسق چلانے کے بنیادی اصول سات مختصر لیکن بہت زیادہ جامع و مانع نکات میں بیان کئے (9) اس کے بعد متعدد پیغامات کے ذریعے عراقی قوم اور فوج کے لئے اتمام حجت کرکے (10) بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے آٹه سالہ دفاع کے مشکل معاملے کی نگرانی اور قیادت شروع کی ۔

عراقی حملے کے اوائل میں بیسیوں ہزار عوامی رضاکار دستے   امام خمینی ؒ کی اپیلوں کے جواب میں مسلح افواج کی مدد کیلئے جنگ کے محاذوں کی طرف روانہ ہوئے ، اس طرح مجاہدین اسلام کی قربانیوں سے دشمن کی پیش قدمی رک گئی ۔ یہ جنگ نہایت غیر منصفانہ اور نا قابل یقین تهی ؛ لیکن ہمیشہ کی طرح امام خمینیؒ نے خدا پرست عوام پر بهروسہ کرتے ہوئے پے درپے تقریروں اور پیغامات کے ذریعے عوام کو ایک مشکل اور طویل جنگ کیلئے آمادہ کیا ، قرآنی آیات کی روسے امام ؒ کا عقیدہ تها کہ جارحیّت کے خاتمہ اور جارح کی تنبیہ کیلئے دفاع واجب ہے ، جنگ کے آغاز کے چند دن بعد ایران میں مقیم اسلامی ممالک کے سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایاـ:ـ ’’ ہم اسلام کا دفاع کر رہے ہیں اور اسلام کا دفاع کرنے والا اپنی جان ،مال اور عزیزوں کی قربانی دیتا اور کبهی چین سے نہیں بیٹهتا ہے (11) ‘‘ اس ملاقات میں امام ؒ نے مسلم ممالک کے سفیروں سے اپیل کی ،اس کے علاوہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کے نام خطوط اور پیغامات میں امام ؒ نے فرمایا: بالفرض محال اگر صدام بے دین کو مسلمان سمجهیں   تب بهی آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مسلم اقوام اور اسلامی ممالک کو چاہیئے کہ وہ اللہ کے حکم کو تسلیم کرنے  اور جارحیّت کے خاتمے تک باغی ملک سے مقابلہ کریں ( 12) ۔

جنگ کیوں جاری رہی ؟

صدام نے اپنے فوجیوں سے وعدہ کیا تها کہ وہ مقررہ علاقوں کو تین دن کے اندر فتح کرکے جنگ بند کردے گا ! عراقی فوج نے اپنے آپؒ کو ایک تهکا دینے ولی طویل جنگ کیلئے تیار کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تهی ، لیکن یہ اپنے مقررہ اہداف کو حاصل کرنے سے پہلے ہی ایرانی عوام کے دفاعی عمل کے سامنے گٹهنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ۔ بعثی افواج نے متعدد بار دفاعی لائنوں کو توڑ نے کی کوششیں کیں لیکن جب ہر مرتبہ بهاری نقصان اٹهاکر شکست سے دچار ہوئیں تو امریکہ کے سامنے آہستہ آہستہ غیر متوقع اور تلخ حقائق نمودار ہونا شروع ہوگئے ۔ وہائٹ ہاؤس کی سرکردگی میں بین الاقوامی اداروں اور عرب ممالک کی طرف سے ایران پر سیاسی دباؤ بڑهانے کا سلسلہ شروع ہوا ، وہ لوگ اس کهلی جارحیّت کی مذمت کرنے کی بجائے اسلامی جمہوریہ ایران پر اپنی مجوزہ صلح قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے رہے ۔ ان حالات میں جنگ بندی کا مطلب اس کے سوا کچه نہیں تها کہ صدام کو ( جارحیّت کے ارتکاب پر) انعام سے نوازا جائے ! ! نیز صدام اور انقلاب دشمن طاقتوں کی ان خواہشات کو فوجی یلغار کے ذریعے پوری کی جاسکیں جن کی تکمیل میں وہ اب ناکام رہے تهے ، ایران نے جنگ کاآغاز نہیں کیا تها کہ اب وہی اسے بند کردے ، بلکہ سخت اور دشوار حالات میں دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کیلئے دفاعی جنگ لڑرہا تها اور اس کا دشمن بسیوں شہروں اور سینکڑوں دیہاتوں سمیت ملک کے مغرب اور جنوب میں واقع تیل کے ذخائر سے مالامال وسیع علاقوں اور ایران کے ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے پر قابض تها ، جنگ ایران عراق سرحد کی دونوں طرف جاری نہیں تهی کہ یلغار کی زدمیں آنے والی فریق سے جنگ بندی قبول کرنے کی اپیل کی جائے ، بالفرض صدام اپنے اصل مقاصد حاصل کرنے کی خاطر فوج کو تازہ دم کرکے نئے حملے کیلئے جنگ بندی پر آمادہ نہ بهی ہوتا ، ایران کی طرف سے جنگ کے خاتمے کیلئے آمادگی کا مطلب یہ تها کہ بے شک جارح عراق ، ایران کی زمینوں پر قابض رہے ، اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ہر میٹر مربع مقبوضہ اراضی کی واپسی کیلئے کئی سال تک دشمن کو بهاری مراعات دیتا رہے ااور بین الاقوامی اداروں ، سیاسی دلالوں اور بالآخر جنگ کوشعلہ ور کرنے والے اصل مجرم امریکہ سے بهیک مانگتا رہے ۔ یہ ایسی منطق ہے جسے کوئی بهی آزاد اور غیر تمند بندہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، امام خمینیؒ ؒ اوروہ قوم اسے کیسے قبول کرتے جن کو علاقے کے جابرترین بادشاہ سے مقابلہ کے معرکہ کارزار میں فتح حاصل ہوئے ابهی قلیل مدت گذر رہی تهی ۔

یاد رہے کہ صلح کی ان تجویزوں میں صدام نے کہیں بهی سرحدوں سے پیچهے ہٹنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تهی بلکہ اس کا برملا طور پر یہ دعویٰ تها کہ مقبوضہ وسیع علاقوں کے علاوہ ان علاقوں کو بهی عراق میں ضم ہونا چاہئے جن پر ابهی قبضہ نہیں ہواتها !! صدام نے کئی سال بعد کویت پر جارحیّت کے دوران بهی اسی طرح کے دعوے کرتے ہوئے کویت کو عراق کا انیسواں صوبہ قرار دیا تها ! حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کو سرنگوں کرنے کی ناکامی کهل کر سامنے آنے کے بعد جنگ بندی کادم بهرتے ہوئے  ایران پر دباؤ ڈالنے والے ممالک میں سے ایک ملک بهی صلح نہیں چاہتا تها بلکہ ان کو پہلے سے ہی معلوم تها کہ کوئی بهی ملک یاقوم ایسے حالات میں تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے ۔ وہ ایران کو گوشۂ انزوامیں ڈالنے کے ایک حربے کے طورپر صلح کی راگ الاپ رہے تهے ۔ اس سے بڑه کر ریعت پسندی عرب حکومتوں کی طرف سے صلح اور جنگ بندی پر اس لئے زیادہ زور دیا جا رہاتها کہ ان حکومتوں کے خلاف اپنے ملک کے مسلمان عوام شدید احتجاج کررہے تهے کہ وہ صدام جیسے کهلم کهلا جارحیّت کے مرتکب شخص کی کیوں حمایت کررہے ہیں ؟ وہ بهی ایسے ملک کے خلاف جس نے اپنی ہستی اور پورا وجود اسلام کے دفاع کیلئے وقف کرر کها ہے !

امریکہ ، یورپی حکومتیں اور عرب ممالک اپنے صلح جوئی کے دعوؤں میں کبهی سچے نہیں تهے ، اس سلسلے میں بہترین دلیل جو ہمیں کسی قسم کے ثبوت سے بے نیاز کردیتی ہے یہ ہے کہ جنگ کے دوسرے سال میں ایران کی طرف سے کئے جانے والے چند کامیاب آپریشنوں کے بعد صدام عرب امیروں کی خطیر امداد اور مغرب کے جدید ترین اسلحے کے حصول کے بغیر ایک مہینے کیلئے بهی ایرانی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتا تها ، اگر وہ اپنے دعوؤں میں سچے ہوتے تو وہ ہتهیاروں ( کے لین دین ) سمیت اقتصاد اور تیل کے شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے صدام کی امداد بند کردیتے ۔ ایران کا جرم یہ تها کہ وہ ایسے دشمن کے خلاف لڑرہا تها جو اس کے گهر میں گهس آیاتها اور جنگ کے ابتدائی دنوں میں اس نے ہزاروں بے گناہوں کو خاک و خون میں غلطان کرنے کے علاوہ لاکهوں افراد کو بے گهر کردیاتها ۔ صدام کی حمایت کرنے والی عرب حکومتوں نے کویت پر قبضے کے بعد سرکاری طورپر ایران سے معافی مانگ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیا لیکن یہ مغربی ممالک اور صدام سمیت ان عرب ممالک کی ذمہ داریوں کے بوجه کو ہلکا کرنے اور ان کے گناہ معاف کرانے کا سبب نہیں بن سکتیں ۔

مذکورہ  دلائل کی بناپر امام خمینیؒ مصالحتی وفود کو جواب دیتے ہوئے اپنے اور قوم کے اس عزم و ارادے سے انہیں آگاہ فرماتے رہے جو بین الاقوامی سرحدوں کی طرف جارح کی پسپائی اور جنگ سے پہنچنے والے نقصانات کے ازالہ تک دفاع پر مبنی تهے ۔ لیکن مغربی پروپیگنڈے کا شور وغل اتنا زیادہ تها کہ ایران کی حقانیت اور مظلومیت کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تهی ، مغرب نے حقائق کو اس طرح مسخ کرکے بیان کیاتها کہ وقت گذرنے کے ساته ایران کو جنگ کے شعلوں کو ہوادینے ملک اور صدام کو صلح پسند کے طورپر متعارف کیا جانے لگا تها ، مسلسل دباؤ اور حق کو پامال کرنے والی کاروائیاں امام خمینیؒؒاور ایرانی عوام کے مضبوط قدموں کو ڈگمگانہ سکیں ، بنی صدر کی معزولی اور ملک کے انتظامی ڈهانچے پر امام ؒ کے نقش قدم پر چلنے والے عناصر کی گرفت مضبوط ہونے کے بعد لشکر اسلام کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کاروائیاں تیزتر ہو گئیں ، اس سے پہلے دو کروڑ عوامی رضا کاروں کی فوج تشکیل دینے کیلئے امام خمینیؒ کے حکم پر ایرن کے انقلابی جوانوں نے پرجوش انداز میں لبیک کہا تها ۔

رضا کاروں کی ٹریننگ اور محاذوں کی طرف ان کی روانگی سے ایران کی فضا دگرگوں ہوگئی ، جب مجاہدین لشکر اسلام کے پے درپے کامیابیوں نے محاذوں پر بعثی پٹهوں کی کمر توڑ کر رکهدی تو امریکہ اور اس کے یورپی حلیف بتدریج جنگ کے پس منظر میں اپنے چهپے ہوئے چہروں سے نقاب اتار نے لگے اور ایسے جدید ترین ، ہتهیار فورا صدام کے اختیار میں دے دئے گئے جن کی فراہمی صلح کے دنوں میں بهی دشوار اور کئی سال تک ،تک و دو کرکے رعایتیں حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہوسکتی تهی ، ان میں اگزوسٹ میزائیل اور فرانسیسی ساخت کے سپر اٹینڈارڈ طیارے بهی شامل تهے ، ان کے علاوہ صدام کی جنگی مشینری کو روسی ساخت کے اسکڈ میزائیلوں ، میگ ۲۹ طیاروں اور دیگر قسم کے ہتهیاروں سے لیس کیا گیا ، یہی نہیں بلکہ امریکی اور یورپی ممالک اور مغربی کمپینوں کی طرف سے صدام کو میزائیل بنانے اور ان کی مار بڑهانے سے متعلق خام مال اور ٹیکنالوجی تحفتًا دی گئی تاکہ اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج پر بالا دستی حاصل ہوجائے ۔

ان دنوں میں سعودی عرب ، کویت ، عرب امارات اور خلیج فارس   کے کنارے پر واقع دیگر ممالک امریکی دباؤ میں آکر صدام کے جنگی اخراجات پورا کرنے پر مجبور ہوئے ، کویت پر عراقی قبضے کے دوران عرب حکومتوں نے ان امدادوں کے بارے میں سرکاری سطح پر حقائق کو فاش کیا ، عراق پر ان ممالک کی اسی ارب ڈالر کی واجب الادا رقم امدادوں سے متعلق ہے جو اس نے آٹه سالہ جنگ کے دور میں حاصل کی تهیں ، مصرنے صدام کی امداد کیلئے پائلٹوں اور طیاروں کے علاوہ ہزاروں فوجی جوان بهیجے تهے ، اس طرح اردن نے بهی عراق کی امداد کی تهی !!

شہروں ، دیہاتوں اور اقتصادی مراکز پر وسیع پیمانوں پر بمباری   اوررہائشی علاقوں پر تباہ کن میزائیلوں سے حملہ صدام کے جرائم کا ایک اور سلسلہ ہے جس سے انسانی حقوق کے دعوے دار اداروں  اور ممالک نے نہ صرف چشم پوشی کی بلکہ ان کی مذمت کرنے کی بجائے صدام کے لئے ان حقوق کو پامال کرنے کے وسائل فراہم کئے ، ان بمباریوں میں سینکڑوں نہتے عورتیں اور بچے مارے گئے ۔

امام خمینیؒ ایسے حالات میں قوم کے مقدس دفاع کی رہنمائی کررہے تهے کہ امریکہ اور یورپ نے سرکاری طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساته ہتهیاروں کے لین دین کا بائیکاٹ کیا ہواتها،اس وجہ سے طیاروں کے کسی فاضل پرزے کے حصول کیلئے کئی مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا تها ۔ دنیا کے بہت سے ممالک یا تو جارحیّت پر خاموش اور ایران پر دباؤ بڑهانے میں شریک تهے یاعلنیہ طورپر صدام کے حامیوں کی صف میں شامل تهے جبکہ ایران اکیلا دفاعی جنگ لڑ رہا تها ، ایرانی عوام خدا پر ایمان اور غیبی امدادوں پراعتقاد کے ساته ایک شخص کی قیادت پر بهروسہ کئے ہوئے تهے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بالآخر اس مظلوم اور اکیلے محاذ کے ، فتح نے قدم چومے اور دشمن قدم بہ قدم اپنی سرحدوں کے اندر تک پیچهے ہٹنے پر مجبور ہوگیا ۔ امام خمینیؒ کی زندگی کے آٹه سال اس دفاع مقدس کی قیادت میں گذرے ۔ یہ ایک قابل ذکر حقیقت ہے کہ جنگ کے تیسرے سال میں جب بیت المقدس آپریشنز کے بعد جس کے نتیجے میں ۱۳ مئی ۱۹۸۲ ء  کو جارح عراقی افواج کے قبضے سے خرمشہر کی اہم اور جنگی اہمیت والی بندرگاہ آزاد ہوئی ،    امام خمینیؒ جنگ دفاعی عمل کو بند کرنے کا ارادہ کر چکے تهے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے فرض شناس اعلیٰ حکام جن میں فوجی کمانڈر اور سیاسی عہدیداردونوں شامل تهے ، ملک کے سیا سی عسکری حالات اور محاذوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد امام خمینیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؒ ؒ کے سامنے یہ رائے پیش کی کہ پائدار صلح قائم ہونے تک دفاعی عمل کو جاری رکهنا چاہئے ، ان کی دلائل یہ تهیں کہ ابهی ایرانی علاقے کے کچه حصّے جارح افواج کے قبضے میں ہیں ، اس کے علاوہ خرمشہر کی آزادی کے دوران بدترین شکست سے مواجہ ہونے کے باجود صدام حقیقت کو قبول کرنے اور اپنے جارحانہ عزائم سے دستبردار ہو کر صلح کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ وہ دنیا کی بڑی حکومتوں کی بے دریغ امداد کے ذریعے از سر نو طاقت حاصل کرنے کے بعد فوجی کاروائی کرکے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے پر امید نظر آتا ہے ، ان حالات میں صلح قائم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ صدام اپنے بے بنیاد دعوؤں پر اڑا ہواہے ، لہذا ایران کی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا فیصلہ عملی طورپر آزاد شدہ شہروں اور وسیع سرحدی علا قوں کو عراق کے آئندہ حملوں کے سامنے غیر محفوظ کرسکتا ہے ۔

بہر حال مذکورہ منطقی دلائل کے علاوہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ایرانی قیادت اور عوام کے سامنے مقدس دفاع کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تها : بین الاقوامی اداروں کی طرف سے حق کشی اور جنگ بندی کیلئے پیش کی جانے والی منصفانہ شرائط کو قبول نہ کرنا اور بڑی طاقتوں کے ذریعے صدام کی جنگی مشینری کی تقویت ۔

صدام کو ملنے والی بهر پور امداد تیزی کے ساته لشکر اسلام کے حق میںجاری محاذ جنگ کے حالات تبدیل نہ کرسکیں ، عراق کی طرف سے رہائشی علاقوں پر بمباری اور میزئیلوں سے حملے کے دور عروج  میں امریکہ نے براہ راست مدخلت کی ، اسی کے ساته فرانس ، برطانیہ ، امریکہ اور روس کے جنگی بیڑے خلیج فارس میں داخل ہوگئے۔ امریکہ سمجهتا تها کہ جنگ کے بحران کو عالمی شکل دیتے ہوئے دوسرے ممالک کو براہ راست اس میں ملوث کرنا واحد اور آخری راہ حل ہے ،اس نظریئے کو عملی شکل دینے کیلئے آئیل ٹینکروں کی جنگ کا آغاز کیا گیا ، علاقے میں بهیجی گئی ان فورسز کی ذمہ داری ایرانی تیل کی بر آمد کو روکنا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی ضروری اشیاء کی درآمد بند کرنے کیلئے تجارتی جہازوں کی تلاشی لینا تهی ، اس دوران ایران کے متعدد تجارتی جہازوں اور آئیل ٹینکروں پر میزائیلوں سے حملہ کیا گیا انہیں فضا ئی بمباری کا نشانہ بنایا گیا اور خلیج فارس کے ساحلی پانیوں میں واقع ایران کے تیل کے کنوئیں کو آگ لگا دی گئی ۔ ان جارحانہ کاروائیون کا تسلسل جاری رکهتے ہوئے آ خر میں امریکہ ایک ہولناک جرم کا مرتکب ہوا، ۳ جون ۱۹۸۸ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک مسافر ائر بس طارے ہر پرواز نمبر۶۵۵ کے دوران خلیج فارس کے فضا میں وینسنز نامی امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے سے دو میزائیل داغے گئے جس کی وجہ سے جہاز میں سوار ۲۹۰ بچے ، عورتیں اور مرد شہید ہوگئے ۔ حق سے بیگانہ ، زور وجبر کی دنیا نے اس سانحے پر آنکهیں بند کرلیں ، کیونکہ سانحے کی بهینٹ چڑهنے والے اسلام کے نام لیوا تهے اور اسلام کا نام لینامہذب مغربیوں کی نگاہ میں ناقابل معافی جرم سمجها جاتا ہے ، وہی جرم جس کے ارتکاب کی وجہ سے آج کل یورپ میں مظلوم بوسینی باشندوں کا قتل عام ہورہا ہے ۔ ادهر صدام نے بهی مسلط کردہ جنگ میں اپنے سیاہ نامہ اعمال کو اس سے بهی زیادہ ہولناک جرم کے ساته بندکیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ، عراقی شہر حلبچہ پر کیمائی ہتهیاروں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پانچ ہزار شہری کر بناک حالت میں دم گهٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جن کی اکثریت بچوں اور ضعیف العمر افراد پر مشتمل تهی ۔ اقوام متحدہ اور سلا متی کونسل نے اس سانحے پر بهی احساس ذمہ داری کا اظہار نہیں کیا !!! خلیج فارس میں مغربی طاقتوں کی یلغار اور آٹه سالہ ایران عراق جنگ کے آخری مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی اصل وجہ ، جنگ میں لشکر اسلام کی برتری کے علاوہ یہ امر بهی تهاکہ اسلامی افواج کااثر مقبوضہ علاقوں سے دشمن کو اپنی سرحدوں کے اندر دهکیل کر علاقے سے فتنے کی جڑوں کو اکهاڑ پهینکنے والی تهیں، مجاہدین اسلام کے ہاتهوں صدام کی شکست ، اسلامی انقلاب کے مقابلے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی شکست کی صدائے بازگشت تهی ، اب پہلے کے برعکس امریکہ اور سلامتی کونسل کی تمامتر کوششیں ایرانی مجاہدوں کی پیش رفت کا راستہ روکنے اور اصدام کو سرنگونی سے بچانے پر مرکوز تهیں ۔

بالآخر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۵۹۸ منظور کرلی گئی،اس قرارداد میں ایران کی طرف سے جنگ کے خاتمے کیلئے پیش کی جانے والی سابقہ شرائط اور پیش کشوں کے بیشتر حصوں کو تسلیم کرلیاگیا تها جن پر وہ جنگ کے آغاز سے ہی اصرار کر رہاتها لیکن بین الاقوامی ادارے صدام کی فتح کی امید پر ان شرائط کو ماننے سے انکار کرتے رہے تهے ۔ سلامتی کونسل کی طرف سے مندرجہ بالا قرداد کی منظوری او ر جنگ کے آخری مہینوں میں جنگ شروع کرنے والوں کی طرف سے کی جانے والی غیر انسانی کاروائیوں کو مدنظر رکهتے ہوئے امام خمینیؒ نے تازہ ترین حالات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ایران کے با اعتماد فوجی ، سیاسی اور اقتصادی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ، کمیٹی کے ارکان نے تجزیہ و تحلیل کے بعد متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ اب آٹه سالہ مقدس دفاع کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے حق پر مبنی موقف کو ثابت کرنے اور قرارداد نمبر ۵۹۸ کو منظور کرتے ہوئے جنگ بند کرنے کا وقت آپہنچا۔

قرارداد کی منظوری نامی امام خمینیؒ کا مشہور پیغام امام ؒ کی قیادت اور انتطامی صلاحیتوں کا شاہکار ہے جو ۲۰جولائی ۱۹۸۸ء  کو جاری ہوا۔ اس پیغام میں مسلط کردہ جنگ اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے علاوہ تمام شعبوں بالخصوص سپر طاقتوں سے مقابلہ اور انقلابی امنگوں اوراہداف پر ثابت قدم رہنے کیلئے حکومت اور اسلامی انقلاب کی آئندہ پالیسیاں وضع کی گئی ہیں ، قرار داد کی منظوری کو امام ؒ نے ’’ زہر کے پیالے ‘‘ سے تعبیر کیا جو چهپے ہوئے حقائق اور نہایت باریک نکات کا حامل ہے جس کی تشریح کی اس کتابچے میں گنجائش نہیں ہے ، یہاں پر اس سلسلے میں صرف امام ؒ کے پیغام کی بعض جهلکیاں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں : ’’ جہاں تک قرار داد کو منظور کرنے کا مسئلہ ہے یہ امر سب کیلئے بالخصوص میرے لئے حقیقتاً بہت زیادہ تلخ اور ناگوار تها ، اس لئے کہ چند دن پہلے تک میں سابقہ دفاعی طرز عمل اور جنگ کے بارے میں اعلان شدہ مواقف پر یقین رکهتا تها اور ان پر عمل پیرا رہنے کو حکومت ، ملک اور انقلاب کے مفادات کے مطابق سمجهتا تها ، لیکن ایسے حالات اور اسباب و علل کی وجہ سے جن کا بیان ، میں اس وقت مناسب نہیں سمجهتا اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ آنے والے وقت میں واضح ہوجائیں گے ، نیز اعلیٰ سطح کے تمام ملکی سیاسی اور فوجی ماہرین کی رائے کو پیش نظر رکه کر جن کے ذمہ دارانہ رویوں ، ہمدردی اور سچائی کے جذبوں پر مجهے بهروسہ ہے میں قرارداد کو منظور اور جنگ بند کرنے پر راضی ہوا، موجودہ مرحلے پر میرے خیال میں یہ فیصلہ انقلاب اور حکومت کے مفادات کے مطابق ہے ۔ خدا بہتر جانتاہے کہ اگر وہ جذبہ نہ ہوتا جس کے تحت ہم سب کو اور ہماری عزت و آبرو اور اعتبار اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کی راہ میں قربان ہوجانا چاہئے ، میں اس فیصلے پر کبهی راضی نہ ہوتا بلکہ اس سے میرے لئے موت اور شہادت کا ذائقہ زیادہ میٹها ہوتا ، لیکن چارہ کیا ہے ؟ ہم سب کو اللہ تعالی کی خوشنودی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے اور یہ مسلمہ امرہے کہ ایران کی بہادرر اور دلاور قوم ( ان معیاروں پر) پوری اترتی رہی ہے اور آئندہ بهی اترتی رہے گی ۔۔۔(13)‘‘

