امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

جو کام لوگ انجام دے سکتے ہیں حکومت اس سے صرف نظر کرے

عوامی وزارت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تشکیل پر امام خمینی(رح) کی تاکید

"حلقہ الگوی سیاسی حکمت متعالیہ " نامی ادارے کے  تعلیمی  سربراہ نے کہا: امام خمینیؒ تاکید کیا کرتے تھے کہ  وہ کام جنہیں  عوام الناس انجام دینے پہ قادر ہیں حکومت ان  کاموں سے صرف نظر کرے اور لوگوں کو خود انجام دینے کی اجازت دے  ۔

ایسنا رپورٹ کے مطابق حجۃ الاسلام والمسلمین نجف لکزائی نے " الگوئی ایرانی اسلامی پیشرفت" کے مرکز میں سیاسی پیشرفت  کے مبانی  و مسائل کے عنوان سے برگزار کی جانے والی " "الگوئی پیشرفت سیاسی کار آمد"نامی کانفرنس میں" نظریہ پیشرفت متعالیہ"کے مفہوم کی وضاحت کی اور اسے نظام پیشرفت کے نمونہ کے عنوان سے پیش کیا۔

انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: پیشرفت ایک  آزاد مفہوم ہے لیکن اس کا جوہر سماج میں معنوی و مادی ترقی سے مربوط ہے ۔پیشرفت کا مرکزی عنصر ایسی حرکت  ہے جس کی بنیاد چھ رکن یعنی   ابتدا، انتہا، محرک، متحرک، زمانہ اور جگہ پر قائم ہے۔ توحید اور معاد نے اس مسئلہ کی ابتدا اور انتہا کو واضح کیا ہے توحیدی سیاست بھی ابتدا اور انتہا دونوں  ارکان کو واضح کرتی ہے  اور یہ چہار گانہ عوالم میں موجودہ کیفیت سے مطلوبہ کیفیت کی جانب حرکت کا باعث بنتی ہے۔

لکزائی نے ارکانِ پیشرفت میں سے رکنِ محرک کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: محرک دو قسم کے ہیں کچھ معرفتی اور کچھ  ایسے محرک ہوتے ہیں جو انسانی  چال و چلن سے مربوط ہیں دین، مذہب، وحی ، عقل ، تجربہ اور عرف معتبر معرفتی محرکات میں سے شمار ہوتے ہیں اور چال و چلن پر مبنی محرکات میں انسان کی مادی ضروریات کے علاوہ انہیں فرعی ضروریات سمجھنے پر توجہ دلائی جاتی ہے اور انہیں مقید قرار دیا جاتا ہے تا کہ عدل و عدالت برقرار رہے۔

 حلقۂ الگوئی سیاسی حکمت متعالیہ  کے تعلیمی سربراہ نے تاکید کی: اسلام کی عادلانہ سیاست نے عدالت، افراط و تفریط سے پرہیز نیز ستم سہنا اور ستمگری وغیرہ کو مورد توجہ قرار دیا ہے  اور ہر قسم کے ستم سہنےاور اسی طرح  ہر قسم کی ستمگری کو بھی ٹھکرایا ہے۔  وہ پیشرفتہ حرکت جس کی بنیاد توحید سے آغاز ہو اسی پر اختتام پذیر ہو اس میں عدالت کو محورقرار دیتے ہوئے اسے کافی اہمیت دی جاتی ہے۔اس مکتب میں خدائی رہبری کا وجود لازمی ہے  البتہ اس بات پر توجہ لازمی ہے کہ  اس باب میں رہبر کے نظریات حکومتی نظریات سے الگ ہیں  دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ رہبر کے نظریات حکومتی نظریات کے ساتھ ساتھ مورد توجہ قرار پائیں۔

مرکز  الگوئی پیشرفت ِ ایرانی ۔اسلامی کے رکن( لکزائی) نے بیان کیا: حکومتی نظریہ میں واضح ہونا چاہئے کہ اسلام کے مد نظر حکومت کیا بڑی حکومت ہے یا چھوٹی حکومت ، کیا حکومت تمام امور میں مداخلت کر سکتی ہے یا نہیں یا جامع حکومت ہے؟ کیا یہ حکومت ان کاموں میں مداخلت کرسکتی ہے جنہیں عوام الناس انجام دینے پر قادر ہیں ؟ امام خمینیؒ کا عقیدہ تھا کہ جن کاموں کو عوام الناس انجام دینے پر قادر ہیں وہ انہی کے حوالے کئے جائیں اور حکومت انہیں ان کاموں کو انجام دینے کی اجازت دے۔ حتی امام خمینیؒ کا عقیدہ تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عوامی وزارت خانہ ہونا چاہئے تا کہ وہ  حکومتی مشینری کے کاموں پر نظارت رکھے۔

انہوں نے حکومتی نظریہ کے فقدان یا اس کے ضعف  نیزاس  کے نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: حکومتی نظریہ میں فقدان یا ضعف  سیاسی گروہوں اور حزبوں کے کاموں  میں کمیوں کی وجہ  سے ہے۔  

ای میل کریں