مرکزی حیثیت

امام خمینی(رح) کی نظر میں کونسی چیز اہم اور مرکزی حیثیت رکھتی تھی

انبیائے الہی کی تعلیمات جدید دور میں مہجوریت کا شکار ہوگئی ہیں

امام خمینی (رح) کا تیسری اور چھوتی نسل کو تعارف کرانے کے لئے میری نظر میں سب سے پہلا نکتہ جو ضروری ہے یہ ہے کہ امام کو صرف ایک مقدس مآب بنانے والی روایت کا تعارف نہ کرائیں۔ یعنی امام کی اس طرح تعریف نہ کریں کہ اس نسل کی دسترس سے باہر ہوجائے اور امام اس نسل کے لئے مرجع میں تبدیل نہ ہو سکیں۔ بلکہ ہم جدید نسل سے کہیں کہ امام ہم سب انسانوں کی طرح انسانی خصوصیات کے حامل تھے، ہزاروں خصوصیات جو ایک عام انسان رکھتا ہے وہ امام میں بھی تھیں۔

کچھ دنوں پہلے میں نے ایک جگه پڑھا کہ مرحوم سید احمد آقا خمینی نقل کرتے ہیں کہ میں جب بھی آقا (امام خمینی ) کا مشین سے بال کاٹتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ کا سر پر کئی جگہ شکستگی کے نشانات ہیں اور یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مرحوم امام خمینی (رح) بچپن ہی سے ایک جوشیلے اور انقلابی انسان تھے کہ یہ بچہ ایک خاص حالات اور خانوادگی ماحول میں پروان چڑھا ہے اور تربیت پایا ہے کہ تدریجا ایک تاریخی شخصیت میں تبدیل ہوگیا ہے۔

میری نظر میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ امام (رح) کی نظر میں کونسی چیز اہم اور مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور کون سے عناصر فرعی اور ذیلی حیثیت رکھتے تھے۔ یعنی آپ کے دور کے حوادث سے متعلق جو اندیشے تھے لیکن امام کی نظر میں دو بڑا خطرہ اور اندیشہ تھا کہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اندیشہ نسل سے بالاتر خصلت کا حامل ہے یعنی صرف پہلی نسل اور انقلابی تحریک کے ہی کام آنے والا نہیں ہے بلکہ ایران اور عالم اسلام میں پیدا ہونے والی ساری نسلوں کی لئے ہے کے ہونے کا تھا۔ پہلے بعد کے اعتبار سے ہم نے عرض کیا کہ احساسی طور پر امام کی تحریک ظلم و ستم کے افکار سے شروع ہوتی ہے یعنی آپ کا نظریہ تھا کہ خان خمین یمں اپنے دور میں ڈکٹیٹری کررہا ہے اور مرکزی صوبہ کا حاکم ظلم کررہا ہے اس کے بعد رضا شاہ اور اس کا نالائق بیٹا بھی اپنی حکمرانی میں ڈکٹیٹری کررہاہے اور لوگوں کو ظالمانہ پیسے کے نیچے کچل رہا ہے اس وقت انسان کی خوشبختی کا پروگرام نہیں بنا سکتے۔ یہ خصلت بہت ہی حسین اور پاکیزہ ہے اور یہ جدید نسل بھی سمجتی ہے کہ یہ بیان اور نظریہ برا نہیں ہے۔ در حقیقت انسانی سعادت کی پہلی بنیاد انسانی سعادت کی پہلی بنیاد انسان کی آزادی ہے البتہ امام خمینی (رح) آزادی کا دو رخ سے تجزیہ کرتے تھے۔ ایک اندرونی شرکی طاقتوں سے آزادی جس کے بارے میں علم اخلاق میں گفتگو ہوتی ہے۔ اور دوسری بیرونی شرکی طاقتوں سے نجات کو جس کا ظاہر ظلم و استبداد ہے۔

ایک دوسرا نکتہ جو امام (رح) کی شخصیت اور آپ کے نظریہ میں پایا جاتا ہے اور میری نظر میں جدید نسل کے لئے اہم ہے۔ وہ مذہب کی مترکیت سے خارج ہونا ہے۔ امام (رح) کا نظریہ تھا کہ اگر انسان بیرونی طاقتوں کے شر سے محفوظ ہوجائے تو اس کی معاون و مددگار اور اس کی نجات کی تکمیل کرنے والی چیز انبیائے الہی کی تعلیم ہے۔ لیکن افسوس کہ انبیائے الہی کی یہ تعلیمات جدید دور میں مہجوریت کا شکار ہوگئی ہیں۔ لہذا ہم دین اور انبیائے الہی کی تعلیمات کو مہجوریت سے خارج کرکے اس کی وضاحت کریں کہ یہ مذہب یا یہ دین نجات بخش اور آزادی دینے والی خصلت  رکھتا ہے۔ یعنی یہ دین ہمیں آزادی دلانے اور نجات دینے کے لئے آیا ہے نہ کہ ہمیں آکر اسیر کرنے آیا ہے۔ اسی وجہ سے آزادی اور مذہب کی مہجوریت کے درمیان رہائی نامی ایک مشترکہ وصف اور عنصر پایا جاتا ہے۔ امام کے سارے نظریات کی جدید نسل کی رہائی کے مفہوم کی بنیاد پر وضاحت کی جاسکتی ہے کہ مرحوم امام ہمارے اسیر کرنے اور باندھنے کی فکر میں ہرگز نہیں تھے۔ آپ حکومت بنانے کی فکر میں نہیں تھے اور نہ فقہی اور شرعی احکام کہ چند انتخاب میں مجبور کرنے کی فکر میں نہیں تھے۔ امام تو ہمیں نجات دلانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ امام نے جب دیکھا کہ ظلم سے یہ رہائی گمراہی کا شکار ہوسکتی ہے تو آپ نے مذہب کی پابندی کرنے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام کا نظریہ جدید دور میں دنیا کے سیکولار افراد کی توجہ کا مرکز بنا کیونکہ اگر صرف آزادی کی بات کرتے تو آپ وہی مارکس کی دوسری عبارت میں تفسیر کرتے لیکن جب مذہب کی طرف رجوع کرنے یا مذہب کی تعلیمات کو اپنانے کی بات کرتے ہیں تو ہم متوجہ ہوجاتے ہیں کہ یہ آزادی دینی تعلیمات کے مفہوم یا مارکس کے نظر کے خلاف آزادی کی بات کرتے ہیں۔ یہ فلسفہ جدید نسل کے لئے صحیح طریقہ سے بیان نہیں ہوا ہے، میری نظر میں امام کے اس قسم کے نظریات کو بیان کرنا جدید نسل کے لئے ایک عمدہ بات ہوسکتی ہے اور اسے امام کی شخصیت اور نظریہ سے زیادہ آشنا کر سکتی ہے اور آپ کے نظریات کو نسل جدید کے لئے زیادہ مقبول بناتی ہے۔

ای میل کریں