امام خمینیؒ نے کئی بار خبر دار کیا تها کہ صدام کے صلح پسندی کے دعوے رائے عامہ کو دهوکہ دینے کے حربے ہیں ، چنانچہ ایران کی طرف سے جنگ بندی کی قرار داد منظور کی جانے کے بعد صدام حسین ایک بار پهر جنگ کی چنگاری بهڑ کاتے ہوئے نئی حماقتیں کرنے لگا اور اس نے جنوبی محاذ کے بعض علاقوں پر پهر قبضہ کرنا شروع کیا ! امام خمینیؒ کے ولولہ انگیز اور جذباتی پیغام کے شائع ہوتے ہی عام رضاکارانہ عمل کے ساته ملک کے دورترین علاقوں سے انقلابی قوتوں اور مجاہدین نے محاذ جنگ کی طرف لپکتے ہوئے بعثی ایجنٹوں کو ایک بار پهر شکست سے دچار اور فرار ہونے پر مجبور کیا ۔ اب صدام کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تها ، وہ قوم ایک مرحلے میں ایک ناپسندیدہ جنگ ملسط کی گئی تهی ،اپنے بہت سے پیاروں کے لہونذرانہ دے کر ، ایسی رزمیہ داستانیں تخلیق کرنے کے بعد جن کی مثالیں صرف صدر اسلام کی تاریخ میں پڑهنے کو ملتی ہیں اور جس طرح امام خمینیؒ ؒ نے وعدہ کیا تها اللہ تعالیٰ کی مشیت سے اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اپنے کل کے مغرور اور آج کے ذلیل و خوار دشمن کو صلح قبول کرنے پر مجبور کر سکے ۔ صدام کیلئے جو امریکہ کی شہ پر ایران کے حصّے بخرے کرنے اور انقلاب کو جڑ سے اکهاڑ پهینکنے کیلئے آیا تها ، اب اپنی جان کی حفاظت اور مظلوم عراقی عوام پر اپنی بالا دستی قائم رکهنے کیلئے ایران کی انقلابی قوم کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تها ۔

ایرانی عوام کے اس طویل مقدس دفاع کے دوران رونما ہونے والے تعجب آمیز حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں قوم نے شاہی دور کی ورثے میں ملنے والی تباہکاریوں کا ازالہ کرنے کیلئے تعمیری سرگرمیاں جاری رکهیں اور اس عرصے کے دوران محاذوں سے متعلق امور مکمل طور پر نبٹانے کے علاوہ ملکی تعمیر اور تعمیر نو کے مندرجہ ذیل شعبوں سے متعلق بڑے بڑے منصوبوں کو نہایت سنجیدگی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا : ڈیمو ں کے عظیم منصوبے ، سڑکوں کی تعمیر ، تیل کی تلاش اور تیل سے ا ستفادہ کے عمل کا فروغ توانائی کے مراکز میں اضافہ ، زرعی امور کی اصلاح ، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا قیام اور ترقی و پیشرفت سے متعلق اسی طرح کے دیگر پروگرام ،ا یرانی عوام ، امام خمینیؒ کی حکیمانہ قیادت کے بعد ان کامیابیوں کو آ پؒ کے مندرجہ ذیل عظیم ساتهیوں نیز تینوں ملکی اداروں میں فعال ان کے معاونین کی انتهک کوششوں اور مساعی جمیلہ کی مرہون منت سمجهتے ہیں : ( اس وقت کے صدر مملکت) حضرت آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای ، ( وزیر اعظم) انجینئر میر حسن موسوی (سپیکر)  حجت الاسلام اکبر ہاشمی رفسنجانی ، ( چیف جسٹس ) آیۃ اللہ موسوی اردبیلی اور امام ؒ کے امانتدار مشیر حضرت حجۃ الاسلام سید احمد آقا خمینیؒ ؒ ۔

 یوں آٹه سالہ مسلط کردہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور جنگ کی آگ بهڑ کانے والے اپنے کسی مقصد میں بهی کامیاب نہ ہوسکے ، نہ صرف یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سرنگوں نہیں ہوئی بلکہ مسلمان ایرانی عوام نے قومی اتحاد کی روشنی میں ملک کے اندر ففته کالم کے عناصر پر قابو پاکر اندرون ملک تمام شعبوں میں اپنی بالادستی کو استحکام بخشا۔ ایران نے بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط اور نا قابل شکست طاقت کے طورپر ابهر کر ، مغرب والوں کی آٹه سالہ مسلسل تشہیری مہم کے باوجود حق پر مبنی موقف کو ثابت کرتے ہوئے اپنا پیغام دنیا تک پہنچایا ، البتہ اس مقدس مشن کی ایران نے بهاری قیمت اداکی ’’ ان تنصر اللہ ینصر کم و یثبت قدامکم ‘‘( اگر تم خدا کی نصرت کرو گے تو وہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا) ۔

صدام اور تمام نام نہاد اسلامی اور عرب ممالک کا سب سے بڑا جرم اور غداری جنہوں نے اسے جارحیّت پر اکسا یا اور اس کی حمایت کی دونوں ملکوں کی عظیم انسانی اور اقتصادی توانائیوں کو ضایع کرنے کے علاوہ یہ ہے کہ اس ناخواستہ جنگ کو مسلط کرکے انہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کو زک پہنچایا اور عالمی اسلام انقلابی کی راہوں کو طویل عرصے کیلئے مسدود کردیا جس کے فروغ کیلئے شاہ ایران کی معزولی کے بعدفضاساز گار ہوئی تهی ۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و انتشار بهی پهیلا یا ۔ امام خمینیؒ ؒ ۱۱فروری کے بعد اپنے تمامتر پیغامات اور تقریروں میں اسلامی حکومتوں کو اخوت کا ہاته بڑهانے کی دعوت دیتے رہے لیکن وہ اس دعوت کو قبول کرنے اور عالم اسلام کے مسائل کے حل اور اقدس کی آزادی کیلئے امام ؒ کی اپیلوں پر مثبت ردعمل کا ظہار کرنے کی بجائے عالمی کفر کے سرغنوں کی صف میں شامل ہوگئیں ، البتہ وہ اس طریقے سے سرائیل کے ساته ذلیلانہ ساز باز اور اس سرطانی غدود کو تسلیم کرنے ، اپنے ملکوں کے اندر کافرافواج کو بلاکر اسلامی ممالک کے دل میں ، سرزمین وحی پر ڈیرہ جمانے کیلئے امریکہ کوتمام ملکی وسائل اور اراضی واگذارکرنے کے علاوہ کوئی اور فائدہ حاصل نہ کر سکے ، کویت پر صدا م کا جنونی حملہ اور بڑے پیمانے پر اس ملک کے وسائل کو جلانا نتیجتا عراقی قوم کے وجود کی تباہی اور علاقے میں اسلام دشمن طاقتوں کی مسلسل موجودگی اسی ناقابل معافی جرم کی سزاہے ’’ فاعتبرو ا یا اولی الابصار ‘‘!

عارضی صلح برقرار ہونے کے بعد ۳ / ۱۰ / ۱۹۸۸ء  ۹ شقوں پر مشتمل ایک پیغام میں امام خمینیؒ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کیلئے ملکی تعمیر نو کی پالیسیوں اور ضروری پروگرام کا ایک دستور العمل مرتب کیا ، امام ؒ کی دو اندیشی کی گہرائی اور آپؒ کی نگاہ میں اقدار کی بنیادوں کو سمجهنے کیلئے اس دستور العمل کا دقیق مطالعہ کرنا چاہئے (14) اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو چلانے میں دس سالہ تجربات کے پیش نظر امام خمینیؒ ؒ نے  ۲۴ / ۴ / ۱۹۸۹ء کو اس وقت کے صدر ( حضرت آیۃ اللہ خامنہ ا ی ) کو ایک خط لکها جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کے اداروں کی اصلاح اور اس کے ڈهانچے کی تکمیل کا حکم دیا ،اس خط میں آپؒ نے صاحب رائے سے اور ماہر افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے اسے آٹه مقررہ اصولی نکات پر آئین کا جائزہ لینے اور اس میں ضروری اصلاحات کی ذمہ داری سونپنے کا حکم دیا ۔ رہبری کی شرائط سے متعلق شقیں ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات ، ریڈیو ٹی وی میں مرکزیت پیدا کرنا اور مفادات نظام مملکت کی تشخیص کی کونسل ( مجمع تشخیص مصلحت نظام) کے فرائض سے متعلق اصلاحات اس کمیٹی کے اہم فرائض میں شامل تهیں (15) ۔ آئین کی ترمیم شدہ شقوں پر ۳ دسمبر ۱۹۸۹ء  کو    امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد عام ریفرنڈم ہوا اور ایرانی عوام کی غالب اکثریت نے ان شقوں کی منظوری دی ۔

گو ربا چوف کے نام امام خمینیؒ کے خط میں

دنیا سے سوشلزم کے خاتمے کی پیش گوئی

سوویت یونین کے آخری سربراہ گوبا چوف نے عالمی کمیونزم میں بنیادی تغییر و تبدل اور اصلاحات کیں ، ابهی سیاسی مبصریں اور مغربی رہنماان اصلاحات کی طرف شک و تردید اور بدبینی کی نگاہوں سے دیکه رہے تهے اور کسی کو یقین نہیں آرہا تها کہ یہ اصلاحات سوویت یونین میں کمیونزم کے ستر سالہ الحادی نظام کو جڑ سے اکهاڑ پهینک دیں گی ، ان حالات میں زیادہ سے زیادہ یہی تصور کیا جارہا تها کہ کرملیں محل کے حکام نہایتا ًاپنے اندرونی اقتصادی مسائل کم کرنے کیلئے سوویت یونین کے سات مشرقی بلاک کے ممالک کے بعض براہ راست تعلقات سے چشم پوشی کریں گے اور کمیونسٹ کیمپ میں ایک نئے نظام کی تشکیل ہوگی جس کی بنیادیں سوویت یونین کی محدود قیادت کے ساته اس کے حلیفوں کو زیادہ تر   ذمہ داریاں سونپنے پر مبنی ہوں گی ، لیکن امام خمینیؒ نے انہی دنوں میں  مادی مبصرین کی نظر میں ناقابل فہم بصیرت وآگہی کے ساته  یکم جنوری ۱۹۸۹ء کو گوربا چوف کے نام ایک خط لکها جس میں آپؒ نے پیش گوئی کی تهی : ’’آج کے بعد کمیونزم کو دنیا کی سیاسی تاریخ کے عجائب گهروں میں ڈهونڈ نا چاہئے (16)‘‘ امام ؒ نے اس خط میں سوویت یونین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں ’’ کمیونزم کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز‘‘ سے تعبیر کیا تها ، تعجب یہ ہے کہ اسی خط میںا یک اور پیش گوئی کرتے ہوئے یقینی انداز میں خبردار کیا گیا تها، جو اس دور کے عالمی حالات کے تجزئیے میں امام خمینیؒ کی قدرت کی نشاندہی کرتی ہے۔ امامؒنے کهل کر روسیوں کو مغربی سرمایہ داری کے بظاہر سبز باغ کی طرف جهکنے اور امریکہ کی فریب میں آنے سے خبردار کیا تها ۔ آپؒ نے گہرے فلسفی اور عرفانی نکات پر بحث کرتے ہوئے دین مخالف پالیسیوں میں کمیونسٹوں کی ناکامی کی جانب اشارہ کرکے گوربا چوف سے اپیل کی تهی کہ وہ مغرب کی مادہ پرست فکر سے امیدیں وابستہ رکهنے کی بجائے خدا ور دین کی طرف رجوع کرے۔ امام ؒ  نے تاکید کی تهی : آپؒ کے ملک کا بنیادی مسئلہ ، ملکیت ، اقتصاد اور آزادی نہیں ہے ، آپؒ کا مسئلہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان کا فقدان ہے ، یہ وہی مسئلہ ہے جو مغرب کو پستی کی طرف لے گیا اور اسی وجہ سے وہ بند گلی میں پہنچ چکاہے یا پہنچنے والا ہے (17)۔

افسوس اس بات کاہے کہ روسی قائدین نے امام خمینیؒ کی ان جنجهورڑنے والی نصیحتوں پر غور نہیں کیا ، امریکی اور یورپی تجارتی اداروں نے موجودہ روس کو اپنی معاشی حرص و لالچ کیلئے کهلونابنایاجس کی وجہ سے ایک نئی قسم کا استحصال جہنم لے جا رہاہے جومستقبل میں تاریک پس منظر کا حامل ہے اور اس راہ پر چلنے سے بند گلی کے سواکہیں نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ اس ملک کے عوام ہوش  میں آجائیں ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس وقت کے روسی وزیر خارجہ شوارڈ ناڈرزے ، گورباچوف کا جواب پہنچانے کیلئے امام ؒ سے ملنے آئے تو وہ یہ دیکه کر حیران ہوگئے کہ جس شخص نے نہایت یقین اور ڈٹائی کے ساته دنیا کی دوسری ایٹمی طاقت کو للکا رتے ہوئے پیغام لکها تها وہ جماران میں واقع گارے سے بنے ہوئے ایک چهوٹے گهر کے ۱۲مربع میٹر کے کمرے میں بہت سادہ وسائل کے ساته نہایت اطمینان سے پہاڑ جیسی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹها ہواہے ، جہاں پر عام پروٹوکول کا معمولی انتظام بهی نہیں ہے اور اس کے ارد گرد کمرے کے اندر قرآن مجید ، جانماز ،تسبیح ، کچه اخبارات اور ایک معمولی ریڈیو سیٹ پڑا ہوا ہے !!

شوارڈ ناڈرز ے کے ساته آیا ہوا دوسرا بلند پایہ روسی عہداربیٹهنے کیلئے لکڑی کی اضافی کرسی نہ ہونے کہ وجہ سے پہلی بار فرش پر بیٹهنے پر مجبور تها ! یہ دیکه کر شوارڈ ناڈر ے کے تعجب میں مزید اضافہ ہوا ۔ امام ؒ کے بوڑهے مؤمن خادم نے دنیاکی دوسری بڑی طاقت کے وزیر خارجہ کے ہاته میں چائے کی پیالی اور قند کے دوٹکڑے پکڑائے جواس اہم ملاقات کے دوران پیش کئے جانے والے واحد ریفرشمنٹ تهے ، شائد اس وقت شوارڈناڈرے نے سوچا ہوگا کہ یہ سب کچه جو اسے نظر آرہاہے ، جان بوجه کر اور اس کے ساته امتیازی سلوک کے طورپر کیا جارہاہے ، لیکن حقیقت اس کے بر عکس تهی ، امام ؒ نے اپنی زندگی کے تمام مراحل میں چاہے تنہائی ، پردیس اور جلاوطنی کی حالت میں ہوں یادینی مرجعیّت اور سیاسی قیادت کے مقام پر فائز ہوں رحلت کے وقت تک اپنا سادہ اور بے لوث طرز زندگی نہیںچهوڑا اور دنیوی اعتبار سے جتنی اہم اور بڑی کیوں نہ ہو کبهی آپؒ ؒ نے مقام و مرتبے کی وجہ سے اپنے روئیے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیںکی ۔

حضور اکرم ؐ اور دینی اقدار کا دفاع

مغرب کے ساته امام خمینی  ؒ کا آخری ٹکراؤ

ایرن عراق جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی سیاسی رہنماؤں نے انقلابی اسلام کے خلاف ایک نئی یلغار شروع کی، مغرب والے گذشتہ برسوں کے دوران انجام پانے والے ایران کے مقدس دفاع ، لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی اسلامی تحریک سے مقابلہ ، افغانستان کے اسلامی جہاد اور ۶ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو مصر کے مسلمان انقلا بیوں کے ہاتهوں انوارالسادات کے قتل وغیرہ جیسے واقعات میں اس نتیجے پر پہنچے تهے کہ ابهر تی ہوئی اسلامی تحریک کی لہر کو اسلحہ کے بل بوتے پر اور فوجی طاقت کے ذریعے روک نہیں سکتے ، لہذا عالم اسلام کے خلاف انہوں نے ایک نیا محاذ قائم کیا جو نفسیاتی ، ثقافتی اور نظریاتی جنگ کا محاذ ہے ، شیعہ سنی فرقوں کا آپس میں لڑانے کا حربہ بهی امام خمینیؒؒ اور اسلامی حکومت کے عہدیداروں کے فہم و فراست سے ناکام بنادیا گیا تها ، لہذا انہوں نے اسلامی تحریک کی جڑوں اور بنیادی محرکات یعنی اعتقادی اصول اور ان مقدسات پر رکیک حملہ کیا جن سے عشق و محبت کی وجہ سے جدید اسلامی تحریک کے مقاصد اور طور طریقوں میں وحدت و یک سوئی پیدا ہوئی تهی ۔ سلمان رشدی کی لکهی ہوئی گندی کتاب ’’ شیطانی آیات ‘‘ کی ترتیب کثیر تعداد میں اس کی اشاعت اور مغربی حکومتوں کی طرف سے اس کی سرکاری حمایت ، ثقافتی یلغار کے باب کیلئے تمہید کی حیثیت رکهتی تهی ، اگر عالم اسلام اس کتاب میں اسلام کے عظیم الشان پیغمبرؐ کی شان میں ہونے والی توہین کے سامنے ڈٹ نہ جاتا تو اسلام کے خلاف پہلا مورچہ آسانی کے ساته فتح ہوچکا ہوتا ، اس کے بعد ان دینی اصول اور مقدس دینی نظریات پر جو اسلامی معاشروں میں ماوارء الطبیعت اور روحانی اقدار پر ایمان کا باعث ہیں مختلف طریقوں سے حملے کا پروگرام تها ۔ یہی مقدسات دینی فکر کے ڈهانچے اور امت مسلمہ کے وحدت آمیز تشخیص کی تشکیل کرتے ہیں اور ان میں شک و تردید پیدا کرنا عالم اسلام اور اسلامی تحریکوں کو اندر سے کهوکهلا کرکے مغربی ثقافتی اور نظریاتی یلغار کے سامنے انہیں بے بس بنانے کا سبب بنتا ہے ۔

مندرجہ بالا دلائل اور حقائق کو سامنے رکه کر امام ؒ نے ۱۴ فروری ۱۹۸۹ء کو چند چهوٹی سطروں میں سلمان رشدی کے مرتدہونے ، اس کے او ر اس کی کتاب کے کفر آمیز مطالب سے آگاہ ناشرین کے واجب القتل ہونے پر مبنی حکم صادر فرماتے ہوئے ایک نیا انقلاب برپاکیا (18)۔

مسلمان آپس کی فرقہ بندیوں ، زبان اور ملک و قوم کے اختلافات کو بالائے طاق رکه کر ایک دوسرے کے ساته متحد ہو کر مغرب کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔ اس واقعے کے نتیجے میں امت مسلمہ کے افراد نے امت واحدہ کی شکل میں نمودار ہوکر یہ ثابت کیا کہ اندرونی اختلافات اور فروعی تضادات کے باوجود اگر صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی جائے تو آنے والی دنیا میں مسلمان دینی اقدار کے احیاکی تحریک کے علمبرداروں کی حیثیت سے تقدیر ساز کردار دا کرسکتے ہیں ۔ اس حکم نے مغرب والوں کے اس غلط تصور کو بے بنیاد ثابت کیاکہ قرارداد نمبر ۵۹۸ قبول کر کے ایران اپنے انقلابی اسلامی مقاصد سے دستبردار ہوچکا ہے ۔

امام خمینیؒ کی عمر کے آخری سال اور ناخوشگوار واقعات

امام خمینیؒ کے لواحقین نے اپنی یادداشتوںمیں امام ؒ کی عمر کے آخری برسوں میں آپؒ ؒ کے حالات اور نفسیاتی کیفیت کے بارے میں بعض نکات بیان کئے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپؒ ؒ اپنے محبوب حقیقی سے ملاقات کو قریب سے محسوس کر رہے تهے ۔ ان سالوں میں امام ؒ کے عرفانی حالات سے قطع نظر آپؒ ؒ کے پیغامات ، تقریروں اور سیاسی مواقف اور رویوں میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو گذشتہ مراحل سے مختلف نظر آتی ہیں ، اگلی سطروں میں بعض مثالیں دی جائیں گی ۔ ان سالوں میں بعض ایسے ناخوشگوار سانحے رونما ہوئے جنہوں نے امام ؒ کی فکر اور دل پر گہرا اثر مرتب کیا، ان میں سے ایک سانحہ ۱۹۸۷ء  کے موسم حج میں خانہ خداکے نزدیک زائرین بیت اللہ کی مظلومانہ شہادت تهی ، قرآن کی سینکڑوں آیات ، پیغمبر اکرمؐ اور بزرگان دین کی سیرت اور ائمہ طاہرین ؑ کی بے شمار روایات و احادیث کی روسے امام خمینیؒ کا پختہ یقین تها کہ سیاست دین کا حصّہ ہے ۔ حالیہ اس صدیوں میں استعماری طاقتوں نے دین کو سیات سے جدا کررکها ہے ، اس تصور کے برے نتایج کا مشاہدہ عالم اسلام اور دیگر آسمانی مذاہب کے پیروکاروں میں کر سکتے ہیں ۔

حضرت امام خمینیؒ اسلام کے مقدس دین کو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی مراحل ، ان کے پہلوؤ ں اور مختلف ادوارمیں انسانی ہدایت کیلئے ضابطہ حیات سمجهتے تهے اور کیونکہ معاشرتی روابط اور جزوی سیاست انسانی زندگی کے ساته لازم و ملزوم ہیں ، ایسا اسلام جو صرف عبادتی اور نفرادی اخلاقیات کے پہلوؤں تک محدود ہو اور مسلمانوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے اور معاشرتی و سیاسی مسائل میں کردار ادا کرنے سے روکے ، وہ امام ؒ کی نظر میں ایک تحریف شدہ اور آپؒ ؒ ہی کی اصطلاح میں ’’ امریکی اسلام‘‘ ہے ۔ آپؒ نے اپنی تحریک کا آغا ز دین وسیاست کے یک جا ہونے کے نظریئے کی بنیاد پر کیااور اسی نظریئے کے تحت انقلابی عمل کا سلسلہ جاری رکها۔

امام خمینیؒ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا، آپؒ معاصر سیاسی نظاموں سے مکمل طور پر مختلف روش کے ساته اسلام کے معاشرتی شعائر اور اسلامی احکام کی سیاسی روح کے احیا کیلئے سرگرم عمل ہوئے ۔ اس روش کے بنیادی اصول اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک عبادی سیاسی فریضے کے طور پر نماز جمعہ کے اجتماعات کے احیا اور ان کے انعقاد ، بڑی اسلامی عیدوں کے موقع پر نماز عید کا اہتمام ، نماز جمعہ اور دینی تہواروں کے خطبوں میں اندرون ملک اور دنیا کے دیگر ممالک میں امت مسلمہ کے مسائل اور مشکلات پر بحث ، عزاداری امام حسین ؑ اور ماتم داری کی تقریبات کے لہجہ وزبان اور مفاہیم میں تبدیلی اس روش کی بعض اہم مثالیں ہیں ۔

امام خمینیؒ کی اہمترین یادگاروں میں سے ایک سنت ابراہیمی کے مطابق حج کا احیاء ہے ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے سے پہلے اسلامی ممالک بالخصوص سعودی حکام کے افکار کی نوعیت اور ان کی وابستگیوں کی بنیاد پر سالانہ منعقد ہونے والے مراسم حج اس کی حقیقی روح سے عاری ہوتے تهے ۔ مناسک حج اداکرنے والے مسلمان ، پوری دنیا سے یہاں جمع ہوکر سال میں ایک دفعہ منعقد ہونے والے اس عظیم اجتماع کے قانونی فلسفے سے غافل ہوتے تهے ، اس کے باوجود کہ قرآنی آیت کی بناپر ’’ حج لوگوں کیلئے اٹه کهڑے ہونے کا مرکز اور مشرکین سے برائت کے اعلان کا اعلیٰ ترین جلوہ کہلا یا گیا (19) ‘‘ہے اس موقع پر عالمی اسلام کے مسائل حل کرنے اور مشرکین سے برائت کے اظہار کا معمولی اثر بهی نہیں پایا جاتا تها ، درحالیکہ اس دور میں عالم اسلام سخت ترین حالات سے دچار اور ہر طرف سے سامراجی طاقتوں اور اسرائیل کے حملوں کی زد میں ہے ۔

