فاتحانہ واپسی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی

فاتحانہ واپسی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی

بہمن ماہ ۱۳۵۷ ه ش کے اوائل ( جنوری ۱۹۷۹ء کے اواخر) میں امام خمینیؒ کے ملک واپسی کے فیصلے کی خبر عام ہوئی ، جوبهی یہ خبر سنتا اس کی آنکهوں سے خوشی کے آنسو ٹپکتے تهے ، کیونکہ عوام ۱۴ سال تک خوشی کے لمحات کیلئے دن گنتے رہے تهے ،تا ہم عوام اور امام ؒ کے عقیدتمندوں کو آپؒ کی جان کی فکر لاحق تهی ، اس لئے کہ ابهی شاہ کی پٹهو حکومت برسر اقتدار اور مارشل لاء نافذ تهی ، لہذا امام ؒ کے ساتهی حالات ٹهیک ہونے تک امام ؒ کی وطن واپسی کو ملتوی کرنے پر اصرار کررہے تهے ، دوری طرف ان حالات میں لاکهوں انقلابی عوامی کے اجتماع میں امام ؒ کی آمد امریکہ کی نظر میں شاہی اقتدار کے یقینی خاتمے کے مترادف تهی لہذا طیارے کو بم سے اڑانے سے لے کر فوجی بغاوت تک مختلف دهمکیوں کے ذریعے آپؒ کے سفر کوملتوی کرانے کی کوششیں جاری رکهی گئیں ، اس سلسلے میں فرانسیسی صدر نے بهی واسطے کے فرائض انجام دئیے[1]! امام ؒ فیصلہ کر چکے تهے اور پیغامات کے ذریعے ایرانی عوام سے آپؒ نے وعدہ کیا تهاکہ وہ ان مقدر ساز اور پرخطر ایام میں اپنے عوام کے درمیان واپس آنا چاہتے ہیں ۔ بختیار حکومت نے جنرل ہوئزر کے تعاون سے ملک کے ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کیلئے بند کردیا۔ ملک کے گوشہ وکنار سے جوق درجوق لوگ تہران کی طرف روانہ ہوئے اور لاکهوں تہرانی باشندوں کے جلوس میں شریک ہوکر ہوائی اڈوں کو کهولنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔بعض علمائے کرام اور سیاسی رہنماہوائی اڈوں کو کهولنے تک تہران یونیورسٹی کی مسجد میں دهرنا دے کر بیٹه گئے ۔ بختیار حکومت کچه دنوں سے زیادہ مقابلہ نہ کرسکی اور آخرکار اسے قوم کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا ، بالآ خر  یکم فروری ۱۹۷۹ کی صبح ۱۴ سال وطن سے دوررہنے کے بعد امام خمینیؒ ایران واپس تشریف لائے ایرانی عوام کا بے مثال استقبال عظیم اور ناقابل انکار تها ۔ مغربی خبررساں ایجنسیوں نے بهی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے استقبالی ہجوم کی تعداد ۶ سے ۷ ملین افراد تک بتائی ۔ امام ؒ کی تقریر سننے کیلئے لوگوں کا جم غفیر ائرپورٹ سے شہدائے انقلاب اسلامی کے مزار بہشت زہرا ؑ تک روانہ ہوا، وہاں خطاب کرتے ہوئے امام ؒنے زور دے کر فرمایا تها : میں اس قوم کی حمایت سے حکومت بناؤں گا [2] ‘‘ شاپور بختیار نے ابتدا میں اس جملے کا مذاق اڑایا ، لیکن زیادہ دیر نہیں گذری کہ ۵فروری ۱۹۷۹ کو  امام خمینیؒ نے عارضی طور پر انقلابی حکومت کا سربراہ مقرر کیا ۔ جناب انجنیئر بازرگان کا نام انقلابی کونسل کی طرف سے اس عہدے کیلئے تجویز کیا گیا تها جو ایک دیندار ، تجربہ کار اورمجاہد شخص تهے اور جنہیں تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک کے بعد (حکومت چلانے کا ) تجربہ بهی حاصل تها ۔ امام ؒ نے ان کی تقرری کے حکم میں تاکید کے ساته فرمایاتها کہ انہیں جماعتی وابستگیوں سے ہٹ کر ریفرنڈم اور انتخابات کیلئے تیاری کی غرض سے کابینہ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے [3] امام ؒ نے ایرانی عوام سے اپیل کی کہ وہ اس فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں ، چنانچہ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام نے امام ؒ کے فیصلے کی تائید کی ۔ متعدد سیاسی پارٹیاں اور مختلف سیاسی گروپ جن کے معدود ے چند عہدیدار اور اراکین عوامی تحریک کے بل بوتے پر کئی موقعوں پر شاہی جیلوں سے رہائی پانے میں کامیاب ہوگئے تهے اب عوامی فتح کی دہلیز پر انقلاب کی وراثت کے دعویدار بن کر زیادہ حصّہ حاصل کرنے کیلئے آگے بڑهے ! اسی لئے ان دنوں شاہی حکومت سے وابستہ افراد ، ساواکیوں ، کمیونسٹوںاور مجاہدین خلق ( منافقین ) پر مشتمل ایک گروہ سامنے آیا جو اسلامی انقلاب کے خلاف محاذ آرائی کرنے لگا ۔