اسلامی انقلاب کے بعد ہر سال مراسم حج کے موقع پر پیغامات کے ذریعے امام خمینیؒ عالم اسلام کے سیاسی مسائل کی طرف مسلمانوں کی توجہ کو واجب قرار دیتے ہوئے حج کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے مشرکین سے برائت ( نفرت) اور اس سلسلے میں حجاج کرام کے فرائض بیان کرنے پر تاکید فرماتے تهے ۔ حج کا عظیم اجتماع بتدریج اپنے حقیقی قالب میں ڈهل رہا تها اور ہر سال ہزاروں ایرانی زائرین اور دیگر ممالک کے انقلابی مسلمانوں کی شرکت سے برائت از مشرکین کا مظاہرہ کیا جاتا اور ان مظاہروں میں امریکہ ، سوویت یونین اور اسرائیل سے عالمی شرک و کفر کے اہم سرغنوں کی حیثیت سے بیزاری اور مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت پر مبنی نعرے لگائے جاتے تهے ، اس کے علاوہ حج کے دوران مسلمانوں کے درمیان تبادلۂ خیال اور ان کے مسائل کے حل کیلئے چارہ جوئی کی خطر کانفرنسیں منعقد ہوتی تهیں ، ایسی کاروائیوں کے غیر معمولی اثرات کے باعث امریکہ نے سعودی حکومت پر ایران کو روکنے کیلئے اپنا دباؤ بڑها دیا ۔

جمعہ ۶ ذلحجہ ۱۴۰۷ ه ق کو ڈیڑه لاکه سے زیادہ زائرین مشرکین سے برائت کے مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے مکہ کی سڑکوں پر چل نکلے ، سعودی حکومت کے خفیہ اور آشکار ( پولیس) اہلکاروں نے پہلے سے آمادہ ہوکر جلوس کی اصل روٹ کو بند کیا ، پهر اچانک سرد اور گرم اسلحہ کی مدد سے مظاہرین کو کچلنے کیلئے ٹوٹ پڑے !! اس المناک سانحے میں تقریبا چارسو کے قریب ایرانی ، لبنانی ، فلسطینی ، پاکستانی ، عراقی ، اور دیگر ملکوں سے تعلق رکهنے والے حجاج کرام شہید، اور تقریبا پانچ ہزار افراد زخمی ہوئے اور بعض بے گناہ لوگ گرفتار ہوئے اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور ایسے ضعیف افراد پر مشتمل تهی جوجان بچا کر تیزی کے ساته بهاگ نہیں سکتے تهے ۔ وہ لوگ انتہائی مظلمومیت اور بے بسی کے عالم میں محض اس جرم میں خاک و خون میں غلطان کے گئے تهے کہ نعرۂ تکبیر لگاتے ہوئے مشرکین سے برائت کا اظہار کر رہے تهے ۔ اس سے بڑه کر یہ کہ جمعہ کے دن حج کے مبارک ایام میں اور ماہ حرام کے دوران  حرم امن الٰہی کا تقدس پامال کیاگیا تها ان کی اس گستاخی پر امام خمینیؒ کے شدید غصے اور گہرے رنج و غم کے آثار آ خر عمر تک آپؒ ؒ کے بیانات اور پیغامات میں نمایاں تهے لیکن امت مسلمہ کے مفادات اورعالم اسلام کے حالات آپؒ ؒ کی طرف سے کسی قسم کی عملی اقدام کی راہ میں آڑے آ تے تهے ۔

اس سانحے کے اگلے سال ان دلائل کے پیش نظر جن کا گذشتہ باب میں ذکر کیا گیا ، اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق حکومت نے قرارداد نمبر ۵۹۸ کو منظوری کرلیا جس کے نتیجے میں مسلط کردہ جنگ کا خاتمہ ہوا ۔ آٹه سالہ مقدس دفاع کے دوران مجاہدین کی قربانیوں ، ایرانی قوم کی مزاحمت کی رزمیہ داستانوں ، انقلاب دشمن طاقتوں کی ان تمام مقاصد کے حصول میں ناکامی جن کی خاطر ایرانی عوام پر جنگ مسلط کی گئی تهی اور ایک نہایت غیر منصفانہ جنگ میں مقابلہ کرتے ہوئے شہروں اور مقبوضہ علاقوں سے جارح افواج کا اخراج اور لشکر اسلام کی فتح و ظفر مندی کے ساته جنگ کا خاتمہ اپنے ساته فخر ومباہات اور خوشی کی نوید لایا تها ، لیکن جنگ بندی سے پہلے رونما ہونے والے واقعات اور سانحات ایسے المناک مسائل تهے جن سے امام خمینیؒ جیسے پاک طینت شخص تو درکنار جس نے امت مسلمہ کی بهلائی اور مفاد کی راہ میں اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو لوٹانے کیلئے اپنی عمر وقف کردی ، بلکہ ہر غیر تمند مسلمان کا دل داغدار ہوتا تها ۔ ان المناک سانحوں میں مندرجہ ذیل واقعات خاص طورپر قابل ذکر ہیں : حلبچہ پر عراقی طیاروں کی طرف سے کیمیائی ہتهیاروں سے حملہ اور حلبچہ کے عوام کا سفاکانہ قتل عام ، ایران کے رہائشی علاقوں پر بهرپور بمباری کے ذریعے بے گناہ افراد کا قتل عام ، نام نہاد اسلامی ممالک کی طرف سے امریکہ اور یورپی ممالک سے صدام کی حمایت کیلئے اپنے بحری بیٹروں کو خلیج فارس بهیجنے کی دعوت ، خلیج فارس کی فضا میں امریکی بحریہ کا ا یران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانا۔

امام خمینیؒ کو یہ دیکه کر بہت زیادہ تکلیف پہنچتی تهی کہ اسلامی ممالک پر حاکم بہت سی حکومتیں اپنے عوام کی خواہشات کے بر عکس اسلام کے ازلی دشمنوں کے ساته مل کر جارح ( صدام ) کی حمایت کر رہی ہیں ، امام خمینیؒ کو ان حمایتوں کے نقصان دہ اثرات واضح طورپر دکهائی دے رہے تهے ، اسی لئے آپؒ ؒ نے خاص طورپر کئی بار خبردار کیا تها کہ اسلامی حکومت سے مقابلہ کرکے اور بعثی حکام کو تقویت پہنچا کر نہ صرف عالم اسلام کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے بلکہ مستقبل قریب میں یہ حکومتیں خود اس سلگتے ہوئے انگارے کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائیں گے جسے انہوں نے خود خاکستر میں چهپا  رکهاہے۔ یہاںامام خمینیؒ کی حیرت انگیز پیش گوئی کا ایک نمونہ کویت پر صدام کے حملے سے آٹه سال     قبل ۱۶ مئی ۱۹۸۲ ء  کو کئے جانے والے ایک خطاب سے پیش کررہے ہیں جو اسی سال کیاب صحیفہ نور کی سولہویں جلد کے صفحہ ۱۵۰ پر چهپ چکی ہے ۔ امام ؒ نے اس دن صدام کے  حامی عرب ممالک و مخاطب قرار دتے ہوئے فرمایا تها : ’’ علاقے کی ان حکومتوں کو یاد رکهنا چاہئے کہ تم امریکہ یا کسی اور بلاک کی خاطر اپنے ہاتهوں اپنے آپؒ کو ہلاکت میں ڈال رہی ہو ، ہم نے ان حکومتوں کا باربار متنبہ کیا ہے کہ تم سپر طاقتوں کے آلہ ہائے کار ہو ۔۔۔۔۔ تم جان لوکہ اگرصدام کو جنگ کے اس دلدل سے نجات ملی گئی اور دوبارہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ ایسا شخص نہیں ہے کہ تم جیسوں کی قدر شناسی کرے ، صدام ایسا آدمی ہے جس کے سرمیں اپنے آپؒ کو بڑا سمجهنے کا جنون سوار ہے اور اسی جنون کی وجہ سے وہ تم لوگوں پر بهی حملہ کر ے گا جو اس وقت صدام کا ساته دے رہی ہو ‘‘ بالکل اسی طرح اس سے ایک سال پہلے امام ؒ نے آذر ۲ دسمبر ۱۹۸۱ء کے دن ایک خطاب میں خبردار کیا تها : ’’ میں علاقے کی تمام حکومتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم صدام کی پشت پناہی چهوڑ دو اور اس دن سے ڈرو جب خداوند متعال تم لوگوں پر اپنا غضب نازل کرے گا ‘‘۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ابهی اس مرد خدا کی رحلت سے قلیل عرصہ نہیں گذراتها کہ ایسا ہو کر رہ گیا ، وہی لوگ جو ایران کو جنگ پسند اور جارح صدام کو صلح پسند قرار دیتے تهے خود اسی جارح کی جارحیّت کا شکار ہوئے ، فرق یہ ہے کہ وہ ایرانی حکومت اور عوام کے برعکس فتنے کی آگ بجهانے کیلئے انہی لوگوں کی آغوش میںجا بیٹهے اور انہی ممالک سے مدد مانگی جو خود ان تمام فتنوں کا شعلہ ور کرنے والے اور ماضی و حال کی تمام جنگوں کی آگ بهڑکانے والے ہیں !!!

جنوبی لبنان پر اسرائیلی جارحیّت لبنان میں صہیونیوں کی مجرمانہ کاروائیوں نیز مقبوضہ فلسطین میں مسلمان فلسطینیوں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان کی طرف سے سفا کانہ جرائم کے ارتکاب پر مسلم حکومتوں کی خاموشی اور اس سے بدتر بعض عرب ممالک کا اسرائیل سے سازباز کی طرف رجحان اور قدس کی آزادی کے مقصد سے دستبرداری ، پیر جماران (امامؒ ) کے دل کو ٹهیس پہنچانے والی بعض دیگر تکلیفیں تهیں ، امام ؒ اپنی تحریک کی ابتدا سے ہی اسلامی سرزمینوں کو صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے اسرائیل اور اس کے اصل حامی امریکہ کو کوستے رہے اور اسی لئے ۱۴ سال تک جلا وطن رہے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بهی اس مقصد کی تکمیل کیلئے آپؒ ؒ نے کسی قسم کی مادی اور روحانی حمایت سے دریغ نہیں کیا ۔ امام ؒ مشاہدہ فرمارہے تهے کہ فلسطینی نوجوانوں کے اندر بیداری اور اسلام پسندی کے جذ بات موجزن ہو رہے ہیں ، عالم اسلام میں امریکہ اور اسرائیل کی مفادات کے خلاف فضا سازگار ہورہی ہے اور ان حالات میں اسلامی ممالک کے حکام اور فلسطینی تنظٰیموں کے سربراہ (اسرائیل کو) تسلیم کرنے کی دستاویز پر دستخط کرنے پر آمادہ ہورہے تهے ، یہ ایسے معاملے تهے جو امام ؒ کی روح پر جانگداز اثرات مرتب کررہے تهے لہذا ان آ خری سالوں میں امام ؒ کے اپنے رب کے ساته شبانہ راز ونیاز اور عجز و انکساری کا حصّہ یقینا انہی حالات کے شکوہ اور ان میں اصلاح کیلئے دعا و التجا پر مشتمل رہا ہو گا ۔

امام خمینیؒ کی طرف سے۲۸ مارچ ۱۹۸۹ء کو  جانشین رہبر کی بر طرفی ملکی سطح کے ناگوار واقعات میں سے ایک ہے، اسلامی نظام کے قائد اور قیادت کی صلاحیتوں کے تعین کیلئے مجلس خبرگان ( ماہرین کی کونسل) کا قیام ، امام خمینیؒ کی آراء کی بنیاد ر پر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں تجویز اور پهر منظور کئے جانے والے پیشرفتہ اصول میں سے ایک ہے ، خبرگان ایسے فقہا اور اہلیت رکهنے والے مجتہدین ہیں جوبراہ راست عوامی و و ٹوں سے منتخب ہوتے ہیں ، اس طرح عوام اپنی آراء سے منتخب ہونے والے ماہرین کے ذریعے اسلامی معاشرے کے سب سے اہم اور مقدر ساز معاملہ یعنی رہبر کے انتخاب میں شریک ہوکر کاروبار مملکت پر نگرانی رکه سکتے ہیں۔

پہلی مجلس خبرگان نے تیر ماہ موسم گرما۱۹۸۳ء میں ہونے والے اجلاس میں آیت اللہ منتظری کو قائد انقلاب کا جانشین منتخب کیا تها جو امام ؒ کے بلند پایہ شاگردون میں سے ہیں ، ان کا شمار ان مجتہدوں میں ہوتا ہے جو ۵ جون ۶۳ ء کی تحریک اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی حمایت کرتے ہوئے انقلابی عمل میں شریک رہے اور اس راہ میں انہوں نے آیت اللہ طالقانی  ؒ اور دیگر انقلابی علماء کے ساته شاہی حکومت کی طویل قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔

امام خمینیؒ نے آیت اللہ منتظری کے نام آخری خط میں ان کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے جانشین رہبر کے عہدے سے انہیں معزول کردیا اور اس نکتے کی تاکید کرتے ہوئے لکها کہ آپؒ ابتدا سے ہی مستقبل میں اسلامی نظام کے قائد کی حیثیت سے منتظری صاحب کے انتخاب کے مخالف ہونے کے علاوہ اس بهاری ، حساس اور مشکل ذمہ داری کو سنبهالنے کیلئے ان میں ضروری استعداد کی کمی محسوس کررہے تهے(20)۔

امام خمینی نے تاکید کے ساته اس خط میں لکها تها کہ اس وقت مجلس خبرگان کی طرف سے ’’ آیت اللہ منتظری ‘‘ کے انتخاب کے خلاف اپنا نقطہ نگاہ پیش نہ کرنے کا سبب مجلس خبرگان کے قانونی دائرۂ کار میں عدم مداخلت تها ۔ یہ نکتہ امام خمینیؒ کی اعلیٰ ترین انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اس لئے کہ آپؒ اسلامی حکومت کے قوانین اور عوامی رائے کا اتنا احترام کرتے کہ حساسترین مسائل میں بهی اپنی ذاتی رائے ٹهونسنے پر آمادہ نہیں ہوتے تهے ، درحالیکہ عوام اور سرکاری حکام کے درمیان آپؒ ؒ کی ہر دل عزیزی اور مقبولیت کی بنا پر اس طرح کی مداخلت کسی قسم کا مسئلہ پیدا نہیں کرسکتی تهی ۔ آگے چل کر ٍخط میں امام ؒ نے آیت اللہ منتظری سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے تاکید فرمایا تها کہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ گذشتہ غلطیوں کا ازالہ کریں اور اپنے گهر کو ناشائستہ لوگوں کے وجود سے پاک کرتے ہوئے حکومت مخالف لوگوں کی آمد ورفت بند کردیں تاکہ عوام ، حکومت اور حوزہ ٔ علمیہ ان کی فقہی آرا سے استفادہ کرسکیں ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ امام خمینی ؒ نے مجلس خبرگان کے انتخاب کے بعد جانشین قائد کے بارے میں نہ صرف اپنی مخالف رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ پوری قوت سے آیت اللہ منتظری کی پشت پناہی کرتے ہوئے کمزوروں کا ازالہ کیا اور رہبری کی حساس ذمہ داری کو نبهانے کیلئے تجربہ حاصل کرنے کی خاطر اہم معاملات ان کے سپرد کئے ، لیکن مع الاسف ’’ اس بهاری ذمہ داری کو نبهانے کیلئے ضروری صلاحیتوں کو فقدان‘‘ ایسی حقیقت تهی جس کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگے اور آیت اللہ منتظری کے گهر میں گهسے ہوئے ناپسندیدہ عناصر نے اس کمزوری سے فائدہ اٹهاتے ہوئے معاملہ یہاں تک پہنچایا دی اکہ امام ؒ کی حکیمانہ اور مشفقانہ نصیحتوں پر عمل ہونے نہیں دیاگیا ، بلکہ آیت اللہ منتظری اپنی سابقہ روش پر قائم رہے جبکہ ان ناپسندیدہ افراد نے ٹی وی پر اعتراف کرتے ہوئے اپنے داغدار ماضی اور ناپاک عزائم کو فاش کیا ۔ امام خمینیؒ نے خطوط کے ذریعے اور ملا قاتوں کے دوران کئی بار ان عناصر سے اپنے گهر کے ماحول کو پاک کرنے اور حکومت کے وفادار عہدیداروں کے ساته یک سوئی پیداکرنے کی نصیحت کے ذریعے ’’ آیت اللہ منتظری ‘‘ پر دباؤ ڈالا۔

اس معاملے کے باریک نکات اور امام خمینیؒ کی روح پر اس کے تلخ اثرات کو سمجهنے کیلئے نیز امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے اور اعلیٰ مقاصد کے مقابلے میں جذباتی اور ذاتی تعلقات کو نظر انداز کرنے سے متعلق آیت اللہ منتظری کوامامؒ کی تاکید کے سلسلے میں امام ؒ کے خط سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں جو ہمیں کسی قسم ی تشریح اور تجزیہ و تحلیل سے بے نیاز کردیتا ہے ۔ یہ خط انہوں نے ۱۱ اپریل ۱۹۸۹ء  کو مجلس شورائے اسلامی اور حکومتی کابینہ کے نام لکها تها : ’’ مجهے معلوم ہوا ہے کہ آپؒ لوگ آقائے منتظری کے معاملے سے ناواقف ہیں ، آپؒ کوپتا ہی نہیں کہ معاملہ کیا ہے ؟ تو یہی سمجه لیجئے کہ آپؒ کے اس بوڑهے باپ نے دو سال سے زیادہ عرصے میں اپنے بیانات اور پیغامات کے ذریعے سعی کی کہ بات یہاں پر ختم نہ ہو لیکن افسوس یہ ہے کہ میں اس مسئلے میں کامیاب نہ ہوسکا (21) دوسری جانب شرعی ذمہ داری کا تقاضا یہ تها کہ حکومت اور اسلام کے تحفظ کی خاطر ضروری فیصلہ کرلیا جائے لہذا خون دل کے ساته مجهے اپنی عمر کے حاصل ( منتظری) کو حکومت اوراسلام کے مفاد میں خیرباد کہنا پڑا (22) ‘‘ ۔

یوں اسلامی نظام کے مستقبل سے متعلق پیدا ہونے والی یہ پریشانی امام خمینیؒ کے باصلاحیت ہاتهوں سے دور ہوگئی ، یہ اتنا سخت معاملہ تها جس کا حل صرف آپؒ ؒ جیسی شخصیت ہی کرسکتی تهی ۔ امام خمینیؒ صرف دوسروں کے بارے میں اس طرح کے جملے نہیں فرماتے تهے کہ : ’’ انقلاب کسی گروہ کا مدیون نہی ہے ‘ ‘’’ میں نے کئی بار اعلان کیا ہے کہ میرا کسی کے ساته اخوت کا معاہدہ نہیں ہے ، چاہے وہ کسی بهی منصب پر فائز کیوں نہ ہو ‘‘ اور ’’ میری دوستی کی بنیادیں ، ہر شخص کی راہ کی درستی پر استوار ہیں ‘‘ بلکہ حوزۂ علمیہ کے نام اپنے مشہور پیغام میں امام نے ( اپنے بارے میں بهی ) لکهاتها : ’‘خدا بہتر جاناہے کہ میں ذاتی طورپر اپنے لئے ذرہ بهر تحفظ اور رعایتی حق کا قائل نہیں ہوں ، اگر مجه سے بهی کوئی خلاف ورزی ہوئی تو محاسبہ کیلئے تیار ہوں (23) ۔

جس طرح پہلے اشارہ کیا جاچکاہے کہ امام ؒ کی عمر کے آخری برسوں کے پیغامات اور خطابات سابقہ ادوار کے بیانات سے مختلف ہیں جو اپنی جگہ امام ؒ کی دور اندیشی اور اپنے بعد میں آنے والے زمانے سے متعلق ذمہ  داریوں کے احساس کی غمازی کرتے ہیں ۔ سابقہ ادوار کے بیانات اور پیغامات میں آپؒ عوام اور حکام کی روزمرہ معاشرتی مسائل کے بارے میں رہنمائی کے علاوہ ملک اور عالم اسلام کے مبتلابہ مسائل سے متعلق مواقف پر نگرانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ عمر کے آخری حصّے کے بیانات میں گذشتہ اور حال کے مسائل پر غور و فکر ، مستقبل کی منظر کسی اور آنے والے وقت کے مسائل کے تناظر میں مسلمانوں کے مجموعی فرائض کی تشریح نمایاں طور پر دکهائی دیتی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں امام ؒ کو احساس ہورہاتها کہ وہ اس دنیاسے جانے والے ہیں ، لہذا آخری ایام میں آپؒ کی سعی یہ تهی کہ اسلامی جمہوری نظام اور عالمی اسلامی انقلاب کی ترجیحات کو انہی امنگوں ، اغراض و مقاصد اور اقدار کے ڈهانچے پر استوار اور تشریح کریں جن کے حصول کیلئے اسلامی تحریک کی بنیاد ڈالی گئی تهی ۔

امام خمینیؒ نے ان پیغامات میں ایرانی معاشرہ اور عالم اسلام کے اندر پائی جانے والی طبقہ بندیوں کا جائزہ لے کر نیز معاصر دنیا پر مسلط اور حکم فرما نظاموں کو تجزیہ کرکے آنے والوں کے لئے انتخاب اور تشخیص کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی اور دور سے متعلق ہر طبقے کے فرائض بیان فرمائے جس میں آپؒ ؒ موجود نہیں ہوں گے ۔

امام خمینیؒ نے اپنے وصال سے چند سال پہلے ۱۵ فروری ۸۳ ۱۹ء کو انہی محرکات کے تحت تفصیل سے اپنا سیاسی الٰہی وصیت نامہ لکها ، یہ وصیت نامہ امام ؒ کا زندۂ جاوید پیغام ، آپؒ کے بنیادی افکار اور امنگوں کا ترجمان اور رہتی دنیا تک آپؒ کے پیروکاروں کے لئے رہنما اصول ثابت ہوگا ، وصیت نامے کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوگیاہے (24) ۔ ایسی کیفیت اورپہلوؤں کے حامل وصیت نامے کی تحریر اپنی جگہ شیعہ فقہا اور مراجع تقلید کے درمیان ایک بے مثال کارنامہ ہے ، اس کے علاوہ یہ اسلامی معاشروں کی موجودہ اور آئندہ زمانے کی ضرورتوں کے بارے میں امام ؒ کی گہری شناخت اور اس سلسلے میں آپؒ کے احساس ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

امام خمینیؒ نے اپنے وصیت نامے میں جن ا قدار کا دفاع کیا اور جن سیاسی مسائل کا بیان کیاہے ، آپؒ ؒ کے آخری پیغامات درحقیقت ان کی تشریح و تفسیر ہے ۔ امام ؒ کی یہ تاکید کہ مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں پائے جانے والے دوقسم کے مفاہیم کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے ، امام ؒ کے آخری پیغامات کی خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ بے شمار تاریخی شواہد کی بنیاد پر امام ؒ کو یقین تها کہ اسلام اور دوسرے آسمانی مذاہب کو ابتدائی صدیوں سے لے کر آج تک ہر دور میں دو مکمل متضاد صورتوں میں پیش کیا گیا ہے : ایک طر ف ایسا تحریف شدہ دین اور اسلام ہے جس پر حاکم ظالموں اور استعماری طاقتوں کا غلبہ ہے ، ایسا دین جهوٹے اور نام نہاد ملاؤں کے ذریعے جعل اور پیش کیا جاتاہے ۔ دوسری طرف وہ دین اور حقیقی وخالص اسلام ہے جو مجاہدین کے لہو کا نذرانہ دے کر اور ذمہ دار علمائے دین کی مسلسل جد وجہد سے پوری تاریخ میں ہر قسم کی شعبدہ بازیوں ، خرافات اور تحریفات کی گزند سے محفوظ رہاہے ۔ اسلامی معاشرے کو متحرک کرتے ہوئے تحریکی عمل کیلئے آمدہ کرنے میں امام خمینیؒ کی کامیابی کا راز، مذکورہ دو نظرئیوں کے مسلسل تقابل اور دونوں کی خصوصیات بیان کرنے میں پوشیدہ ہے ۔

امام خمینی ؒ کی رائے یہ تهی کہ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کرنے اور اس کی عدم شناخت کی وجہ سے اسلامی ممالک میں استعمار کا نفوذ ہوا ور مسلمان اپنی شہرۂ آفاق تہذیب و ثقافت سے دور اور بالآخر موجودہ حالت سے دچار ہوئے ، چنانچہ اسلامی حکومتوں کو زندہ رہنے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اسلام دشمن طاقتوں اور کفار و مشرکین کی طرف ہاته پهیلا نا پڑرہا ہے جب کہ ان ممالک کے عوام کے آبا و اجداد کسی زمانے میں یہ نعرے لگاتے تهے : ’’ الاسلام یعلو ولا یعلیٰ علیہ ‘‘ (25) ( اسلام سربلندہوتا ہے اور اس پر کسی اور مکتب کو فکر کو بالادستی حاصل نہیں ہوتی ) ’’ و لن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا ‘‘(26) (اور اللہ کافروں کیلئے مؤمنین پر ( برتری حاصل کرنے کی) کوئی راہ نہیں چهوڑتا) ‘‘ ۔

امام خمینی ؒ اسلام کے دو مختلف مفاہیم کو آج کے دور میں ’’ خالص (حقیقی) اسلام ‘‘ اور ’’ امریکی اسلام ‘‘‘ سے تعبیر فرماتے تے ، آپؒ ؒ کا نظریہ یہ تها کہ وہ اسلام جس میں معاشرتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت نبویؐ کے مسلمہ احکام کو نظر انداز کیا جائے ، جہاد ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور اسلامی معاشرے میں معاشرتی اور اقتصادی تعلقات سے چشم پوشی کی جائے مسلمانوں کو سیاست میں حصّہ لینے اور اپنے مقدر کے فیصلے سے روکا جائے اور دین کو صرف بعض انفرادی اور اد و اذکار اور عبادتون میں منحصر کرلیاجائے ، اس قسم کا اسلام ، امریکہ اور اس سے وابستہ لوگوں کا ساختہ و پرداختہ ہے ۔

امام ؒ اپنے اس نظریئے کے تجزیہ و تحلیل کیلئے تاریخی شواہد اور اسلامی ممالک میں پائے جانے والے حالات کی زندہ مثالیں دیتے تهے ، آپؒ کا خیال یہ تهاکہ جدید استعمار ، گذشتہ ادوار کی استعماری طاقتوں کی کو ششوں کا نتیجہ ہے ، استعماری طاقتیں میشنری اداروں اور عیسائی مبلغین کے ذریعے مسلمان قوم کے مذہب تبدیل کرنے پر مبنی اپنی گذشتہ کوششوں میں ناکامی سے دچار ہوئیں اسی لئے اس وقت سے لے کر آج تک وہ اسلام کے ترقی یافتہ احکام کو جهٹلانے اور دین کو اندر سے کهوکهلا کر نے کیلئے اپنی مساعی مبذول کررہی ہیں جس کا نتیجہ بهی مکمل طور پر ہمارے سامنے ہے یعنی آج اکثر اسلامی ممالک کی قانون سازی کا نظام ، ملکی قوانین ، عدالتی طریقہ کار، نظام حکومت اور سیاسی و معاشرتی قوانین مغرب کے غیر دینی قوانین اور طریقوں سے مستعار لئے گئے ہیں جو اصول اور ماہیت کے اعتبار سے وحی کے سر چشمے سے جاری ہونے والے قوانین ( شریعت) کے ساته مطابقت نہیں رکهتے ۔ یہ امریکی اسلام ہے جو مغربی ثقافت اور اس کے برے اوربیہودہ اثرات کو اسلامی معاشروں کی بنیادوں میں سرایت کرنے کی اجازت دیتے ہوئے مسلمانوں کی حیثیت اور نسل کی جڑوں کو کهوکهلا کر رہا ہے ۔ امریکی اسلام کی آڑ لے کر اغیار سے وابستہ حکومتیں برسراقتدارآتی ہے اور اسلام کا نام لے کر حقیقی مسلمانوں سے مقابلہ  کرتی ہیں ، جبکہ اسرائیل اور امریکی جیسے اسلام دشمنوں کے سامنے وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے دوستی کا دم بهرتی ہیں ۔

امام خمینیؒ اپنے آخری پیغامات میں زیادہ صراحت کے ساته اس حقیقت پر تاکید فرماتے نظر آتے ہیں کہ موجودہ دور کی گتهیوں کو سلجهانے کیلئے انسانیّت کے سامنے واحد راستہ دین اور دینی نظریات کی طرف پلٹنے کے دور میں داخل ہونا ، اسلامی ممالک کی موجودہ افسوسناک حالت سے نجات پانے کی واحد راہ حل ان کا حقیقی اسلام اور اپنے مستقل اسلامی تشخص کی طرف رجوع ہے ۔

 

امام خمینیؒ کے نظریات ، امنگوں اور اہداف پر ایک نظر

یہ کتابچہ امام خمینیؒ کی زندگی کا تاریخی سفر طے کرتے ہوئے آپ ؒ کی عمر کے آخری ایام تک پہنچا ہے ، بجاہے کہ ہم یہاں سرسری طورپر سہی امام ؒ کے افکار اور امنگوں کے اہم ترین پہلوؤں کو اجاگر کریں ، (27)، یہ مسلمہ امر ہے کہ امام ؒ کے نظریاتی اصول اور اغراض و مقاصد کا واضح اور مکمل خامکہ وضع کرنا ، آپؒ کی تمام قلمی تصانیف اور غیرقلمی آثار کے مطالعہ اور آپؒ کی علمی سیرت پر غور کئے بغیر ناممکن ہے، امام خمینیؒ ایک شیعہ مسلمان تهے اور ( فرقہ وارانہ نظریات سے ہٹ کر ) سامراج اور اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے امت مسلمہ کے اتحاد پر مکمل یقین رکهتے تهے ۔ اتحاد کی دعوت امام ؒ کے پیغامات اور خطابات کے ایک اہم حصّے پر مشتمل ہے ۔ امام ؒ ایسی کسی قسم کی حرکت کو ناجائز سمجهتے تهے جو مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ اور سامراجی طاقتوں کے فائدہ اور تسلط کا باعث ہو ۔ آپؒ ؒ منفرد فتاوی ٰ صادر کرتے ہوئے ، نیز عید میلاد النبیؐ کے موقع پر عالم اسلام کو ہفتۂ وحدت مسلمین منانے کی اپیل اور مسلسل پیغامات و بیانات کے اجرا کے ذریعے شیعہ سنی اتحاد کی عملی راہوں کا تعین فرماتے رہتے تهے ، امام ؒ اپنی زعامت و قیادت کے تمام عرصے میں ایسی کوششوں کی حوصلہ شکنی کیلئے تیار رہتے تهے جو شیعہ اور سنی فرقوں کے در میان فترقہ و انتشار اور تنازعے پر منتج ہوں۔

امام خمینیؒ کا نظریہ تها کہ ایک ہی خدا اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ؐ کی نبوت پر ایمان ، ابدی منشور ہدایت کی حیثیت سے قرآن مجید پر اعتقاد ، دینی احکام ، شعائر و ضروریات دین ، مثلا نماز ، روزہ ، زکات، حج اور جہاد وغیرہ پر عقیدہ ، مشرکین اور دین مخالف طاقتوں کے سامنے تمام اسلامی فرقوں کے پیرو کاروں کی عملی وحدت کے بنیادی ستون ہیں ۔

امام ؒ کی اصلاحی تحریک اور پیغامات صرف ایرانی معاشرہ اور دیگر اسلامی معاشروں تک محدود نہیں تهے ، آپؒ ؒ یقین رکهتے تهے کہ انسانوں کی فطرت میں توحید ، نیکی ، حق پرستی اور انصاف پسندی کے رجحانات رچے بسے ہوئے ہیں ، لہذا اگر عمومی آگہی اور شناخت میں اضافہ ہوجائے ، نیز نفسانی خواہشات کے شیطان اور بیرونی شیطان کو لگام دے کر انہیں کمزور کردیا جائے تو انسانی معاشرے کے افراد خدا پرستی کی راہ پر گامزن ہو کر ، عدل و انصاف اور صلح و آشتی سے مالا مال ماحول میں زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ اس حقیقت کو مد نظر رکه کر امام خمینی ؒ عام پیغامات میں مستضعفین اور قید و بند میں مبتلا تیسری دنیا کے ممالک کو استکبار ی طاقتوں کے خلاف اٹه کهڑے ہونے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔ آپؒ ؒ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ایام میں علنیہ طورپر طور پر مستضعفین کی عالمی پارٹی کے قیام کی تجویز اور حمایت کی، امام ؒ کی رہبری کے دور میں ہی آزادی کی تحریکوں کی پہلی بین الاقوامی کانفرنسیں اور ایران میں منعقد ہوئیں ۔

امام خمینی نے کئی بار زور دے کر فرمایا تها کہ اسلامی انقلاب ، امریکہ ، مغرب اور سابقہ سوویت یونین کے سربراہوں اور حکومتوں کا مخالف ہے ، ان ممالک کے عوام کا نہیں جو خود جدید استعمار کی بهینٹ چڑه رہے ہیں ۔ امام خمینیؒ ظالم سے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کیلئے آواز بلند کرتے ہوئے فرماتے تهے : ’’ ہم نہ کسی پرظلم کرتے اور نہ کسی کا ظلم سہتے ہیں (28) ۔

بہتر یہ ہے کہ امام خمینیؒ کی اہم ترین نظریاتی بنیادوں کے بارے میں روزنامہ ٹائمز لندن کے نامہ نگار کے جواب کا ا قتباس بعینہ نقل کریں ، جس نے امام ؒ کے عقائد سے متعلق پوچها تها ۔ امام ؒ نے اس کے جوب میں فرمایا تها :

’’ میرا اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ وہی ہے جو قرآن مجید میں ارشاد ہواہے یاپیغمبر اسلامؐ اور آپؐ کے بعد آنے والے پیشوایان بر حق نے بیان فرمایا ہے جو اس طرح سے ہے : ان تمام عقائد کی جڑ اور بنیاد ہمارا بہترین اور سب سے زیادہ گرانبہا عقیدہ ، عقیدۂ توحید ہے ، اس بنیادی عقیدے کے تحت ہم ایمان رکهتے ہیں کہ دنیا سمیت تمام عوالم وجود اور انسانوں کی خالق اور پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات ہے جو تمام حقائق کا علم رکهتی ہے ، اللہ ہر شے پر قدرت رکهتا اور سب کا مالک ہے ، یہ بنیادی عقیدہ ہمیں درس دیتاہے کہ انسان کو صرف حق تعالیٰ کی مقدس ذات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے اور کسی انسان کی فرمانبرداری نہیں کرنی چاہئے مگر یہ کہ اس کی اطاعت خداکی اطاعت کے مترادف ہو۔ اس بنا پر کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے انسانوں کو اپنے سامنے جهکنے پر مجبور کرے ، ہم اس بنیادی عقیدے سے انسانی آزادی کے اصول سیکهتے ہیں جن کے تحت کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی انسان ، معاشرہ یا قوم کو آزادی کے حق سے محروم کرے، اس کیلئے قانون وضع کرے ، اس کے کردار اور روابط کو اپنے فہم و شناخت کے مطابق جو بہت زیادہ ناقص ہے یا اپنی خواہشات اور رجحانات کے تحت منظم کرے ، اس اصول کے تحت ہمارا نظریہ بهی یہی ہے کہ ترقی و پیشرفت کیلئے قانون سازی کا اختیار ، خدا تعالیٰ کو حاصل ہے ، جس طرح عالم وجود اور خلقت کے قوانین بهی خدانے مقرر کئے ہیں ۔ انسان اور معاشروں کی سعادت اور کمال صرف قوانین الٰہی کی پابندی میں مضمر ہیں جو انبیاء ؑ کے ذریعے انسانوں تک پہنچائے گئے ہیں ۔ انسان اس وقت زوال اور سقوط سے دچار ہوتا ہے جب اس کی آزادی کا حق چهین لیا جائے یا اسے دوسرے انسانوں کے سامنے جهکنے پر مجبور کیا جائے ، لہذا اس کو چاہئے کہ وہ بندشوں اور قیدوبند کی زنجیر وں کو توڑ کر اور ان لوگوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے  ہوئے جو قید وبند کی طرف بلاتے ہیں ،اپنی ذات اور اپنے معاشرے کو رہائی دلا دے تاکہ سب کے سب خداکے فرمانبردار بندے بنیں ، اسی راہ پر گامزن ہو کر آمر و جابر اور استعماری طاقتوں کے خلاف ہمارے معاشرتی قواعد و ضوابط کا آغاز ہوتا ہے ، اس کے علاوہ توحید کے اس بنیادی عقیدے سے ہم یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام انسان برابر ہیں، وہی سب کا خالق ہے اور سب اسی کے مخلوق اور بندے ہیں یعنی انسانوں کی برابری و مساوات کے اصول اور یہ کہ ایک فرد کا دوسرے فرد کی نسبت فرق کا معیار اور بنیاد پاکیزگی ، انحرافی اور غلطیوں سے پاک و منزہ ہونے پر مبنی ہے ، لہذا ہر اس شئے کے خلاف مقابلہ کرنا چاہیئے جو معاشرے میں مساوات کو درہم برہم کرنے اور کهوکهلے اور بے جا امتیازی سلوک کو رواج دے (29) ۔

امام خمینی ؒ فرماتے تهے : ’’ اسلام میں خوشنودی کا معیار صرف خداکی خوشنودی ہے، شخصیات کی نہیں،  ہم شخصیات کو حق کے ترازو میں تولتے ہیں ، حق کو شخصیات  کے ترازو میں نہیں ، اصل معیار حق اور حقیقت ہے (30) ‘‘

امام ؒ سمجهتے تهے کہ انسانوں کی فطرت ، مطلق عشق و کمال میں گوندی ہوئی ہے جو ذات باری تعالیٰ میں منحصر ہے اور وہی تمام کمالات اور توانائیوں کا سرچشمہ ہے ۔ امام ؒ ہمیشہ اپنے عقیدتمندوں کو یاد دہانی فرماتے تهے کہ ’’ عالم خداکی بار گاہ ہے ، خداکی بارگاہ میں گناہ نہ کرو (31) ‘‘ خداکے سوا کسی اور سے نہ ڈرو ، خداکے سوا کسی اور سے آس نہ لگاؤ (32) ‘‘ ۔

امام خمینی ؒ کی نظر میں انبیاء ؑ کی بعثت کا فلسفہ ، انسانوں کی اللہ کی معرفت کی طرف ہدایت، انسان کی کمال پسند توانائیوں کو بروئے کار لانے، ظلمتوں کی نفی، معاشرے کی اصلاح اور عدل و انصاف کے قیام میں مضمر ہے ۔ آپ  ؒکافرمان ہے : ’’ انبیاٗ ؑ اس لئے مبعو ث ہوئے ہیں تاکہ وہ لوگوں کے اخلاق، انفاس ارواح اور اجسام کو ظلمتوں سے نجات دلائیں، اندهیرں کو مکمل طور پر مٹاکر اس کی جگہ روشنی پهیلائیں (33) ایک اور جگہ امام ؒ نے فرمایا ہے : ’ حق تعالیٰ کے علاوہ باقی اشیا نور نہیں ، سب ظلمتیں ہیں (34) ‘‘

امام خمینی ؒ اسلام کو تمام آسمانی ادیان کو آخری دین اور سب سے بلند پایہ اور جامع مکتب فکر سمجهے تهے ۔ آپ ؒنے زور دے کر فرمایاہے: ’’اسلام تہذیب کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہے ‘‘ اسلامی قوانین ، ترقی یافتہ ، کامل اور جامع قوانین ہیں (35) ’’ اسلام میں ایک ہی قانون ہے اور وہ قانون الٰہی(36) ‘‘ آپؒ ؒ اسلام کو عبادت اور سیاست کا دین سمجهتے ہوئے فرماتے تهے : ’’ اسلام اپنی جگہ دنیا کی عظیم تہذیب کے بانیون میں سے ایک ہے (37) ‘‘ امام ؒ اپنے عقیدتمندوں پر تاکید فرماتے تهے کہ ’’ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قرآن مجید اور اسلام کے حیات آفرین دستور کو غلط اور منحرف کرنے والے مکاتب فکر سے جوانسانی فکر کی پیداوار ہیں خلط ملط کر بیٹهو (38) ایک مقام پر آپؒ ؒ نے فرمایا ہے : ’’ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کو چهوڑ کر دوسروں کے پرچم تلے جمع ہوگئے ہیں(39) حضرت امام ؒ کا فرمان ہے : شیعیت جو ایک انقلابی مکتب فکر اور پیغمبر اکرام ؐ سچے اسلام کا تسلسل ہے خو د، شیعوں کی طرح ہمیشہ جابر و آمر اورا ستعاری طاقتوں کے بزدلانہ حملوں کی زد میں ہی ہے (40) ‘‘ ۔

امام ؒ نے اپنے جہادی عمل اور تحریک کے مقاصد و محرکات کے بارے میں متعدد بار تاکید کے ساته فرمایا تها : ’’ ہمارا سارا مقصد اسلام ہے (41) ‘‘ امام خمینی ؒ ،اسلامی انقلاب کو عاشورا کے دن رونما ہونے والے حضرت امام حسین ؑ کے زندہ جاوید انقلاب کی جهلک سمجهتے تهے جو ظالم تحریف کرنے والی طاقتوں کے جنگل سے دین کو رہائی دلانے کے لئے بر پاہوا تها ۔

آپؒ تاکید کے ساته فرمایا کرتے تهے : ’’ اسلام کسی خاص قوم کا نہیں ہے ، اسلام میں ترک و فارس اور عرب و عجم کو ئی مفہوم نہیں رکهتا، اسلام سب کا ہے اور اس ( اسلامی) نظام میں نسل ، رنگ ، قبیلہ اور زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے (42)، سب آپس میں بهائی بهائی اور برابرہیں ، عزت صرف اور صرف تقویٰ کے سائے میں ملتی ہے اور  برتری اخلاق حسنہ اور نیک اعمال سے حاصل ہوتی ہے (43) ‘‘۔

امام خمینی ؒ خداکی راہ میں شہادت کو قائم و دائم رہنے والی عزت ، اولیا کا فخر ،سعادت کی کنجی اور کامیابی کا راز قرار دیتے اور شہادت طلبی کے جذبے کوعشق الہی کا نتیجہ سمجهتے ہوئے ، شہادت کی اہمیت اور صفت ان الفاظ میں بیان فرماتے تهے : ’’ دنیا پرست اور بے خبر لوگ کتنے غافل ہیں جو شہادت کی اہمیت کو طبیعت کے صفحات میں ڈهونڈرہے ہیں اور اس کی تعریف ، ترانوں ، رزمیہ کلام اور اشعار میں جستجو کررہے ہیںاور اسکے انکشاف کے لئے تخیلاتی فنون اورمعقولات کی کتابوں سے مددمانگ رہے ہیں ، جبکہ اس پہیلی کوعشق کے سوا کی اور چیز کی مدد سے نہیں بوجه سکتے (44) ‘‘ آپؒ ؒ ایسی منطق کے ساته گفتگو فرماتے تهے : ’’ میں آپؒ مؤمن بهائیوں سے عرض کرتا ہوں : اگر ہم امریکہ اورروس کے مجرمانہ ہاتهوں صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور سرخ خون کے ساته عزت سے اپنے پروردگار سے ملا قات کریں تو ہمارے لئے بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم مشرق کے سرخ پرچم یامغرب کے سیاہ جهنڈے تلے ایک خوشحال امیرانہ زندگی گذاریں(45) ‘‘۔

امام خمینیؒ ایک الٰہی فلسفی ، عارف ربانی ، اصولی فقیہ اور عوام کے مرجع تقلید ہونے کے ساته ساته اسلامی انقلاب کے قائد اور ایران میں اسلامی جمہوریہ کے بانی تهے ، آپ ؒ مغربی فلسفے کے بنیادی اصول سے واقف اور اسلامی منطق و فلسفہ کے مشائی اور شراقی دونوں مسالک کے بنیاداصول اور موضوعات بحث پر مکمل دسترس رکهتے تهے ، اس سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید امام ؒ کا فلسفی نقطۂ نگاہ کچه حد تک شہودی اور اشراقی فلسفے کی طرف مائل اور کچه فرق اور اختلاف کے ساته متألّہ فلسفی مرحوم ملا صدرا شیرازی کے تلفیقی مسلک سے مشابہ تها ۔ آپؒ نے پندرہ سال سے زیادہ مدت تک فکسفے کے اعلیٰ متون کی تدریس کی تهی ۔ امام ؒ کی نظر میں فکسفہ عالم ہستی اور مخلوقات کے مقامات اور مراحل کی شناخت سے متعلق ایک راہ ہے اسی لئے ہستی کی حقیقت ، وحدت وجود اور اس کے مقامات سے  متعلق آپ  ؒ ؒ کا فلسفی نطقۂ نگاہ عرفانی مکتب فکر سے زیادہ متأثر تها ۔

امام خمینی ؒ کا عرفان و سلوک ، قرآنی آیات، بزرگان دین کی احادیث ، اولیائے خداکی کامل تعلیمات اور اسلام کی شریعت مقدسہ کے ڈهانچے پر استوار تها ۔ آپؒ  منفی تصوف کے شدید مخالف تهے جو دین و آئین کو صرف ذکر و رد میں منحصر کرکے گوشہ نشینی اختیار کرنے ، نیز سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنے کو فروغ دیتا ہے ۔ آپ ؒ کی رائے میں خود شناسی (معرفت ذات ) خدا شناسی ( معرفت رب) کا زینہ ہے ، اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے انسانی نفوس کی پاکیزگی اور فضائل کسب کرنا ، حق کی شناخت حاصل کرنے کے لئے ضروری شرط ہے ۔ حقیقی معرفت کاحصول اور اعلیٰ روحانی منزلوں تک رسائی اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک ہم اس راہ پر نہ چلیں جس کی طرف انبیائے کرام ؑ اور زمین پراللہ تعالیٰ کی حجتوں نے راہنمائی کیااور انہوں نے اسی راہ کو طے بهی کیاہے ۔ امام خمینیؒ ان طور طریقوں اورریاضتوں کو جائز نہیں سمجهتے تهے جوشریعت مقدسہ اوردینی احکام کے دائرے سے باہر ہوں ، اسی طرح آپؒ ظاہری شرافت ،تقدس فروشی اور دکهاوے کے عرفان سے بهی متنفرتهے ۔

امام  ؒ کا خیال تها کہ جہاد اکبر کے خطرناک معرکے کو سر کرنے ، سیر و سلوک کی راہوں پر چل پڑنے اور اسفار اربعہ کی وادیوں میں سفر کرنے کے لئے پیشہ ور اور جهوٹے دعویداروں کی نہیں بلکہ حقیقی مرشدوں اور اصلی صاحبان کشف و کرامت کی مدد سے ولایت عظمیٰ کا دامن تهامنا چاہئے جو نجات کی کشتی ہے اور جو بهی اس طریقے کے علاوہ کسی اور ذریعے کا سہا را لے گا ، اس کا ماحصل ، ضلالت او ر گمراہی کے سوا کچه بهی نہیں ہوگا ۔ امام خمینی ؒ کی تزکیہ شدہ نفس ، اعلیٰ روح اور آپؒ کا روحانی سیروسلوک کے مختلف عملی مراحل کو طے کرنا،اس حقیقت کی بہترین دلیل ہے ۔ امام ؒ سیروسلوک کی راہ میں روحانی منزلوں اورشہودی شناخت کے اس درجے پر فائز ہو کر ’’ فنا فی اللہ ‘‘ ہو گئے تهے ، جس پر پہنچ کر آپؒ حلاج جیسے لوگوں کے دعوائے ’’ انا الحق ‘‘ پر برہم ہوتے تهے ، وہ اس لئے نہیں کہ روح عرفان سے عاری ، سادہ اندیش افراد نے حلاج کی تکفیر کی تهی بلکہ اس وجہ سے کہ اگرچہ حلاج کو عالم وجود میں حق کے سوا کچه بهی نظر نہ آتا تها ، اس کے باوجود وہ انائیت کو حق تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے واسطہ قرار دیتے تهے جب کہ امام ؒ کی نظر میں صرف اللہ تعالیٰ ہی نور ہے اور اس کے سوا بقی سب کچه ظلمت ہے ۔ظلمت نور کا عدم ہے اور عدم کا کوئی وجود نہیں ہوتا ، جب کہ ہستی مکمل طور پر حق کا جلوہ ہونے کے ساته حق کے سوا کچه بهی نہیں ہے ۔