شاہنشاہی نظام کی سرنگونی اوراسلامی انقلاب کی کامیابی:

یوم اللہ ۲۲ بہمن

۸ فروری ۱۹۷۹ کو ائر فورس کے جوانوں نے امام خمینیؒ کی قیام گاہ ( علوی سکول۔ تہران ) میں حاضر ہو کر آپؒ کے ساته عہد کی ، شاہی فوج مکمل سقوط کے دہانے پر پہنچی تهی ، کیونکہ اس سے قبل بڑی تعداد میں فوجی سپاہی اور آفیسر ز امام خمینیؒ کے فتوے پر چهاؤنیوں کو چهوڑ کر عوامی صفوں میں شامل ہوگئے تهے ۔۹ فروری ۱۹۷۹ء  کو تہران کے اہم ترین ائیربیس پر ائر فورس کے جوانوں نے بغاوت کی تو ( مخصوص ) شاہی گارڈ انہیں کچلنے کے لئے آگے بڑهے ۔ ادهر عوام انقلابی فوجیوں کی حمایت کیلئے میدان کارزار میں کود پڑے ۔  ۱۰ فروری کو پولیس اسٹیشنوں اور مختلف سرکاری اداروں پر یکے بعد دیگرے عوام نے قبضہ کیا ، تہران کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ایک اعلان کے ذریعے کرفیو کے اوقات کو ۴ بجے سہ پہر تک بڑهادیا ، اس کے ساته بختیار نے سکیوریٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلاکر جنرل ہوئزر کی طرف سے بنائے ہوئے فوجی بغاوت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا حکم دے دیا ۔ دوسری جانب امام خمینیؒ نے تہرانی عوام کے نام ایک پیغام میں ان سے اپیل کی کہ اس سازش پر عمل در آمد ہونے سے پہلے وہ کرفیو کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں چنانچہ عوام کی کثیر تعداد جن میں عورتیں ، مرد، بچے ، اور بوڑهے شامل تهے سڑکوں پر نکل کرمورچہ بندی کرنے لگی ۔ فوجی بغاوت میں حصّہ لینے والے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو فوجی اڈوں سے نکلتے ہی عوام نے ناکارہ بنادیا ، اس طرح ابتدائی لمحات میں ہی نہ صرف فوجی بغاوت بلکہ شاہی حکومت کی آخری جدوجہد بهی ناکام ہو کر رہ گئی ۔ ۱۱ فروری کی صبح کو ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سورج طلوع ہونے کے ساته ساته ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت بهی ختم ہوگیا[4]۔

 



[1] الیزے محل کی طرف سے بهیجے گئے نمائندوں کی نوفل لوشاتو میں      امام خمینیؒ سے ملاقات اور بات چیت کی تفصیل کتاب’’ کوثر ۔ اسلامی انقلاب کے واقعات کی تفصیل ‘‘ ج ۲ ص ۵۸۱ پر دیکهئے امام خمینیؒ نے مورخہ۲۵ فروری ۷۹ ۱۹ء  کو کویتی وفد سے اپنے خطاب میں اس گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا ہے دیکهئے مندرجہ بالا مأخذ ، ج ۳ ص ۵۴۵ ۔

[2] بہشت زہراء ؑ میں امام خمینیؒ کا مکمل خطاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور نتائج کی تفصیل کتاب ’’ کوثر ۔ انقلاب اسلامی کے واقعات کی تفصیل ‘‘ ج ۳ صفحات۱۸ تا ۴۷ پر دیکهئے ۔

[3] دیکهئے : مذکورہ مأخذ ، صفحات ۱۳۸ تا ۱۵۵ ۔

[4] ۲۲ بہمن ۵۷ ۱۳ ه ش ( ۱۱ فروری ۱۹۷۹ئ) کو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے آخری دنوں میں ایرانی قوم کی بے مثال رزمیہ داستان کی تفصیل ، شاہ ایران کی بادشاہت کی بنیادیں منہدم ہونے اور فوجی بغاوت ۲۶۱ تا ۳۵۱ پڑهئے ۔

ای میل کریں