فلسفہ ، عرفان و سلوک ، تفسیر قرآن ، اخلاقیات اور علم کلام اسلا می پر گہرا دسترس رکهنے کے علاوہ امام خمینیؒ فقہ اور اصول فقہ میں ایک بلند پایہ مجتہد تهے ، تیس سال سے زیادہ عرصے تک  وہ اعلیٰ پیمانے پر فقہ اور اصول فقہ پڑهاتے رہے تهے ، آپؒ ؒ کی تصنیف کردہ متعدد فقہی اور اصولی کتابوں کے علاوہ اس وقت آپؒ ؒ کے بیسیوں حلقہ ہائے درس اور لیکچرز موجود ہیں جنہیں آپؒ ؒ کے شاگردوں نے ضبط تحریر میں لایا ہے (46) ۔ امام خمینی ؒ کے فقہی مکتب کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپؒ ؒ ، فقہ اور اصول فقہ کے لئے علیحدہ بنیادی اصول کے قائل تهے اور فقہی احکام کا استنباط کرتے وقت کلامی ، فلسفی اور عرفانی مطالب کی آمیزش سے احتراز کرتے تهے ۔ امام ؒ علم فقہ اور اصول فقہ کے فروغ کو نظریۂ اجتہاد کے لئے ضروری سمجهتے تهے ۔  امام خمینی ؒ پختہ یقین رکهتے تهے کہ وقت اور مقام کے عناصر اجتہادی عمل میں نہایت اہم کردار کے حامل ہیں اور ان دو عناصر کو نظر انداز کرنے سے جدید مسائل اور عصری تقاضوں کی سمجه اور ان کی جوابدہی میں مشکلات پیش آتی ہیں ، درعین حال فقہ کے فروغ سے آپ ؒ کا مطلب استنباط اور اجتہاد کی مروجہ روز کو غیر مستحکم کرنا ہر گز نہیں تها ، اسی لئے آپؒ ؒ اصرار کرتے تهے کہ حوزہ ہائے علمیہ کو احکام کے استنباط میں فقہاء کے نیک اسلاف کے طریقوں اور ان کی راہ و روش پر مبنی روایتی علم فقہ پر کاربند رہنا چاہئے ، کیونکہ آپؒ ؒ اس روش سے روگردانی کو بدعتوں کا پیش خیمہ ، ایک بڑی آفت اور خطرہ سمجهتے تهے (47) امام خمینی ؒ انہی بنیادون پر حوزہ ہائے علمیہ کی اصلاح اور ان میں دگرگونیاں پید اکرنے کی خواہش رکهنے والے علمبرداروں میں سے ایک تهے۔ آپؒ نے انقلابی فتاویٰ صادر کرتے ہوئے مجتہدوں کے زاویہ ہائے نگاہ میں تبدیلی کے لئے راہ ہموار کی اور معاشرے کے حیات آفرین اور بنیادی مسائل کی طرف ان کی راہنمائی کی ۔ امام خمینیؒ نے فقہ کے ان ابواب کو زندہ کرنے کے لئے فضا ساز گار کی جو طاق نسیان میں رکهے گئے تهے ۔ اس کے علاوہ آپ ؒ نے عملی طور پر اجتہادمیں وقت اور مقام کے دو ناگریز عناصر کے عمل دخل کو ثابت کیا (48) ۔

امام ؒ فرماتے تهے : ’’ حقیقی مجتہد کی نظر میں حکومت سے مراد انسانی زندگی کے تمام پہلوؤ ں میں مکمل طور پر فقہ کو نافذکرنے سے عبارت ہے ۔ حکومت ، تمام معاشرتی ، سیاسی ، عسکری اور ثقافتی مسائل سے متعلق فقہ کے عملی پہلو کی نشاندہی کرتی ہے ، فقہ گہوارے سے قبر تک انسانی زندگی کے معاملات کے نظم و نسق چلانے کا حقیقی اور  مکمل نظریئے کا نام ہے (49) ‘‘ ۔

اسی نظریئے کے تحت  آپؒ ؒ نے ’’ غیبت اما م زمانہ ؑ کے دور میں ولایت فقیہ کی بنیادوںپر اسلامی حکومت کی تشکیل ‘‘ کا نظریہ پیش کیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے کئی سال تک جد وجہد کرتے رہے ۔ ولی فقیہ کے دائرۂ اختیار سے متعلق پائے جانے والے اختلاف رائے سے ہٹ کر مموعی طور پر نظریۂ ولایت فقیہ پر تمام شیعہ فقہا میں اتفاق رائے پایاجاتاہے ، لیکن ماضی میں حالات ساز گار نہ ہونے کی بنا پر اس نظریئے کے مختلف پہلوؤ ں پر تفصیلی بحث نہ ہو سکی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا موقع کبهی فراہم نہیں ہوسکا ۔ اس طرح امام خمینیؒ صدیوں کے بعد جامع الشرائط مجتہد کی قیادت میں دینی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہونے والے پہلے مجتہد ہیں ۔ (مجتہد کے لئے ضروری ) بعض شرائط یہ ہے ہیں : ’’ تزکیہ نفس ، نفسانی خواہشات پر قابو پانا ، تدبیر امور اور معاشرے کے نظم و نسق چلانے کے لئے ضروری سوجه بوجه صلاحیت اور مہارت ، شجاعت ،عدل و انصاف ،احکام الٰہی کی گہری شناخت اور مجتہد ہونا ۔ امام خمینی ؒ کا فرمان ہے : ’’اسلامی حکومت سے مراد عوام پر قوانین الٰہی کی حکومت ہے (50) ‘‘ ۔

امام ؒ کے نقطہ ناگاہ سے اغراض و مقاصد اورامنگوں میں پائے جانے والے اختلافات سے قطع نظر ، اداروں اور بنیادی ڈهانچے کے اعتبار سے بهی اسلامی حکومت اور معاصر سیاسی نظاموں کے درمیان بنیادی فرق پایا جاتا ہے ۔ اس نظریئے میں اکثریت کو حق کی بنیاد پر قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، اسی لئے ضروری شرائط مکمل ہونے پر ولایت کا نفاذ واجب ہو جا تا ہے ، چنانچہ عوام کی عام منظوری ان میں سے شرط ہے جو مروجہ طریقوں کی بنیاد پر براہ راست چناؤ یا قوم کی طرف سے منتخب ہونے والے خبرگان (ماہرین) کے ذریعے سامنے آتی ہے (51)َ

ْٰقیادت اور اسلامی حکومت کا عوام کے ساته رابطہ فطرتاً ایک گہرا اور اعتقادی رابطہ ہے ۔ اسی وجہ سے امام خمینیؒ نے ایک خالص عوامی  حکومت کی بنیاد ڈال کر اس کی قیادت کی ۔ دنیا میں پائے جانے والے تمام سیاسی نظاموں کے برعکس اس حکومت میں قائد کے انتخاب اور انتخابات کے انعقاد کے بعد عوام کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوجاتیں اور انہیں اپنے آپؒ پر نہیں چهو ڑا جا تا بلکہ ایک شرعی فریضے کے طورپر اسلامی معاشرے کے نظم و نسق سے متعلق شعبوں میں ان کی موجودگی اور اسلامی حکومت کے مقدرات میں حصّہ دار بننے کی ضمانت دی جاتی ہے ۔ امام خمینی ؒکی نظر میں اسلامی حکومت کی بنیادیں عوام اور صالح قائد کے دو طرفہ پیار و محبت اور آپس کے اعتماد پر استوار ہیں ۔ چنانچہ آپؒ ؒ نے فرمایا ہے : ’’ اگر کوئی فقیہ کسی مرحلے پر آمیرت کا مظاہرہ کرتا ہے تو ولایت کے مقام سے ساقط ہو جاتاہے(52) ‘‘ آسمانی مذاہب اور عظیم دین اسلام میں قائد اور قیادت ایسی شے نہیں ہے جس کی بذات خود کوئی اہمیت ہو اور خدا نخواستہ وہ انسان کے نادر غرور اور بڑائی کی سوچ پیدا کرسکے (53) ۔ اسی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکه کر امام خمینی ؒ فرماتے تهے : ’’ اگر مجهے خادم کہیں تو اس سے بہتر ہے کہ وہ مجهے قائد کہیں ، قیادت کوئی مسئلہ نہیں ، اصل بات خدمتگزاری ہے ۔ اسلام نے ہم پر خدمت کی ذمہ داری ڈالی ہے (54) میں ایرانی عوام کا بهائی ہوں اور پانے آپؒ کو ان کا خادم اور سپاہی سمجهتا ہوں (55) اسلام میں ایک طاقت کی حکمرانی ہے اور وہ ہے قانون ۔ پیغمبر اکرم ؐ کے دور میں بهی قانون کی حکمرانی تهی ، پیغمبرؐ قانون نافذ کرنے والے تهے (56) ۔ امام خمینی ؒ ان حکومتوں کو مخاطب کرکے فرماتے تهے جو اپنے آپؒ کو حکمران اور عوام پر برتر سمجهتی ہیں : ’’ حکومتیں ایک ایسے اقلیتی گروہ پر مشتمل ہیں جنہیں قوم کی خدمت کرنی چاہئے اور یہ لوگ نہیں سمجهتے کہ حکومت قوم کی حکمران نہیں بلکہ اسے قوم کی خادم ہو نا چاہئے (57) عوام کی آگاہی اور اپنی منتخب حکومت کے معاملات میں ان کا عمل دخل ، حکومت پر ان کی نگرانی اور اس کے ساته عوام کی یک سوئی ، بذات خود معاشریتی سلامتی کے تحفظ کی ضمانت ہے (58) حکومت اور قومی و معاشرتی سلامتی سے متعلق نظریۂ ولایت فقیہ کا اس نظریۂ حکومت سے فرق صاف ظاہر ہے جس کے تحت سب سے زیادہ جمہوریت کے قائل سیاسی نظاموں میں بهی حکومت ، صرف اقتدار کے شعبے میں اور اس کے اوزار و آلات اور ضروریات کے طورپر متعارف ہوتی ہے ۔ اسی لئے معاشرتی سلامتی کا اہم رکن بهی اقتدار کے زیر سایہ نظر آتاہے ۔

امام خمینی ؒ فرماتے ہیں : ’’ جتنی بهی بڑی طاقت کیوں نہ ہو ، اگر اسے عوامی تائید حاصل نہ ہوتو وہ زوال پذیر ہوجاتی ہے (59) ۔ کمیونزم کے بظاہر طاقتور نظام کا خاتمہ ، دوسری جانب دنیا کی بڑی طاقتوں کی دشمنی اور آٹه سالہ زبردستی ٹهونسی گئی جنگ کے باوجود ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی نشو ونما اوراس کا استحکام بذات خود امام خمینی ؒ کے نظریئے کی سچائی کی بہترین دلیل اور ثبوت ہے ۔

یہ مسلمہ امر ہے کہ اسلامی حکومت اور اس میں عوام کے کردار اور مقام کے بارے میں امام ؒ کے نظریئے کادنیا کے سیاسی لغت نامے میں رائج ’’ نیشنلزم‘‘ کی اصطلاح سے کسی قسم کا بهی تعلق نہیں ہے ، بلکہ یہ مکمل طورپر اس کا متضاد ہے ۔ عملی طورپر کمزور ہونے کے باوجود نیشنلزم جب نظریئے کی صورت میں ابهر کر سامنے آتاہے تو وہ ایک اقدار مخالف نظام پر منتج ہوجاتا ہے ، اس لئے کہ اگر ہم قوم کے پرستانہ نظریات کو ایسے حقائق کا درجہ دیں جن کی ضرور حمایت کرنی چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کہیں بهی کوئی ناقابل تغییر حقائق اور اقدار موجود نہیں ہیں نیز مختلف قوموں کے علاوہ جغرافیائی اور سیاسی سرحدوں کی تعداد کے لحاظ سے عدل وانصاف ، صلح و آزادی جیسے حقائق ، اقدار اور اصطلاحات بهی متعدد ، متغیر اور متضاد ہونے چاہئیں ۔ اندرونی حالات یہ ایک فطری امر ہے کہ وہ قوم جو کسی بهی وجہ سے زیادہ طاقتور اور وسائل سے مالامال ہو ، کمزور اقوام پر اپنا اقتدار مسلط کرنے کو اپنا جائز حق سمجهنے لگے گی ۔ اسی لئے افراط کی حدوں کو پهلانگنے والی قوم پرستی کی حقیقت نسل ،رنگ ، زبان، جغرافیائی محل وقوع اور تاریخی اعتبار سے برتری پر یقین کے سواکچه بهی نہیں ہے ۔ تاریخی شواہد کی بناپر امام خمینیؒ کی رائے یہ تهی کہ ’’ قومیت اور قوم پرستی ‘‘ پین عرب ازم ، پین ترکزم ، پین ایرانزم و غیرہ جیسی تحریکوں کا قیام ، تیسری دنیا اور اسلامی ممالک کے حصّے بخرے کرنے ، ان ملکوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور ان پر تسلط جمانے کے لئے استعماری طاقتوں کے مطالعہ و تحقیق اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے ۔ اس سلسلے میں امام ؒ کا یہ ارشاد ہے : ’’ بڑی طاقتوں اور اسلامی ممالک میں ان کے وابستہ عناصر کا منصوبہ یہ ہے کہ ان مسلم طبقات کو جن کے درمیان اللہ تعالیٰ نے اخوت پیدا کی ہے اور مؤمنوں کو اخوہ کے نام سے پکارا ہے ، ایک دوسرے سے جدا کریں اور انہیں ترکی قوم ، کردی قوم ، عرب قوم ، اور فارسی قوم وغیرہ کے  نام پر ایک دوسرے سے جداکریں بلکہ ایک دوسرے کا دشمن بنائیں اور یہ بالکل اسلام اور قرآن مجید کی راہ وروش کے خلاف ہے (60) ایک اور مقام پر آپؒ ؒ نے فرمایاہے : ’’ ہماری تحریک ایرانی ہونے سے پہلے ایک اسلامی تحریک ہے (61) ‘‘ ۔

امام خمینیؒ کی نظر میں مستبکر اور توسیع پسند طاقتوں کی موجود گی میں اور ان کے وجود اور تسلط کو قبول کرتے ہوئے دنیامیں حقیقی صلح برقرارکرنا خام خیالی کے سوا کچه بهی نہیں ہے ، آپؒ ارشاد فرماتے تهے : ’’ دنیا کی سلامتی اور صلح کا انحصار مستکبرین کی سرنگونی پر ہے اورجب تک یہ بے تہذیب توسیع پسند روئے زمین پر موجود ہیں مستضعفین اپنی وہ وارث جسے انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے حاصل نہیں کرسکتے (62) ۔ ایک اور مقام پر آپؒ ؒ نے فرمایا ہے : ’’ وہ دن ہمارے لئے مبارک ہے جس دن ہماری مظلوم قوم اور تمام مستضعف اقوام پر سے عالمی خونخواروں کی بالا دستی ختم ہوجائے اور تمام اقوام اپنے مقدر کی خود مالک بن جائیں (63)‘‘ آپ  ؒ کا یہ بهی کہنا تها : ’’ ممکن ہے امریکہ ہمیں شکست سے دچار کردے لیکن وہ ہمارے انقلاب کو نہیں کچل سکتا اور یہی سبب ہے کہ مجهے اپنی کامیابی پر یقین ہے ، امریکی حکومت شہادت کا فلسفہ نہیں سمجهتی ہے(64)‘‘۔

اسرائیل کی غاصب حکومت اور اس کے سرچشمے کے بارے میں امام ؒ فرماتے تهے : ’’ امریکہ ، یہ دہشت گرد بذات خود ایسی حکومت ہے جس نے پوری دنیا کو آگ لگا رکهی ہے اور اس کا حلیف عالمی صہیونیزم ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایسے جرائم کا ا رتکاب کرتاہے جن کو لکهنے سے قلم کو اور بیان کرنے سے زبان کو شرم آتی ہے (65) ’’اسرائیل ، اسلام اور مسلمانوں کی نگاہ میں اور تمام بین الاقوامی معیاروں کے مطابق غاصب اور جارح ہے (66) ‘‘میں اسرائیل کی آزادی اور اس کو تسلیم کرنے کے منصو بے کی حمایت کو مسلمانوں کیلئے ایک سانحہ اوراسلامی حکومتوں کے لئے ایک دهماکہ سمجهتا ہوں (67) ۔ امام خمینیؒ نے انقلاب کی کامیابی کے بعد ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو ’’ یوم القدس ‘‘ کا نام دیتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ جب تک قدس اسلام دشمنوں کے قبضے میں ہے ہر سال اس دن جلسے جلوسوں کے ذریعے اور دیگر طریقوں سے فلسطینی مجاہدین کے ساته اپنی یک جہتی کا علان کریں ، امام خمینیؒ اللہ تعالیٰ پر ایمان ، مکتب شہادت کی طرف رجوع اور اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ہٹنے تک مسلح جد وجہد کو آزادی قدس کا واحد راستہ  سمجهتے تهے ۔

امام خمینی ؒ نے کمیونزم کے متعلق فرمایاہے : ’’ کمیونزم کی پیدائش سے لے کر آج تک ، اس نظریئے کا پرچا ر کرنے والی دنیا کی سب سے زیادہ آمر و جابر ، توسیع اور تنگ نظر حکومتیں تهیں اور ہیں (68) اسی طرح آپ ؒ نے مغربی دنیاکی ترقی و پیشرفت کے بارے میں فرمایاہے : ’’ مغربی دنیا کی ترقی و پیشرفت کو ہم قبول کرتے ہیں لیکن مغرب کی برائیوں کو نہیں مانتے جن سے خود مغرب والے نالاں ہیں (69) ‘‘ مغرب کے طرز تربیت نے انسان کو اپنی انسانیّت کے مقام سے گرادیا ہے (70) ‘‘ ’’ ہم تہذیب کے مخالف نہیں ، بر آمد شدہ تہذیب کے مخالف ہیں (71) ہم ایسی تہذیب چاہتے ہیں جو شرافت اور انسانیّت کی بنیادوں پر استوار ہو(72) ۔

امام خمینی ؒ ثقافت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے باربار اصرار فرماتے رہتے تهے ، آپؒ ؒ کا فرمان ہے : ’’ ثقافت قوم کی تمامتر خوشیوں اور بد بختیوں کا سر چشمہ ہے ــ۔۔ ۔ صحتمند ثقافت ہی قوموں کی تعمیر کرتی ہے (73) ‘‘ پیٹ ، روٹی ، اور پانی معیار نہیں ہے ، اصل بات انسانی شرافت ہے (74) ’’ مشین گنوں ، توپوں اور ٹینکوں کے سائے میں زندگی گذارنے سے صحیح انسان نہیں بن سکتا اور انسانی مقاصد تک نہیں پہنچا جا سکتا (75) زبان اور قلم کے ذریعے مشین گنوں کو ہٹانے کی سعی کریں ، قلم اور علم و دانش کے لئے میدان صاف رکهیں (76) امام خمینی ؒ سامراج کی خدمت کرنے والے استحالی فن اور فن اور ’’ فن برائے فن ‘‘کو منفی پہلو کے حامل اور کسی قسم کی اہمیت سے عاری فن قرار دیتے ہوئے فرماتے تهے : ’’ اسلامی عرفان میں فن عدل ، عزت اور انصاف کی جلوہ گری ، طاقتور اور سرمایہ دار طبقے کے ہاتهوں پسے ہوئے ننگے بهوکے لوگوں کی تلخیوں اور محرومیوں کی منظر کشی کا نام ہے (77) ‘‘۔

امام خمینی  ؒ تعلیم و تربیت کے میدان میں عملی اور نظریاتی سطح پر ایک مثالی استاد تهے ، آپؒ اپنی تربیتی روز کے ذریعے ایک معاشرے کو عظیم دینی تحریک کے ہر اول دستے میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے تهے ۔ وہ بهی ایسے معاشرے کو جس کی ثقافت اور اعلیٰ انسانی اقدار ظالم پہلوی خاندان اورا س کے پٹهو مغرب پسندوں کے ہاتهوں پامال اور نظرانداز کی گئی تهیں ، کہتے ہیں کہ۵ جون ۱۹۶۳ ء  کی تحریک کے ان المناک اور گهٹن سے بهر پور معاشرتی حالات میں امام ؒ کے معتقدین نے آپؒ ؒ سے پوچها کہ آپؒ ؒ کس طاقت کے بل بوتے پر اور کس امید سے تحریک چلاکر عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟ تو امام ؒ نے جواب میں کسی بچے کے جهولے کی طرف اشارہ فرمایا تها (78) اور تعجب یہ ہے کہ پندرہ سال بعد انقلابی میدان میں بنیادی کردار اداکرنے والا اصل طبقہ ایرانی طلبہ و طالبات اور نوجوان مسلم طبقہ تها ۔

امام خمینی نفس پر قابو پانے ، نفسانی اور شیطانی خواہشات سے  آلودہ ہونے سے نفس کو بچانے کے لئے زندگی کے تمام مراحل میں مسلسل تزکیہ و تطہیر کے عمل کو حقیقی کمال کے حصول کا ذریعہ سمجهتے تهے ۔ امام ؒ کی رائے یہ تهی کہ بچپن سے بلکہ ماں کے پیٹ میں جنینی دور سے ہی ماں کی طرف سے سیروسلوک کی بعض ریاضتوں کے ذریعے بچے کی تربیت پر توجہ دینی چاہئے ، اسی لئے آپؒ ؒ فرماتے تهے : ’’ ماں کے پیشے سے زیادہ شرافتمنددانہ کوئی پیشہ نہیں ہے (79) بچے کا پہلا سکول ، ماں کی آغوش ہے (80) ۔ امام ؒ معاشرے کے مربیوں سے مخاطب ہو کر فرماتے تهے : ’’ یاد رکهو ! سکول کا مرحلہ ، یونیورسٹی سے زیادہ اہم ہے ، اس لئئے کہ بچوں کی ذہنی نشو نما اسی دور میں ہوتی ہے (81) استاد ایسی شئے کا امین ہو تاہے جو امانت میں رکهے جانے والی دوسری چیزوں سے مختلف ہے ، اس کے پاس انسان بطور امانت رکها جاتا ہے (82) ہر قسم کی خوشیوں اور بدبختیوں کے محرکات کا آ غاز سکول سے ہوتاہے اور ان کی کنجیاں اساتذہ کے پاس ہوتی ہیں(83)۔  امام خمینی ؒ معلمی کے پیشے کو انبیائؑ کا پیشہ اور مختلف علوم کی تعلیم کے علاوہ اللہ تعالی کی طرف سے معاشرے کی ہدایت کو استاد کی اہمترین ذمہ داری قرار دیتے تهے ۔

امام ؒ انسان کو تمام مخلوقات عالم کا نچوڑ قرار دیتے ہوئے فرماتے تهے : ــ’’ انسان ایک ایسا عجوبہ ہے ، جس سے ایک الٰہی ملکوتی مخلوق بهی بن سکتی ہے۔ اور ایک جہنمی شیطانی مخلوق بهی (84)‘‘ ایک اور مقام پر امام ؒ نے فرمایا ہے : ’’ انسان کی تربیت سے دنیاکی اصلاح ہوتی ہے (85) ‘‘ آپؒ ؒ تربیت اور تزکیہ نفس کو تعلیم و رتدریس پر مقدم سمجهتے تهے امام ؒ کی نظر میں علم کی تمامتر خوبیوں کے باوجود اگر حصول علم کے ساته ساته تزکیہ نفس نہ وہ تو شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لئے آلہ کار کے طور پر علم کا استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ آپؒ ؒ کا فرمان ہے : ’’ اگر علم کسی گندے دل میں اتر جائے یا اخلاقی لحاظ سے گندے ذہن میں داخل ہوجائے تو اس کے نقصانات جہالت سے زیادہ ہیں (86) ‘‘ ـ۔

ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک کی ایک اور اہم کا میابی ، معاشرتی سرگرمیوں میں عرتوں کے کردار احیا ہے ۔ ہم جرأت سے یہ دعوے کرسکتے ہیں کہ اس سے پہلے ایرانی تاریخ کے کسی بهی موڑ پر ایرانی عورتیں عام اور سیاسی شعور کے اس درجے پر کبهی نہیں پہنچی تهیں ، اور ان کو اپنے ملک کی تقدیر میں حصّہ دار بننے کا حق کبهی نہیں دیا گیا تها ؛ شاہ کے خلاف عوامی تحریک کے عروج کے دوران خواتین تمام میدانوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ  حرکت کرتیں ، بلکہ بعض مراحل پر ان سے آگے آگے چلتی تهیں ، عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے دوران ، جنگی محاذوں کے لئے وسائل کی فراہمی ، اپنے بهائیوں ، ( بیٹو ں ) اور شوہروں کی اسلام اور انقلاب کی دفاع کے لئے حوصہ افزائی اور حتی کہ محاذ جنگ کے اگلے مورچوں کے لئے ضروری اشیاء فراہم کرنے میں جو کردار مسلمان خواتین نے ادکئے ، اس کے مثال معاصر جنگوں میں نہیں ملتے ہیں آج بهی ایرانی معاشرے میں خواتین، مردوں کے ساته ساته معاشرتی سرگرمیوں ، تعلیم وتربیت کے امور ، یونیورسٹی کالجوں ،علاج معالجہ اور حفظان صحت کے شعبوں ، سرکاری اداروں اور دیگر میدانوں میں بڑه چڑه کر حصّہ لے رہی ہیں ، جب کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے شاہی حکومت کے پیدا کردہ آلودہ اور ناسازگار ماحول کی وجہ سے معاشرے کی اکثر مسلمان خواتین گهروں کی چاردیواری کے اندر رہنے پر مجبور تهیں اور بہت سی لڑکیاں خاص طور پر مختلف اضلاع اور دیہاتوں میں تعلیم کی نعمت سے محروم تهیں ، اور بڑے شہروں کی خواتین جن کو معاشرتی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا موقع مل جاتا وہ سخت ترین حالات میں مادر ، پدر آزاد ثقافتی یلغار کے سامنے اپنے عزت اور عفت کا تحفظ کرتیں اور بہت سی خواتین اپنے پیشے یا تعلیم چهوڑ نے پر مجبور ہو جاتی تهیں۔

ایرانی خواتین کے طبقے میں آنے والی تبدیلی دیگر اسباب سے بڑه کر ، عورت کی شخصیت ، مقام اور حقوق کے تحفظ کے بارے میں امام خمینی ؒ کے نظریئے کی وجہ سے ہے ۔ امام ؒ فرماتے تهے : ’’ اسلامی نظام میں ، عورت کو بهی وہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو حاصل ہیں ، یعنی تعلیم ، کام کاج ، ملکیت ، ووٹ دینے اور انتخابی امیداور بنانے کا حق (87) ‘‘ انسانی حقوق کے، نگاہ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے ، اس لئے کہ وہ دونوں انسان ہیں ، عورت کو مرد کی طرح اپنے مقدر کی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے (88) ‘‘ امام ؒ فرماتے تهے : ’’ جس بات کی اسلام مخالفت کراتا اور اسے حرام قرار دیتا ہے ، برائی اور فحاشی ہے ، چاہے وہ عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے (89) ‘‘ ہم چاہتے ہیں کہ عورت اپنے اعلیٰ انسانی مقام پر فائز رہے اور کهلونا نہ بنے ۔۔۔۔ اسلام نہیں چاہتاکہ عورت ، مرد کے ہاتهون ایک ناچیز شے یاکهلونا بن کر رہے ، اسلام عورت کی شخصیت کا تحفظ کرکے اسے ایک اہم اور مفید انسانوں میں تبدیل کرنا چاہتاہے(90) ’’ عورت ،مرد کی طرح اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے اور سرگرمیوں کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے (91) ‘‘ آزادی کی مغربی شکل جو ، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بربادی کا سبب بنتی ہے ، اسلام اور عقلی نگاہ سے قابل مذمت ہے (92) ۔

اقتصادی شعبے میں امام خمینی ؒ کی تاکیدات ، موقف اور نقطہ ہائے نظر ، عدل و انصاف اور معاشرے کے غریب و مستضعف طبقات کو ترجیح دینے پر مبنی تهے (93) آپؒ  محروموں کی خدمت کو سب سے بڑی عبادت قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے اورمعاشرے کے اولیائے نعمت سمجهتے تهے ، امام خمینیؒ اسلامی حکومت کے حکام پر زیادہ تر غریبوں کی بهلائی کی خاطر جد جہد کرنے اور محلات میں رہنے والے امیروں کی عادتیں ترک کرنے پر زور دیتے تهے ۔ آپؒ ؒ کی رائے یہ تهی کہ حکومت ، سرکاری ، حکام اور اداروں کے سربراہ قوم کے خادم ہیں اور خادموں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ وسائل مانگنے لگ جائیں ۔ امام ؒ فرماتے تهے : ’’ ان جهونپڑوں میں رہنے والوں اور شہیدوں کا نذارانہ پیش کرنے والوں میں سے کسی ایک کے سرکے بالوں کو دنیا بهر کے تمام محلات اور ان میں رہنے والے امیروں پر شرافت اور برتری حاصل ہے(94) ‘‘ ’’وہ لوگ آخری سانس تک ہمارا ساته دیں گے جنہوں نے غربت ، محرومیت اور استضعاف کے درد سہے ہیں (95) ‘‘ جس دن ہماری حکومت نے محلات کا رخ کیا ، سمجه لیں کہ وہ دن آپہنچا ہے کہ ہمیں حکومت اور قوم کا فاتحہ پڑه لینا چاہئے (96) ۔

امام خمینی ؒ کی ایک نمایاں صفت یہ تهی کہ ان کی ہر بات قلبی عقیدے اور سچائی پر مبنی ہوتی تهی ، وہ خود دوسروں سے پہلے اپنی بات پر عمل کرتے تهے ۔ امام خمینی ؒ کی زندگی زہد ، قناعت اور سادگی کا ایک مکمل نمونہ تهی ، انکا یہ طرز زندگی مرجعیت اور رہبری سے پہلے دور کے ساته ہی خاص نہیں ہے بلکہ ان کاعقیدہ یہ تها کہ ایک قائد کا معیار زندگی معاشرے کے عام افراد بلکہ ان سے بهی معمولی ہونا چاہئے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی زاہدانہ انداز میں گذاری ۔ اگر چہ امام ؒ کی زندگی کے اس پہلو سے متعلق کئی مستند واقعات بیان کئے گئے ہیں (97) کہ جنہیں درج کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی میں زہد اور سادگی کا جوعنصر پایا جاتا ہے  اس کا مکمل طور پر تعارف نہیں کرادیا گیاہے۔

بیت المال کے خرچ کرنے میں مکمل احتیاط کا خیال رکهنے پر ایمان رکهنے اور امام خمینی ؒ کی سادہ زیستی کے بیان میں اتنا ہی کافی ہے کہ امام ؒ کی رائے اور تائید کے مطابق اسلامی جمہوریہ کے آئین کی دفعہ ۱۴۲ کے مطابق سپریم کورٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قائد اور اسلامی حکومت کے اعلیٰ حکام کیے موجودہ عہدے پر آنے سے قبل اور بعد کے اموال کا احتساب کرے تاکہ وقعیت کے برخلاف کوئی چیز اضافہ نہ ہو ، امام خمینی ؒ وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے اپنے ناچیز اموال کے گوشوارے  ۱۴ جنوری ۱۹۸۰ ء  کو سپریم کورٹ کوبهیجے ۔

امام خمینی ؒ کے فرزند نے امام ؒ کی رحلت کے فورا بعد ایک خط کے ذریعے جو اخبارات میں بهی چهپا تها (98) عدلیہ سے درخواست کی کہ امام ؒ کے اموال کی آئین کے مطابق دوبارہ چهان بین کی جائے !!

اس چهان بینکا نتیجہ۲ جولائی ۱۹۸۹ء  کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ایک اعلامئے میں شایع ہوا(99) جس میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ امام ؒ کے معمولی اموال میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ خمین میں ان کے والد مرحوم کی طرف سے ارث میں ملنے والی اراضی بهی امام ؒکی زندگی میں اورآپ ؒ ہی کے حکم سے وہاں کے غرباء میں تقسیم کردی گئیں اس طرح وہ اراضی بهی آپؒ ؒ کے ملک سے خارج ہو گئیں (100) !!

صرف قم میں ایک پرانا مکان ، آپؒ ؒ کی غیر منقول ملک ہے کہ جو ۱۹۶۴ ء  میں جلاوطنی کے زمانے سے عملی طور پر علماء طلبہ اور عوامی رابطہ کرنے والوں کے مرکزکی حیثیت اختیار کرگیا اور اب بهی جوں کا توں اسی حیثیت میں باقی ہے ، لہذا عملا وہ ذاتی ملکیت کے دائرے سے نکل گیا ہے ۔ جائداد کی مذکورہ فہرست ۱۹۸۰ء  میں مرتب کی گئی ، آپؒ ؒ کے وصال کے بعد اس کے بارے میں قانونی تحقیقی عمل میں آئی اور سرکاری طورپر اعلان کیا گیا کہ اس میں کمی کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، اس فہرست میں درج تهاکہ کچه کتابوں کے علاوہ ، آپؒ کا کوئی ذاتی سامان نہیں ہے اور آپؒ ؒ کی سادہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پو را کرنے والے گهر میں موجود سامان ، آپؒ کی اہلیہ کی ملکیت ہیں ، ان میں سے بهی زیر استعمال دو عدد قالین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ خمس کی مدد میں شامل ہیں ، لہذا وہ کسی ضرورتمند سید کو دے دینے چاہئیں ، آپؒ ؒ کی ملکیت میں کوئی نقدرقم موجود نہیں ہے اور اگر کہیں کوئی رقم موجود ہوتو وہ شرعی مدات سے متعلق ہے جسے عوام نے بحیثیت مرجع دینی شرعی اخراجات پورا کرنے کے لئے آپؒ ؒ کے حوالے کی ہے ، لہذا اس قم کو مقررہ مصارف کے مطابق استعمال کرنا چاہئے اور امام ؒ کے ورثہ کو ان میں تصرف کا کوئی حق نہیں پہنچتا اس شخصیت کی کل جمع پونجی جس نے لگ بهگ نوے سال ہر دلعزیز بن کر گذاری ہو ، ایک عددعینک ، ناخن کاٹ ، کنگهی ، تسبیح ،قرآن مجید کا ایک نسخہ ، جائے نماز، عمامہ ، علما ء کے مخصوص لباس اور دینی علوم کی چند کتابوں پر مشتمل تهی ، یہ ایسے شخص کی جائداد کی فہرست تهی جو نہ صرف کئی کروڑ آبادی پر مشتمل تیل پیدا کرنے والے ایک امیر ملک کا قائد تها بلکہ وہ کروڑوں عوام  کے دلوں پر راج کرتا رہا تها ، آپؒ ؒ کے پیروکار عوام بهی ایسے تهے کہ جب آپؒ ؒ ، اسلام اور انقلاب کے تحفظ کی خاطر رضاکارانہ طور پر آگے بڑهنے کا حکم دیتے تو شہادت طلب رضا کاروں کی طویل صفیں بندهتی تهیں ، یہ وہی عوام تهے جنہوں نے امام خمینی ؒ کے دل کی بیماری کی خبر شائع ہونے پر خطوط کے ذریعے اور ہسپتال کے سامنے حاضر ہو کر اپنے دلوں کا عطیہ دینے کی پیش کش کی تهی (101) ۔ اس تمام ہر دلعزیزی کا راز امام ؒ کے سچے ایمان ، زہد ،تقویٰ اور صداوقتوں میں پوشیدہ ہے ۔ امام خمینی ؒ زندگی میں منصوبہ بندی اور نظم ونسق کی پابندی پر شدت سے یقین رکهتے تهے ، دن رات کے مقررہ اوقات میں آپؒ ، عبادت ،ذکر خدا، تلاوت قرآن ، دعا اور مطالعہ،میں مشغول ہوجاتے تهے ، چہل قدمی کے ساته خدا کے اذکار ورد کرنا اور غور وفکر کرنا آپؒ ؒ کے روزمرہ پروگرام کا حصّہ تها ۔ تقریبا نوے سال کی عمر میں بهی امام خمینی ؒ دنیا کے مصروفترین سیاسی قائدین میں سے ایک تهے جو اسلامی معاشرے کی ارتقا اور اس کے مسائل کے حل کی راہ میں ہولناک ترین حالات میں بهی اپنی استعداد اور نکهار برقرار رکهتے تهے ۔ امام ؒ روزانہ ملک کے سرکاری اخبارات کی شہ سرخیوں،اہم خبروں ،رپورٹوں اور درجنوں نیوز بولیٹنز کا مطالعہ کرتے اور ملکی ریڈیو ٹیلی ویژن کی خبریں سنتے تهے، اس کے علاوہ دن میں کئی مرتبہ غیر ممالک کے فارسی ریڈیو کی نشریات کی خبروں اور تبصروں کو سنتے تهے تاکہ انقلاب کے خلاف دشمن کی تشہیری مہم سے آگاہ ہو کر اس سے مقابلے کے طورطریقوں کے بارے میں سوچ سکیں ۔ آپؒ ؒ کی مصروفترین روز مرہ سرگرمیاں اور اسلامی حکومت کے عہدیداروں کے ساته اجلاسوں کا انعقاد ، مختلف عوامی طبقات کے ساته تعلقات کو نظر انداز کرنے کا باعث نہیں بنتا تها ، کیونکہ عوام اسلامی انقلاب کا اہم سرمایہ ہیں ۔ دو جلدوں پر مشتمل ’’ محضر نور ‘‘ (102) ‘‘ نامی کتاب میں صرف انقلاب کی کامیابی کے بعد کے چند سالوں میں عوام کے ساته امام خمینی ؒ کی ۳۷۰۰ سے زیادہ ملاقاتوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، جو بذات خود اپنے زمانے کے لوگوںکے ساته امام ؒ کے گہرے روابط کے بعض دریچوں کو کهولنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہے ، آپؒ معاشرے کے مقدر کے بارے میں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرتے تهے جب تک اس کے بارے میں صدق دل سے عوام کے ساته مشورہ نہ کریں ، کیونکہ امام ؒ حقائق کی شناخت حاصل کرنے کے لئے عوام کو سب سے زیادہ محرم راز سمجهتے تهے ۔

امام خمینیؒ پر عزم اور مہربان چہرے کے مالک تهے ، آپؒ ؒ کی نگاہیں پر کشش اور روحانیت سے بهر پور تهیں ، عوام کا اجتماع آپؒ ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر بے اختیار آپؒ ؒ کی روحانی کشش کے عالم میں کهو جاتا تها ، یہاں تک کہ محفل میں بیٹهے ہوئے بہت سے لوگ لاشعوری طور پر شوق کے آنسو بہانے لگتے تهے ۔ ایرانی عوام کو حق پہنچتاتها ، یہاں کہ وہ برسوں تک دل کی گہرائیوں سے اپنے دعائیہ نعروں میں خدا سے اس خواہش کا اظہار کریں کہ امام ؒ کی عمر میں ایک لحظہ اضافہ کرنے کے بدلے ان کی اپنی عمر لے لے (103) اجنبی دنیا روحانیت پر یقین نہیں رکهتی ہے ، لیکن وہ افراد جنہوں نے امام ؒ کے ساته اپنی زندگی کے لحات گذارے ہیں ، اپنے عزیز قائد کی عمر کے ہر قیمتی لمحے کی قدر و قیمت جانتے ہیں ،کیونکہ آپؒ ؒ کی زندگی ، خدا اور اس کی مخلوق کی خدمت کیلئے وقف تهی ۔

عالمی سامراج اور مغربی ذارائع ابلاغ نے امام خمینی ؒ بلکہ عالم انسانیّت کے حق میں بڑا ظلم کیا ہے ، برسوں سے وہ امام ؒ اور اسلامی انقلاب کے چہروں کو مسخ کرنے کے لئے ایک وسیع تشہیری مہم میں مصروف ہیں جس میں آپؒ ؒ کی رحلت کے باوجود آج تک اضافہ ہوتاجارہاہے ، روزانہ درجنوں ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنوں کی فارسی نشریات میں انقلاب اور امام خمینی ؒ کے اہداف اور امنگوں کے خلاف پروگرام نشر کئے جاتے ہیں ، امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک میں اس مقصد کے لئے بادشاہت کے حامیوں سے لے کر بائیں بازو کی جماعتون اور مجاہدین خلق ( منافقین) تک انقلاب دشمن چهوٹی جماعتوں  کوبڑے پیمانے پر وسائل فراہم کئے گئے ہیں ،اس کے علاوہ امام خمینی ؒ کی تحریک سے متعلق حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کے لئے سالانہ درجنوں کتاب ، سینکڑوں مقالات اور اخبارات میں مضامین شائع کئے جاتے ہیں ، لیکن یقینی طور پر حقیقت کا سورج ، دهوکہ اور فریب کی گهنگور گهٹاؤ ں کا دل چیر کر اپنی روشنی پهیلا تا رہے گا ، مغربی دنیا کا مکمل وجودی ڈهانچہ چند صدی پہلے سے لے کر آج تک دیگر اقوام پر غلبہ ، ان کے استحصال اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی بنیادوں پر قائم ہے ، اس لئے اپنے وجود کو لاحق اصل خطرے سے وہ صحیح طور پر آگاہ پو چکی ہے ، کیونکہ کونسا آزاد منش انسان ہوگا جو امام خمینی ؒ کی زندگی اور آپؒ ؒ کے ضمیروں کو جهنجوڑ نے والے پیغامات سے شناسائی حاصل کرنے کے بعد آپؒ ؒ کے شیفتہ و دلداہ نہ بنے ؟ اور دنیا پر مسلط اس ظالم نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرے ؟

بهلا سوچئے تو سہی کہ پٹهو حکومتوں کے زیر تسلط اکثر عرب اور اسلامی ممالک میں امام خمینیؒ کے وصیت نامے اور بہت سی تصانیف ، پیغامات اور تقریروں کی اشاعت اور مطالعے پر کیوں پابندی لگائی گئی ہے اور کیوں ایسا کرنا جرم سمجها جاتا ہے ؟ امام ؒ کی تحریک اور افکار پر پابندی لگانے کیلئے بہت سی حکومتوں کے سربراہوں کی سطح پر وسائل وامکانات فراہم کرنے میں اتنی یک سوئی کیوں پائی جاتی ہے ؟ کیا اس کے سوا کوئی اور وجہ ہے کہ آپؒ ؒ ایسی اقدار اور حقائق کا تحفظ کرنے کا بیڑا اٹها چکے تهے جن کے فقدان کے داغ میں صدیوں سے انسانیّت بے چینی اور کرب کے عالم میں سسک رہی تهی ؟ ان لوگوں کے لئے جو امام خمینی ؒ کی پاکیزہ زندگی سے واقف ہیں یا ان کے کانوں تک آپؒ ؒ کا پیغام پہنچ چکا ہے اور وہ آپؒ ؒ کی شخصیت کی معرفت حاصل کرچکے ہیں ، کسی قسم کے شک و تردید کا مقام نہیں رہتاکہ جو مشعل آپؒ ؒ نے روشن کیا ہے وہ بادہائے مخالف اور تخریب و تحریف کے طوفان سے نہیں بجه سکے گی ۔’’ واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ المشرکون ‘‘ اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا ، چاہے مشرکین کو پسند نہ آئے) ۔

امام خمینیؒ کی رحلت وصال یار ، دوستوں سے جدائی

امام خمینی ؒ اپنے اہداف اور امنگوں سے لوگوں کو آگاہ کر چکے اور جو کچه انہیں بیان کرنا چاہئے تها بیان کرنے کے علاوہ عملی میدان میں اپنے تمام وجود کو انہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کی راہ میں بروئے کار لاچکے تهے اور اب امام ؒ ۵ جون ۱۹۸۹ء  کی دہلیز پر کهڑے اس عزیز دوست سے ملاقات کی تیاری کر رہے تهے جس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی تمام عمر صرف کی تهی ، امام ؒ کا سر معبود حقیقی کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جهکا ، اللہ کے علاوہ انہوں نے کسی اور طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اورآپ ؒ کی آنکهیں ذات احدیت کے سوا کسی اور ذات کی خاطر پر نم نہ ہوئی تهیں ، آپؒ ؒ کے تمام عارفانہ کلام میں محبوب حقیقی کی جدائی کے غم اور اسی کے لمحہ وصال کی تشنگی کی روداد بیان کی گئی ہے اور اب امام ؒ کے لئے وہ پوشکوہ لمحہ پہنچنے والا تها جو آپؒ ؒ کے عقیدتمندوں کے لئے بہت زیادہ جانسوز و جانگداز اور ناقابل برداشت تها ۔ آپؒ ؒ نے اپنے وصیت نامے میں خود لکها ہے : ’’ میں سکون خاطر ، اطمینان دل ، خوش و خرم روح اور پرامید ضمیر کے ساته، بہ فضل و کرم الٰہی بہنوں اور بهائیوں کی خدمت سے اجازت لے کر اپنے ابدی مقام کی طرف روانہ وہورہا ہوں ، مجهے آ پ کی نیک دعاؤں کی سخت ضرورت ہے اور خدائے رحمان ورحیم سے میری دعا ہے کہ وہ خدمت میں کوتاہی پر میرے قصور اور غلطیوں کو معاف کرے ، قوم سے بهی مجهے امید ہے کہ وہ میری طرف سے کی جانے والی اور ہونے والی کوتاہیوں سے در گذر کرے گی اور پوری طاقت ، ہمت اور عزم مصمم کے ساته آگے بڑهتی رہے گی ‘‘ ۔

لوگ امام ؒ کی ضریح کے پاس کهڑے ہو کر آپؒ ؒ کے ان عاجزانہ جملوں کے جواب میں اپنے تئیں کہتے ہیں : ’’ اے ہمارے قائد و رہبر! آپؒ کن کوتاہیوں اور غلطیوں کی بات کرتے ہیں ؟ جہاں تک ہم نے اور ہمارے آبا و اجداد نے دیکها اور سنا ہے اور جہاں تک ہمیں یاد ہے آپؒ ؒ سراپا خوبیوں کے مالک اور پاکیزگی و روشنی سے مالامال تهے ’’ اشہد انک قد اقمت الصلوۃ و اتیت الزکوۃ وامر ت بالمعروف و نهیت عن المنکر و جاهدت فی اللہ حق جہادہ ‘‘ (104) ( میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؒ ؒنے نماز قائم کی ، زکات اداکی ، اچهائیوں کی طرف دعوت دی ، برائیوں سے منع فرمایا اور اللہ کی راہ میں ایسا جہاد کیا جیساکر نا چاہئے تها ) ۔

تعجب آمیز بات یہ ہے کہ امام خمینی ؒ نے اپنی ایک غزل میں رحلت سے کئی سال پہلے فرمایا تها :

سالہا می گذرد حادثہ ہا می آید انتظار فرج از نیمۂ خرداد کشم

( حادثوں ہی سے عبارت ہوگئی ہے زندگی

               انتظار دوست میں ہوں نیمہ خرداد سے )

اس بیت سے قبل کے ابیات میں جدائی کے کٹهن لمحات بیان کرنے کے ساته ساته وصال کے لمحے کی آرزو پائی جاتی ہے (105)۔

 اب جون۱۹۸۹ ء کے اوائل  میں وہ لحظہ آ پہنچا تها ، چند دن پہلے عوام  کو امام ؒ کے نظام ہا ضمہ کی تکلیف ، دل کی بیماری اور اپریشن کی خبر مل گئی تهی ۔ ان دنوں میں عوام کی نفسیاتی حالت اور ملک کے گلی کوچوں ، گهروں ، مساجد اورامام بارگاہوں کے علاوہ ملک سے باہر دنیا بهر میں امام ؒ کے عقیدتمندوں کی جانب سے مختلف مقامات پر منعقد ہونے والی دعا اور توسل کی تقریبات کے بیان سے قلم قاصر ہے ۔ اس وقت بہت کم ایسے لوگ ملتے تهے جو اپنے چہرے سے غم و اندوہ اور پریشانی کے آ ثار کو چهپا سکیں ، ہر آنکه پر نم تهی اور ہر شخص کا دل جماران کے ساته دهڑ کتا تها، اور گهڑیاں آہستہ آہستہ بیت رہی تهیں ، اور پورا ایران دعاؤ ں کی آواز سے گونج رہاتها ، ڈکٹروں کی ٹیم نے امام ؒ کی جان بچانے کی بهر پور کوشش کی لیکن خداکی مشیت نے تقدیر میں کچه اور لکها تها ’’ یا ایتها النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ ‘‘ ( اے نفس مطمئنہ ، اپنے پرور دگار کی طرف پلٹ جاؤ اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تم سے خوشنود ہو ) ۔ 

ہفتہ ۳ جون ۱۹۸۹ ء  کو رات ۱۰ بج کر ۲۰ منٹ پر وصال کا لمحۃ آپہنچا اور اس دل کی دهڑکن بند ہوگئی جس نے کروڑوں دلوں کو نور خدااور روحانیت کے ذریعے زندہ کیا تها ۔ امام ؒ کی بیماری کے دوران آپؒ ؒ کے عقیدتمندوں نے خفیہ طور پر ہسپتال میں ایک کمرہ نصب کر رکها تها، جس کے ذریعے امام خمینیؒ کے اپریشن کے لمحات اور آپؒ ؒ کے خالق حقیقی سے جا ملنے کا لحظہ ریکارڈ کیا گیا ہے (106) ان دنوں ٹیلی ویژن سے امام خمینیؒ کی روحانی طمانینت اورسکون خاطر کے بعض گوشے نشر کئے گئے تو عوام کے دلوں میں ہل چل سی مچ گئی ، اس صورتحال کا بیان ، اس ماحول کو لمس کئے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا ۔ زندگی کی آخری رات میں بهی امام ؒ کے لب ذکر خدامیں ہل رہے تهے جبکہ آپ ؒ ۸۷ سال کی ضعیف العمری میں کئی قسم کے اپریشنوں کی تکلیفیں سہہ رہے تهے ، مختلف اقسام کی دواؤں کی بوتلوں کی نالکیاں امام ؒ کے مبارک ہاتهوں میں لگی ہوئی تهیں ، تا ہم ان حالات میں بهی امام ؒ نماز نافلہ شب مں مصروف اور قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تهے ، عمر شریف کے آخری ، لمحات میں امام ؒ پر ایک ملکوتی طمانینت اور سکون طاری تها ، آپؒ مسلسل کلمہ توحید اور حضور اکرمؐ کی نبوت پر شہادت کے الفاظ پڑهتے رہے اور اسی حالت میں آپؒ ؒ کی روح ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی ، امام ؒ کی جدائی سے دلوں میں ایسی آگ بهڑک اٹهی جسے بجهانا نا ممکن ہے۔ امام ؒ کے وصال کی خبر نشر ہوئی تو ایسا لگ رہا تها جیساکہ کوئی تباہ کن زلزلہ آیاہے ، خبر سنتے ہی لوگ پهوٹ پهوٹ کر رونے لگے ،ایران بهرکے عوام اور دنیا کے گوشہ و کنار میں امام ؒ کے نام اورپیغام سے آشنائی رکهنے والے سب کے سب روئے ، سر پیٹے اور سینہ زنی کی ۔ ان ایام میں اس سانحے کے مختلف پہلوؤں اور عوام کی ناقابل کنٹرول جذ باتی لہروںکا بیان قلم اور زبان کے دائرۂ قدرت سے باہر ہے ۔ ایرانی قوم اور انقلابی مسلمان حق بہ جانب تهے کہ وہ اس طرح نالہ و فریاد کریں اور ایسے مناظر تخلیق کریں جن کی وسعت اورعظمت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ، کیونکہ انہوں نے ایسی شخصیت کو کهودیا تها جس نے مسلمانوں کو عظمت رفتہ لوٹا دیا ، اپنے وطن کی طرف بڑهنے والے ظالم بادشاہوں اور امریکی و مغربی لٹیروں کے ہاته کاٹ پهینکے ، اسلام کو نئی زندگی عطا کی اور مسلمانوں کو عزت بخشی اور اسلامی جمہوری نظام قائم کر کے ، دنیا کی تمام جہنمی اور شیطانی طاقتوں کے سامنے کهڑا ہوگیا ، وہ اس مرد آہن کی جدائی کا سوگ منارہے تهے جس نے دس سال تک سینکڑوں سازشی منصوبوں ، فوجی بغاوتوں ، ملکی اور غیر ملکی شورشوں اور فتنہ و فساد کے مد مقابل پہاڑ جیسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور آٹه سال تک ایسی دفاعی مہم کی قیادت کی جس کے سامنے والے محاذ پر لڑنے والے دشمن کی علنیہ طور پر مشرق و مغرب کی دونوں طاقتیں پشت پناہی کر رہی تهیں، مختصرا ًیہ کہ عوام اپنے محبوب اور پر دلعزیز قائد ، مرجع دین اور اسلام کے حقیقی علمبردار سے بچهڑ گئے تهے ، جن کے ذہن اعلیٰ مفاہیم کی سمجه سے قاصر ہیں اور ا ن کی فکر حقائق کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش نہیں رکهتی اگر وہ امام خمینی ؒ کے سفر آخرت اور آپؒ ؒ کے  جسد مطہر کی تشییع و تدفین کی رسومات کی فلموں میں عوام کے حالات کا مشاہدہ کرلیں اور ایسے درجنوں افراد کی ہلاکت کی خبر سن لیں جن کے دل کی دهڑ کنیں امام ؒ کی جدائی کی مصیبت کا تاب نہ لاتے ہوئے بند ہوگیئں یا ان بے ہوش ہونے والوں کی تصویریں اور فلمیں دیکهیں جن کو بے ہوش ہونے کی وجہ سے یکے بعد دیگرے عوام اپنے ہاتهوں پر اٹها تے ہوئے لوگوں کی بهیڑ سے نکال کر شفا خانوں تک پہنچا رہے ہیں تو شاید ان زندہ حقائق کی تشریح و تعبیر سے وعاجز آجائیں ، لیکن جو عشق کو جانتے اور ان کے دل عشق کی لذتوںسے آشنا ہیں ، وہ سمجهتے ہیں کہ یہ ساری باتیں فطرتی ہیں۔ واقعاًایرانی عوام امام خمینیؒ کے دلدادہ تهے ، اسی لئے انہوں نے آپؒ ؒ کی برسی پر کتنے خوبصورت اور بامعنی نعرے کا انتخاب کیا تها : ’’ عشق بہ خمینی ؒ ، عشق ہمہ خوبیہاست (خمینی ؒ سے عشق و محبت ، تمام خوبیوں سے عشق کے مترادف ہے ) ۔

۴ جون ۱۹۸۹ ء  کو قائد انتخاب ماہرین کی کونسل ( مجلس خبرگان رہبری ) کا اجلاس منعقد ہوا ،اس اجلاس میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی ؒ کا وصیت نامہ پڑه کر سنا دیا ، جسے پڑهنے میں دهائی گهنٹے کا وقت لگا ، اس کے بعد امام خمینی ؒ کے جانشین اور اسلامی انقلاب کے قائد کے چناؤ کے لئے کئی گهنٹے بحث اور تبادلہ خیال کیا گیا ، جس کے نتیجے میں حضرت آ یت اللہ خامنہ ای کو قیادت کی بهاری ذمہ داری اٹهانے کے لئے منتخب کیا گیا ۔ آیت اللہ خامنہ ای بهی امام خمینی ؒ کے شاگردوں ، انقلاب کے نمایاں چہروں اور ۱۵خرداد کی تحریک کے ساتهیوں میں سے ہیں جنہوں نے امام ؒ کی تحریک کے تمام ادوار میں ہر قسم کے نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے جان کی بازی لگائی تهی ۔ برسوں سے مغرب والے اور اندروں ملک کے پٹهو عناصر امام ؒ کو شکست دینے میں ناکام رہے تهے ،اس لئے وہ خوش فہمی میں مبتلا ہو کر امام ؒ کی رحلت کا انتظار کر رہے تهے ، تاہم ایرانی قوم کی بیداری ، مجلس خبرگان کی طرف سے جانشین امام خمینی ؒ کے بروقت اور شائستہ انتخاب اور امام ؒ کے فرزندوں اور مریدوں کی طرف سے اس انتخاب کی پرزور حمایت کی وجہ سے انقلاب دشمن طاقتوں کی تمام امیدوںپر پانی پهرگیا ، یوں امام ؒ کی رحلت سے نہ صرف آپؒ ؒ کامشن ختم نہیں ہوا بلکہ امام خمینیؒ کا نیا دور سابقہ دور سے زیادہ وسعت کے ساته وجود میں آیا ، بهلا کبهی فکر ،اچهائی ، روحانیت اور حقیقت بهی مرسکتی ہے ؟ 

۵ جون ۱۹۸۹ء  کے دن صبح سے رات تک تہرانی باشندوں سمیت دیگر سمیت شہروں اور دیہاتوں سے آنے والے لاکهوں سوگوار تہران کے عظیم مصلیٰ( عید گاہ ) میں جمع ہوئے تاکہ آخری مرتبہ اس مرد آہن کے جسد مطہر کو الوداع کہہ سکیں جس کی تحریک سے ظلم کے تاریک دور میں اعلیٰ اقدار اور شرافت کی ٹیڑهی کمر سیدهی ہو گئی تهی اور اس کے ساته دنیا میں خدا پرستی اور انسانی فطرت کی طرف رجعت کی ایک تحریک کا آغاز ہو چکا تها ، سوگواری کی سرکاری تقریبات مں مروجہ بے جان رسم و رواج کا معمولی اثر بهی نہیں پایا جاتا تها ، انداز رضا کارانہ اور عوامی ہونے کے ساته عشق اور ولولے سے لبریز تها۔ امام خمینی ؒ کے جسد مطہر کو سبز چادر میں لپیٹ کرایک بلند مقام پررکها گیاتها جو لاکهوں سوگواروں کی بهیڑ میں ایک نگینے کی طرح چمک رہا تها ۔ سوگوار اجتماع کا ہر فرد زیر لب اپنے قائد سے باتیں کرتے ہوئے آنسو بہا رہا تها ، شاہراہ اور مصلیٰ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں پر سیاہ پوش عوام کو ٹهاٹهیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تها ، شہر کے در ودیوار پر کالے ماتمی جهنڈے لہرا رہے تهے ، تمام مساجد ، مراکز ، اداروں اور گهروں سے قرآن مجید کی تلاوت کی آواز کانوں میں رس گهول رہی تهی ، رات ہوئی تو مصلیٰ کے وسیع میدان اوراس کے اطراف میں واقع ٹیلوں پر امام خمینی ؒ کی روشن کردہ شمع کی یاد میں ہزاروں شمعیں جلائی گئیں ، مصیبت زدہ خاندانوں کے افراد ان شمعوں کے ارد گرد جمع ہو کر بلندی پر نظر آنے والے نورانی چراغ ( امام ؒ کے جنازے) پر ٹکٹکی بانده کر اسے دیکهتے رہے ۔

عوامی رضاکاروں کے چہرے پر یتیمی کی دهول بیٹه گئی تهی ، وہ سر و سینہ پیٹ رہے تهے ، ان کی یاحسین ؑ کی صداؤں نے فضا کو عاشوارئی رنگ دیا تها ، ہر ایک اس سوچ سے نڈهال ہو رہا تها کہ اب دوبارہ حسینیۂ جماران سے امام خمینی ؒ کی دلنشین آواز سننے کو نہیں ملے گی ، ان جذابات کے ساته عقیدتمندوں نے امام خمینیؒ کے جنازے کے پاس صبح تک رات گذاری ۔ جون کو صبح سویرے لاکهوں افراد نے پرنم آنکهوں کے ساته امام ؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کی ، آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی  ؒ نے نماز جنازہ پڑهی ۔

یکم فروری ۱۹۷۹ء  کو امام ؒ کی وطن واپسی کے موقع پر ، کثیر تعداد میں عوام کی پر شکوہ ، رزمیہ انداز میں شرکت اور امام ؒ کی تشییع جنازہ کے جلوس میں بے شمار لوگوں کی شرکت کے ذریعے اس رزمیہ داستان کا دہرا یا جانا ، تاریخ کے عجائبات میں سے ایک ہے معتبر عالمی خبررساں ایجنسیوں نے ۱۹۷۹ء  میں وطن واپسی کے دوران امام خمینی ؒ کے استقبالیہ جلوس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ساٹه لاکه بتائی تهی اور اب آپؒ ؒ کی تشییع جنازہ کے شرکاکی تعدداد کا اندازہ نوے لاکه تک لگایا گیا ۔ یہ صورتحال ایسے حالات میں پیش آئی کہ امام ؒ کے گیارہ سالہ دور حکومت میں انقلاب کے خلاف معاندانہ کا روائیوں کے لئے مغربی اور مشرقی ممالک کے اتحاد ان کی دیگر سازشوں خاص طور پر آٹه سال تک مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے ایرانی عوام نے بہت زیادہ تکلیفیں اٹهائیں مصیبتیں جهلیں اور اس راہ میں اپنے بے شمار عزیزوں کا نذرانہ پیش کیا تها ، لہذا طبیعی طور پر انہیں تهک رہاکر بے حس ہونا چاہئے تها ، لیکن بالکل ہوا ، کیونکہ امام خمینیؒ کے الٰہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو آپؒ ؒ کے اس فرمان پر مکمل یقین تها کہ ’’ دنیا میں تکلیفوں ، محنت و مشقت ، قربانیوں، جان نثاری اور محرومیتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ، اہداف کی عظمت ، ان کی قدر و قیمت اور بلند مرتبہ گی کے تناسب سے ہوتا ہے ‘‘ 

امام خمینی ؒ کی تشییع جنازہ میں شرکت کرنے والے لوگ مصلائے تہران سے ، شہدائے انقلاب اسلامی کے مزار بہشت زہراء ؑ کے نزدیک مقررہ مرقد امام ؒ کے ارادے سے نکلے تهے ، لیکن جلوس کے شرکا چاہے بچے ہوں یابوڑهے ،عورت ہوں یا مرد سب دهاڑیں مار مار کر رونے لگے ، اور فرط جذبات سے بے قابو لاکهوں لوگ جان بہ لب ہوچکے تهے ، اسی لئے کئی گهنٹے گذارنے کے باوجود جب سوگواروں کا جم غفیر آگے نہ بڑه سکا تو مجبورا امام ؒ کے جسد مطہر کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مدفن کی طرف لے جایا گیا ۔ مرقد امام ؒ کے مقام پر سوگوارں کی بهیڑ سے بچنے کے لئے پہلے سے ہی اونچی رکاوٹیں کهڑی کی گئی تهیں لیکن جوں ہی ہیلی کاپٹر ز زمین پر اترا لوگوں ان رکاوٹوں کو گرادیا۔ اپنے قائد سے بچهڑ نے کے غم میں عوام کے دلوں میں سلگتی ہوئی آگ شعلہ ور ہوکر انہیں بے چین کررہی تهی جس کی وجہ سے متعلقہ عملے کی انتهک جد وجہد کے باوجود تدفین کا عمل انجام نہ پاسکا ، یہ مناظر براہ راست ٹیلی ویژن پردکها ئے جا رہے تهے (جن کی فلمیں اب بهی دستیاب ہیں ) بالآخر امام ؒ کی تابوت کوبمشکل ان پروانوں کے ہاتهوں سے اٹها کر دوبارہیلی کاپٹر میں رکه دیا گیا جو ’’ خمینی ؒ  ‘‘ کو اپنی پوری ہستی اور وجود سمجهتے ہوئے اس بجهی ہوئی شمع کے ارد گرد ا ڑ رہے تهے ۔ اس دفعہ امام ؒ کے جسد مطہر کو جماران لے جایا گیا ۔

وہ لوگ جو مغرب میں رہ کر یا اپنی مغرب زدہ فکر کی بنیاد پر دنیا اور زندگی کو صرف پیسہ اور نفسانی خواہشات کے دریچے سے دیکهتے اور مشینی زندگی کے جهنجٹوں اور اس کے تهکا دینے والے شور وغل کے سبب اصول اور اقدار بهول چکے ہیں ، وہ امام ؒ کی تدفین سے متعلق فلموں کے مناظر کے مفاہیم کو درک نہیں کر سکتے ہیں ، اگر حقائق کو چهپانے پر مبنی دشمنان حق و حقیقت کے زہر یلے پروپیگنڈوں کا شور شرابہ کم ہوجائے اور ان کو توفیق حاصل ہوجائے کہ وہ پہلے سے کوئی فیصلہ کئے بغیر ، انصاف کے ساته اور اپنے ضمیر اور فطرت کی نگاہوں سے امام خمینی ؒ کے وصیت نامہ یا کسی پیغام کا سرسری مطالعہ کریں تو یقینا ان کا نقطۂ نگاہ بدل جائے گا ۔ جب سوگواروں کے فرط جذبات کی وجہ سے امام خمینی ؒ کے جنازے کی تدفین ممکن نہ ہوئی تو ریڈیو سے بار بار اعلان کیا گیا : ’’ عوام اپنے اپنے گهروں کو واپس چلے جائیں ، تدفین کی تقریبات فی الحال ملتوی کردی گئی ہیں ‘‘۔ دوسری طرف حکام کو اس بات میں بهی کسی قسم کا شک و تردید نہیں تها کہ جوں جوں وقت گذرتا جائے گا ، توں توں ، امام ؒ کے ان ہزاروں عقیدتمندوں کی آمد کی وجہ سے تشییع جنازہ کے اجتماع میں اضافہ ہوتا جائے گا جو دیگر شہروں سے تہران کی طرف بڑه رہے تهے ، لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سخت جذباتی حالات میں امام ؒ کے جنازے کو دفن کیا گیا ، ان رسومات کی جهلکیوں کی رپورٹیں نامہ نگاروں کے ذریعے دنیا بهر کو ارسال کی گئیں ، امام خمینیؒ کی رحلت کے موقع پر ایرانی شعرا کے کلام پر مشتمل درجنوں منظوم کتابوں کی اشاعت ان ایام میں لوگوں کے جذبات کا منہ بولتا ثبوت ہے ، ان میں بعض ایسے نوحے اور مرثیے بهی نظر آتے ہیں ، جو معاصر ایرانی ادب کی تاریخ کے شاہکاروں میں شمار ہوتے ہیں ۔

امام ؒ کی رحلت کے پہلے سال میں آپؒ کی سوئم ، ہفتم ، چہلم وغیرہ اور ہر سال  ۴ جون کو امام ؒ کی برسی منائی جاتی ہے چنانچہ اس کتاب کی تاریخ تحریر تک پانچویں برسی منائی گئی ہے ۔ امام خمینیؒ کے عقیدتمندوں نے اسلامی معاشرے کی طرف سے اپنے روحانی قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپؒ ؒ کی یاد کو زندہ جاوید بنانے کی غرض سے ناقابل یقین تیز رفتاری کے ساته ایک مجلل بارگاہ بنائی ہے ۔ یہ مزار روازانہ اور بالخصوص مذہبی تقریبات کے دوران ایران کے مختلف علاقوں اور دیگر ممالک سے آنے والے زائرین اور عقیدتمندوں سے بهرا ہوتا ہے ۔ مرقد امام خمینی ؒ کے گنبد پر لہرانے والا سرخ پرچم ، سید الشہداء حضرت امام حسین ابن علی ؑ کے روضہ اطہر پر لہرانے والے سرخ پرچم کی یاز تازہ کرتا ہوں ، یہ پرچم اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امام خمینی ؒ کی عاشورائی تحریک ، انقلاب کربلا کی طرح رہتی دنیا تک غیر تمند اور دیانت دار افراد کی رگوں میں ، عزت نفس ، انسانیّت اور اللہ کی راہ میں استقامت کا لہو دوڑ تی رہی گی۔

مندرجہ بالا حقائق کی روسے دیکها جائے تو یہ حقیقت کهل کر سامنے آتی ہے کہ امام خمینی ؒ کی زندگی طرح آپؒ کی رحلت بهی  ایک نئی بیداری اور نئی تحریک کا سرچشمہ بن گئی ، آپؒ کا مشن اور  آپؒ کی یاد امر ہوگئی ، کیونکہ امام خمینی ؒ بذات خود ایک حقیقت ہیں اور حقیقت ہمیشہ زندہ اور اٹل ہوتی ہے ۔

امام خمینیؒ  ’’ کوثر ‘‘ کے جلوؤں کی ایک جهلک تهے اور کوثر ولایت ( کا سرچشمہ) ہمیشہ اورہر زمانے میں زمین پر جاری رہتا ہے ۔

بالآخر خداکے اس عبد صالح کی حکایت اسی طرح زندہ      رہے گی۔۔۔

گر کسی ہست کہ فریاد کند بودن را

                         ہمہ از ہمت آن رند خدا جو باشد

 ( کوئی ہے جو زندہ رہنے کا نعرہ بلند کرسکے ؟ صرف وہی مست الست خدا پرست شخص یہ جرأت کر سکتا ہے )

’’ سلام علیہ یوم ولد ویوم مات ویوم یبعث حیا‘‘

( سلام ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا، جس دن اس نے وفات پائی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا ) ۔

 

فٹ نوٹس:

1 ۔ اس واقعے کے بعد غیر ممالک میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے بعض کافارسی میں ترجمہ ہو چکاہے، ان کتابوں کے مطالعے سے پس پردہ چهپے ہوئے واقعات اور اغراض ومقاصد کو سمجهنے میں مدد ملتی اور وہائٹ ہاؤس کی رسوائی کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے ، دیکهئے ’’ ہدف : تہران ‘‘ جولیتوکیہ زا ، ترجمہ سہرابی ، ناشر : نشر نو ، ۱۳۶۲ ه ش ( ۱۹۸۳ئ) اور ’’ بحران ‘‘ مصنفہ ہملٹن جورڈن ، ناشر : نشر کتاب سرا، ۱۳۶۲ ه ش ( ۱۹۸۳ء ) امریکہ زنجیرمیں ‘‘ مصنفہ سالینجر ، ناشر : نشر کتاب سرا ، ۱۳۶۲ ه ش ( ۱۹۸۳ء ) اور ’’ ۴۴۴ دن ‘‘از : ٹیم ولز ،ترجمہ ابوترابیان ناشر : نشر فرہنگی رجا، ۱۳۶۶ ه ش ( ۱۹۸۷ ء ) ۔

2 ۔ ’’ دنیا کی محبت ہر قسم کی لغزشوں اور غلطیوں کا سر چشمہ ہے ‘‘ یہ حدیث امام جعفر الصادق  ؑ سے روایت کی گئی ہے ، دیکهئے : اصول کافی ، کتاب ایمان و کفر ، باب حب الدنیا والحرص علیہا ، حدیث ۱ ۔

3 ۔ ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘ج ۳، ص ۵۔۶۔

4 ۔ کرنل معزی ’ مجاہدین خلق ‘‘ یعنی منافقین کی تنظیم اپنے حامیوں کے فرار پر کسی قسم کی معقول دلیل پیش کرنے میں ناکامی کے بعد سخت مشکلات کاشکار ہوئی تهی ، کیونکہ اس تنظیم نے بظاہر انقلابی اور سامراج مخالف نعروں کے ذریعے ، شاہ کے خلاف مسلح جدوجہد میں آگے بڑهنے کے دعوؤں سے متأثر کرکے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی تهی ۔

تنظیم کے سربراہ ( مسعود رجوی) شاہ کے وفادار ساواکی پائلٹ کی مدد سے ملک سے بهاگنے میں کامیاب ہواتها ، اس کے علاوہ بهی بہت ساری وجوہات تهیں جن کی دلیل پر اس تنظیم کے فریب خوردہ حامیوں اور اراکین کی بڑی تعداد دلبر داشتہ ، ہو کر علیحدہ یا ڈهرے بازی کا شکار ہوئے یا تنظیم چهوڑ کر چلے گئے ، ایک اہم وجہ بنی صدر جیسے مغرب زدہ اور کنزرویٹیوخیالات کے مالک شخص کا (اس دور کے ) سوشلسٹ اور بظاہر انقلابی لیڈر رجوی سے سیاسی اتحاد تهی جو بنی صدر کی بیٹی کے ساته رجوی کی ناپائدار شادی پر منتج ہوا تها !! اس سلسلے میں تنظیم کے اراکین کے اپنے سامراجی حلیف ممالک میں پناہ کے حصول ، امریکہ ، یورپ اور بالآ خر اسرائیل کے سامنے تنظیم کی طرف سے  سہولتیں حاصل کرنے کے لئے ہاته پهیلانے ،صدام کے ساته ، عراق میں اڈہ اور اسلحہ حاصل کرنے کے عوض بعثیوں کے لئے جاسوسی اور چاکری کا معاہدہ ، نظریاتی انقلاب کے نا م پر تنظیم کے ایک رکن کی بیوی سے رجوی کی تیسری تنظیمی شادی !! اور اسی طرح کی بعض اور مثالیں دی جاسکتی ہیں

5 ۔ تنظیم عوامی مجاہدین ( منافقین ) کے ایجنٹوں کے ہاتهوں ایران کے گلی کو چوں میں اندها دهند اور بے مقصد قتل و غارتگری میں اس وقت اضافہ ہوا جب ان کے سربراہ نے پیرس میں تنظیمی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تها : ’’ ابتدائی مرحلے میں سیاسی لیڈروں کی باری تهی ، دوسرے مرحلے میں حکومت کے انتظامی ہاته پیر کو اولیت حاصل ہے ۔۔۔ ( دہشت گردی کی ) کاروائیوں میں اس حد تک اضافہ ہونا چاہئے کہ آج کے بعد پاسداری (انقلابی مخالفین ) کا کردار اداکرنا آسان کام متصور نہ ہو ، یہ سستے داموں میں دستیاب نہ ہو اور وہ اپنی آنکهوں سے دیکه سکیں کہ اس کی بهاری قیمت ادا کرنا پڑے گی تاکہ آئندہ کوئی شخص پاسداری کے بارے میں سوچنے کی جرأت نہ کرسکے ’’ دیکهئے :‘‘ رجوی ۔ یک سالہ کارکردگی کا جائزہ ‘‘ ۳۰ خرداد ۱۳۶۱ ه ش ( جون ۱۹۸۲ ئ) اس قسم کی دہشت گردی کے مواقف کے اظہار اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے بیسیوں بے گناہ عورتیں ، بچے اور مرد منافقین کی اندها دهند کا کاروائیوں میں لقمۂ اجل بن گئے ۔

قتل کی یہ وارداتیں ، پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اور حملے کا ہدف قرار پانے والے کی طرف سے اپنے دفاع اور جان کی حفاظت کے لئے کسی قسم کا بندوبست کرنے کی مہلت حاصل کرنے سے پہلے اور بغیر کسی اطلاع کے کی جاتی تهیں ، یہاں تک کہ ان تخریبی کاروائیوں کا نشانہ بننے والے ، بستر پر نیند کی حالت میں ، روزہ افطار کرتے وقت روز مرہ کام کاج کے دوران یا گهر سے مسجد اور نماز جمعہ کے لئے جاتے ہوئے راستے میں گولیوں سے بهوں دیئے جاتے اور حملہ آور جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد پہلے سے تیار کهڑی چوری کی موٹر سائیکل یا کار میں بیٹه کر بهاگ جانے میں کامیاب ہو جاتے تهے ۔ اب جرائم میں مرتکب بہت سے گرفتار ہونے والے ایجنٹوں کے رونگهٹے کهڑے کردینے والے اعترافات اور مختلف دستاویزات پر اسیکیو ٹر اسلامی انقلاب کے اشاعتی ادارے تہران کی طرف سے ’’ سیاہ نامہ اعمال ، اوین جیل کے قیدیوں سے بحث و گفتگو ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ملک یہاں سے مذکورہ دہشت گرد تنظیم علانیہ طور پر اس قسم کی کاروائیوں کا حکم دیتی ہے ، وہ کئی سالوںسے برطانیہ اور امریہ کا ہمنوابن کر اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا رہاہے !!

6 ۔ نیٹو معاہدے کے نائب کمانڈر جنرل ہوئز کو تین بنیادی فرائض سونپ کر دوماہ کی مدت کے لئے تہران بهیجا گیا تها ، ان میں سے ایک ایران کے مشرقی صحراؤں ، سابقہ سوویت یونین کی سرحدوں کے قریب شمالی اور شمال مشرقی ایران کے بعض علاقوں میں نصب مندرجہ ذیل ہتهیاروں کی امریکہ منتقلی شامل تهی ، ایران میں امریکہ کے خفیہ فوجی اور جاسوسی کے آلات پنٹاگون کے لئے مخصوص طیارے ، زمین سے زمین اور زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائیل دیکهئے: ’’ تہران میں ڈیوٹی ‘‘ جنرل ہوئزر کی یادداشتیں ، نیز رجوع کریں ’’ آخری دنوں کی آخری کوششیں : مصنفہ ڈاکٹر ابراہیم یزدی ، ناشر : انتشارات قلم ، ۱۳۶۳ ه ش ( ۱۹۸۴ئ)

7۔ ’’ کتنے کم لشکر ہیں جو اللہ کی اذن سے ایک بڑے لشکر پر غالب آگئے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساته ہے ‘‘ سورۂ بقرہ ، آیت ؍ ۲۴۹ ۔

8 ۔ ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۳، ص۵۴۵ ۔

9 ۔ مذکورہ مأخذ ، ج۶،ص ۱۶ ۔

10 ۔ مذکورہ مأخذ ، ص ۹۵ ، ۱۰۰ تا ۱۰۴ ، ۱۱۰ تا ۱۱۳ ، ۱۱۸ تا ۱۲۰ ۔

11  ۔ مذکورہ مأخذ ، ص ۱۲۳ تا ۱۲۹ ، اسلامی ممالک کے سفیروں اور اسلامی کانفرنس کے سیکریٹری جنرل جناب حبیب شطی سے علیحدہ ملاقات کے دوران   امام خمینی ؒ کے ارشادات ۔

12 ۔ ’’ وان طائفتان من المؤمنین اقتتلا فاصلحو ا بینهما فان احداہما علی الاخرایٰ فقاتلوا التی تبغی حتی تقی ، الی امر اللّٰہ‘ ‘ (اور اگر مؤمنین کے دوگروہ آپس میں لڑنے لگیں تو ان کے درمیان صلح کرو ، اگر  ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے پر بغاوت کی تو بغاوت کرنے والے گروہ   سے مقابلہ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کے سامنے جهک جائے ) سورۂ       حجرات ، آیت ۸ ۔

13 ۔ ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۳، ص۳۵۹ ۔

14 ۔ مذکورہ مأخذ ، ج۳، ص ۲۲۔۲۵ ۔

15 ۔ مذکورہ مأخذ ، ج ۲۱ ص۴۵۸ ۔

16 ۔ اس پیغام کا مکمل متن ، آیت اللہ جوادی آملی کی شرح کے ساته جو گورباچوف کو امام ؒ کا پیغام پہنچانے والے وفد کے سربراہ تهے ‘‘ ندائے توحید گورباچوف کے نام امام خمینیؒ کا خط ‘‘ کے زیر عنوان کتاب میں درج ہے جسے مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ نے شائع کیاہے ۔

17 ۔ مندرجہ بالا حوالہ ۔

18 ۔ ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘  ج ۱۲ ص۱۴۱ ۔

19 ۔ ’’ جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام قیاما للناس ‘‘  سورۂ مائدہ، آیت۹۷۔

’’ و اذان من اللّٰہ رسولہ الی الناس یو م الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین ‘‘ سورہ توبہ ، آیت ۳ ۔

20 ۔ یہ خط ۸ ؍ ۱ ؍ ۶۸ ۱۳ ه ش ( ۲۸ مارچ ۱۹۸۹ئ) کو لکها گیاتها ، خط کامتن ‘‘  ’’صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج۴ ۱ ،ص ۱۴۱، پر دیکهئے ۔

21 ۔ اس واقعے میں امام خمینی ؒ کے دکهوں اور خون دل کی روداد ، دستاویزات اور خطوط کے تبادلے کی تفصیل فرزند امام خمینیؒ حجت الاسلام والمسلمین حاج سید احمد خمینیؒ ( مرحوم ) کے قلم سے لکهی ہوئی کتاب ’’ رنجنامہ ‘‘ اور آیت اللہ محمدی رے شہری کی کتاب ’’ سیاسی یادداشتیں ‘‘ میں پڑهئے ۔

22 ۔  ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘  ج۹، ص ۵۲۷ ۔

23 ۔ حوزہ ہائے علمیہ ( دینی مدارس ) کے نام امام خمینیؒ کا پیغام ’’ منشور روحانیت ( علمائ) ‘‘ ناشر : مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ ۔

24 ۔ مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ نے اب تک اس وصیت نامے کو ’’آخرین پیام ‘‘ کے عنوان سے وضاحتوں اور فہرست کے ساته دنیاکی دس زندہ زبانوں ، منجملہ عربی ، اردو ، انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن ، روسی ، آذری ترکی ، وغیرہ میں شایع کیا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ فارسی متن اس کے مطالب کی موضوعی درجہ بندی کے ساته ’’ امام خمینیؒ کے سیاسی الٰہی وصیت نامے کاموضوعی جائزہ ‘‘ نامی کتاب میں ، وصیت نامے کے مکمل قلمی نسخے ی نقل کے ساته شائع ہواہے

25 ۔ ’’ اسلام سربلند ہے اور اس پر کسی شیے کو بالادستی حاصل نہیں ہوگی ‘‘ ۔

26 ۔ ’’ خدا نے مؤمنون پر کافروں ( کی بالا دستی ) کی کوئی راہ مقرر نہیں کی ہے ‘‘ سورۂ نساء ، آیت ۱۴۱۔

27 ۔ جو کچه اس حصّے میں دیا گیاہے وہ اس مقالے کے زیربحث مسائل کے بارے میں امام خمینیؒ کی آراء ، مواقف اور رہنمائیوں کا مختصر نچوڑ ہے ۔

مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کی نیابت تحقیقات نے ، تمام اعتقادی ، سیاسی، ثقافتی آراء و نظریات اور مواقف اور دیگر عنوانات کو ہر موضوع کے ذیل میں وضع کرکے اس کی درجہ بندی کی ہے ، جو ادارے کے ریکارڈ میں موجود ہے ، محققین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔اس مقالے کی تیاری میں مندرجہ بالا مجموعے کے علاوہ مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے : ’’ آئین انقلاب اسلامی ‘‘ اس گرانقدر کتاب میں امام خمینیؒ کے بنیادی افکار و نظریات اور مواقف کو آپؒ ؒ کے قلم سے پیش کیا گیا ہے ’’ کلمات قصار‘‘ جو امام خمینی ؒ کے پند و نصائح پر مبنی ہے ( یہ دونوں کتابیں مذکورہ ادارے نے شائع کی ہیں) امام خمینیؒ کا وصیت نامہ ، اس کے علاوہ بعض مقامات پر امام ؒ کے فقرے من وعن انور ٹڈ کا مازمیں دیئے گئے ہیں جن کے مأخذجملات کے ذیل میں دئے گئے نمبروں کی مدد سے معلوم کئے جاسکتے ہیں ، یہ فقرے بیشتر کتاب ’’کلمات قصار ‘‘ امام خمینی ؒ سے ہوبہو نقل کئے گئے ہیں ۔

28 ۔ ’’ کلمات قصار ‘‘ امام خمینی کے پند ونصائح اور حکمت کی باتیں ، ص ۹۳ ۔

29۔ آئین انقلاب اسلامی ‘‘ ص ۱ ،ناشر: مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینی ؒ ، ۱۳۷۳ ه ش ( ۱۹۹۴ئ) ۔

30  ۔ تا 45؍۔ میں دئے گئے مطالب من وعن کتاب ’’ کلمات قصار ، امام خمینی ؒ کے پند ونصائح اور حکمت کی باتیں ‘‘ سے نقل کئے گئے ہیں ، ہر فقرے کا حوالہ اس ترتیب سے دیا گیاہے ( فٹ نوٹ نمبر ؍ صفحہ نمبر: )۱۰۳ ؍ ۲۰ ، ۱۰۴ ؍ ۲۱ ، ۱۰۵؍ ۱۸ ،۱۰۶ ؍ ۲۲، ۱۰۷ ؍ ۱۷ ، ۱۰۸؍ ۲۵ ،۱۰۹؍ ۲۵، ۱۱۰؍ ۳۰ ، ۱۱۱؍ ۴۳ ، ۱۱۲؍ ۴۴ ، ۱۱۳؍ ۴۶ ، ۱۱۴؍ ۳۵، ۱۱۵؍ ۲۶ ، ۱۱۶؍ ۷۱ ، ۱۱۷؍ ۶۱ م ۱۱۸؍ ؍ ۶۲ ( ازکتاب کلمات قصار) ۔

46 ۔ مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ نے امام خمینیؒ کے دروس کے بہت سے نوٹس جمع کئے ہیں جو اداراے کے شعبۂ تحقیقات ( قم شاخ ) میں موجود ہیں جنہیں بتدریج شائع کیا جائے گا ۔

47 ۔ دیکهئے : علماء او رحوزۂ علمیہ ( دینی مدارس) کے نام امام خمینیؒ کا پیغام جو ۳ ؍ ۱۲؍ ۱۳۶۷ ه ش ( ۲۲ فروری ۱۹۸۸ئ) کو جاری ہوا اور ’’ منشورروحانیت ‘‘ سے مشہور ہے اس پیغام کا مکمل متن کا ، کتاب ’’ منشورروحانیت ‘‘ ناشر : مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ ۱۳۶۹ ه ش ( ۱۹۹۰ئ) اور ’’ صحیفہ نور‘‘ ج ۲۱ ص ۸۸ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔

48۔ مندرجہ بالا مقامات پر دیکهئے ۔

49 ۔ مندرجہ بالا مقامات پر دیکهئے ۔

50- ’’ کلمات قصار ، امام خمینیؒ کے پند ونصائح اور حکمت کی باتیں ‘‘ ص ۱۱۷ ۔

51 ۔ مذکورہ نظریہ ، اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کی دفعات بالخصوص اس کی تمہید نیز قیادت اور اس کے فرائض سے متعلق دفعے میں بیان کیا گیا ہے ۔

52۔ تا 67 ۔ نقل شدہ مطالب بعینہ کتاب ’’ کلمات قصار ، پند ہا وحکمت ہائے امام خمینی  ؒ ‘‘ سے مندرجی ذیل ترتیب کے مطابق دئے گئے ہیں ( فٹ نوٹ نمبر ؍ صفحہ نمبر از مذکورہ کتاب ( : ۲۵ ؍ ۱۱۹ ،۱۲۶ ؍ ۱۱۹، ۱۲۷ ؍ ۱۲۷ ، ۱۲۸ ؍ ۲۲۷ ، ۱۲۹ ؍ ۱۳۰ ، ۱۳۰ ؍ ۱۳۹ ، ۱۳۱ ؍ ۱۲۱ ، ۱۳۲ ؍ ۱۲۱ ، ۱۳۳ ؍ ۱۲۷ ،۱۳۴ ؍ ۱۲۷ ، ۱۳۵ ؍ ۱۵۱ ، ۱۳۶ ؍ ۱۵۳ ، ۱۳۷؍ ۱۵۶ ، ۱۳۸ ؍ ۱۵۴ ، ۱۳۹ ؍ ۴۸ ۱، ۱۴۰؍ ۱۴۸ ۔

68۔ ’’ کلمات قصار پند ہا وحکمت ہائے امام خمینیؒ ‘‘ ص ۱۵۹ ، یادرہے کہ زیر نظر کتابچے کے گذشتہ صفحات میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت کمیونزم اور اس کے خاتمے سے متعلق امام خمینیؒ کے نقطہ نگاہ کی طرف اشارہ کیا گی اہے ؛ ’’ گوربا چوف کے نام امام خمینیؒ کے پیغام میں عالمی کیمونزم کے نظام کا خاتمہ ‘‘ ۔

69 ۔ تا 77 ۔ ’’ کلمات قصار پند ہا و حکمت ہائے امام خمینی  ؒ ‘‘ مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق ( فٹ نوٹ نمبر ؍ صفحہ نمبر از مذکورہ کتاب) : ۱۴۲؍ ۱۵۸ ، ۱۴۳؍ ۱۵۸ ، ۱۴۴؍ ۱۷۶ ، ۱۴۵ ؍ ۱۷۶، ۱۴۷ ؍ ۱۷۴ ، ۱۴۸ ؍ ۱۷۴ ، ۱۴۹ ؍ ۱۸۰ ، ۱۵۰ ؍ ۱۸۱۔

78 ۔ دیکهئے: ’’ آواے روزہا( ندائے ایام )‘‘ از : محمد رضا حکیمی ۔

79 ۔ تا 83 ۔ ’’ کلمات قصار پند ہا و حکمت ہائے امام خمینیؒ  ‘‘ مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق (فوٹ نوٹ نمبر ؍ صفحہ نمبر از مذکورہ کتاب ) : ۱۵۲ ؍ ۲۱۲، ۱۵۳ ؍۲۱۲، ۱۵۴ ؍۱۸۵ ،۱۵۵؍ ۲۰۴، ۱۵۶؍۱۰۴ ۔

84 ۔ مندرجہ بالامأخذ ، ص ۱۷۳ ، اس کے علاوہ امام خمینیؒ کے تربیتی نظریات کے عنوان پر ۱۰ ۔ ۱۲ خرداد ۱۳۷۳ ه ش ( ۳۰ مئی ۔ ۲ جون ۱۹۹۴ئ) کو تہران میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شعبۂ تعلیم و تربیت سے منسلک اساتذہ اور ارباب نظر نے امام خمینیؒ کے تربیتی مکتب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اس پر سیر حاصل بحث کی ۔ اس کانفرنس میں پڑهے گئے مقالات مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کی نیابت تحقیقات کے ریکارڈ میں موجود ہیں جنہیں یقینا زیور طبع سے آراستہ کیا جائے گا ۔

85 تا 92 ۔ ’’ کلمات قصار ، پند ہا وحکمت ہائے امام خمینیؒ ‘‘ مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق ( فٹ نوٹ نم ب صفحہ نمبر از مذکورہ کتاب ): ۱۵۸ ؍ ۱۸۴ ، ۱۵۹ ؍ ۱۸۷ ،۱۶۰؍ ۲۱۰ ، ۱۶۱ ؍ ۲۱۰ ، ۱۶۲؍ ۲۱۱ ، ۱۶۴ ؍ ۲۱۰ ،۱۶۵؍ ۱۱۲ ۔

93 ۔ امام خمینی کے اقتصادی نظریات اور مواقف کا اسی عنوان کے تحت ۱۳۷۱ ه ش (۹۱۹۲ئ) کو تہران یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں معاشیات کے اساتذہ اور ارباب نظر نے سیرحاصل بحچ کرتے ہوئے تنقیدی جائزہ لیا ۔ اس کانگریس کے مقالات کا خلاصہ مؤسسۂ تنظٰم ونشر آثار امام خمینیؒ کی طرف سے شائع کیا گیاہے ۔

94 ۔ ’’ کلمات قصار ، پند ہا وحکمت ہائے امام خمینیؒ  ‘‘ ص ۲۲۲۔

95۔ مندرجہ بالا مأخذ ۔

96 ۔ منردجہ بالا مأخذ ، ص ۲۲۱۔

97 ۔ دیکهئے: ’’ا مام خمینی ؒ کی زندگی کے خاص واقعات ‘‘ ج ۲ ، بعض فاضل حضرات کے تأثرات ، ترتیب و پیش کش : مصطفی وجدانی ، ’’در سایۂ آفتاب ‘‘ از : محمد حسن رحیمیان ، ’’ پا بہ پائے آفتاب ،’’امام خمینی ؒ کی زندگی کے بارے میں کی اورا ن کی باتیں ‘‘ ج ۴ ترتیب و پیش کش: امیر رضا ستودہ ، ’’ چلچراغ خاطرہ ‘‘ ناشر: سازمان تبلیغات اسلامی کا طباعتی اور اشاعتی مرکز ، ’’ آشناے غنچہ ہا ‘‘ تحقیق از : امیر رضا ستودہ ، نظر ثانی : افسانہ شعبان نژاد، ’’ امام خمینیؒ کے بارے میں میرے تأثرات ‘‘ از:علی دوانی ، ناشر : پیوند پبلیکیشنز اور ‘‘ امام خمینیؒ کی تحریک کا تجزیہ وتحلیل ‘‘ ج ۳ سیدحمیدروحانی ۔

98 ۔ دیکهئے: ایران کے سر کاری اخبارات ، ۲۷ خرداد ۱۳۶۸ ه ش ( ۱۷ جون ۱۹۸۹ئ) ۔

99 ۔ دیکهئے : ایران کے سرکاری اخبارات ، ۱۱ تیر ۱۳۶۸ ه ش ( یکم جولائی ۱۹۸۹ئ) ۔

100 ۔ امام خمینیؒ نے یم اردیبہشت ۱۳۶۲ ه ش ( ۲۱، ۱پریل۱۹۸۳ئ) کو ایک حکم کے ذریعے ضلع خمین کے امام جمعہ کو اپنا نمائندہ مقرر کیا تاکہ وہ آپؒ ؒ کی موروثی اراضی کی ملکیت علاقے کے غریبوں کے نام پر منتقل کریں ، جس کے بعد اس حکم کو عملی جامہ پہنا یا گیا ۔ دیکهئے: ’’ صحیفہ نور ‘‘ ج ۱۹ ص ۱۴۸ ۔

101 ۔ مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے ریکارڈ میں عوام کی طرف سے امام خمینیؒ کو بهیجے گئے تقریبا دس لاکه خطوط محفوظ ہیں ، جن کا نمونہ ‘‘ جلوہ ہائے کلام ‘‘ نامی کتاب میں شائع کیاگیا ہے جو ۷۲ ۱۳ ه ش ( ۱۹۹۳ء ) میں مذکورہ بالا ادارے کی طرف سے شائع کی گئی ہے ۔ اسی کتاب میں عوام کے ایسے خطوط کے نمونے دئے گئے ہیں جن میں انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے خون کے گروپ کی تفصیلات لکه کر امام خمینی  ؒ کو دل کا عطیہ دینے کی پیش کش کی ہے ۔

102 ۔ ’’ محضرنور ، امام خمینیؒ کی ملاقاتوں کی فہرست ‘‘دوجلدیں ، ناشر: مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینی ؒ ، ۱۳۷۲ ه ش ( ۱۹۳ء ) ۔

103 ۔ کئی سال تک ایرانی عوام مذہبی اجتماعات اور جلسے جلوسوں کے دوران ،نیز نماہائے جماعت کے بعد مل کر اس دعا کا ورد کرتے رہے ہیں :

خدا یا خدا تتا نقلاب مہدی ؑ خمینی ؒ را نگہدار از عمر مابکاہ وبر عمر رہبر افزا ۔

( اے خدا ؛ اے خدا ؛ انقلاب ( ظہور ) مہدی ؑ تک خمینیؒ کا محفوظ رکه ، ہماری عمروں سے کم کرکے ہمارے قائد کی عمر میں اضافہ کر) ۔

104 ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تونے ناز قائم کی ،زکات اداکی ، امرالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا اور اللہ کی راہ میں کمال کی حد تک جہاد کیا ‘‘ امام خمینیؒ کے زیارتنامے کے اقتباسات ۔

 105۔ یہ غزل ’’ انتظار‘‘ کے عنوان سے امام خمینیؒ کے دیوان شعر کے صفحہ ۱۵۴ پر چهپ گئی ہے ، اس کے آخری دوربیت اس طرح سے ہیں :

 

مردم از زندگی بے تو کہ بامن ہستی  طرف سری است کہ باید بر استاد کشم

تو میرے ساته ہے اور مرتاہوں میں تیرے بغیر

راز نوہے یہ ، اسے ہدیۂ استاد کروں

سالہا می گذرد حادثہ می آید        انتظار فرج از نیمۂ خرداد کشم

حادثے آتے ہیں اور سال گزر جاتے ہیں

انتظار فرج از نیمۂ خرداد کروں

اس غزل کا مطلع یہ ہے :

از غم دوست دراین میکدہ فریاد کشم   دادرسی نیست کی در هجر رخش داد کشم

میکدہ میں ، میں کروں کیا جو نہ فریاد کروں

ہجرت رخ میں ترے کس سے طلب دادکروں

106۔ یہ فلمیں تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں ، ان کے چند گوشے بعض ویڈیو پر وگرا موں میں مرتب کئے گئے ہین جن کی کیسٹیں مذکورہ ادارے کی طرف سے شائقین کے لئے فراہم کی جاتی ہیں، یہ فلمیں امام خمینیؒ کی خداکے ساته خلوت میں راز ونیاز اور آپ ؒ کی نجی زندگی کے بعض پلوؤں کو فلمانے کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں لیکن ان کا معیار اچها نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ خفیہ کیمرے کے ذریعے ، روشنی کے انتظام کے بغیر اور دور کے فاصلے سے لی گئی ہیں اور اس کی وجہ یہ تهی کہ امامؒ اپنے زہد و پارسائی ، خؒوص اور روحانیت کو تشہیری ذرائع اور پروپیگنڈہ مسائل سے آلودہ کرنا نہیں چاہتے تهے ۔

ای میل کریں