امام حسین(ع)

امام خمینی (رح) کی تحریک آپ کے جد امام حسین (ع) کے مانند تھی

سید نعمت اللہ صالح کا بیان

ہم جب حضرت امام حسین (ع) کے قیام کو دیکھتے ہیں تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) کا قیام کا آغاز ہی خدا کے لئے تھا۔ جب آپ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوئے اور خود کربلائے معلا میں بھی آپ کا مقصد خدا کی خوشنودی تھا؛ اسلامی انقلاب اور قیام میں بھی جب امام خمینی (رح) نے قدم اٹھایا تو آغاز سے آخر تک آپ کا مقصد خدا کی خوشنودی تھی۔ سرکار سید الشہداء (ع) اور حضرت امام خمینی (رح)کے انقلاب اور قیام میں امام (رح) کی ایک دوسری ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ امام حسین (ع) مسلمانوں کے امور کے حل کرنے، دین کا احیاء کرنے اور سنت پیغمبر (ص) کو زندہ کرنا تھا جیسا کہ امام حسین (ع) نے فرمایا:

خرجت لطلب اصلاح فی امت جدی و الامر بالمعروف و النهی عن المنکر

اور یہ بات حضرت امام کے انقلاب میں بھی مشاہدہ ہوتی رہی ہے۔ امام نے انقلاب کے آغاز سے ہی اسی مقصد کو لیکر آگے بڑھے اور ہمیشہ فرماتے تھے: معاشرہ سے فساد کو ختم ہونا چاہیئے۔ ساری برائیاں معاشرہ میں رائج گناہ اور خود پہلوی حکومت کہ سب سے بڑا منکر اور فساد تھی اور ایک ظالم اور ستمگر انسان کی حکومت تھی کا خاتمہ ہونا چاهیئے۔ جیسا کہ خود حضرت امام حسین (ع) نے بھی فرمایا:

ہم  یزید جیسوں کی حکومت کو برداشت نہیں کرسکتے۔

امام (رح) نے بھی اسی حسینی رفتار کی روشنی میں کہ یزید اور اس جیسوں کی حکومت غاصبانہ هے ایک باطل حکومت ہے اور جو لوگ معاشرہ پر حکومت کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے ان کی حکومت بھی فاسد اور باطل حکومت ہے۔ امام خمینی (رح) نے بھی امام حسین (ع) کی اسی روش کے مطابق اپنے مقابلہ کا آغاز کیا اور طاغوتی حکومت سے ٹکرلی۔ الحمدللہ کامیاب بھی ہوئے۔ ایک دوسری ممتاز خصوصیت لوگوں کی شرکت تھی۔ حس طرح امام حسین (ع) نے اپنے قیام کا آغاز لوگوں کے ہمراہ کیا تھا۔ جب آپ (ع) مکہ سے کربلا کی سمت روانی ہوئے تو منزل بہ منزل لوگوں سے گفتگو کرتے چلے اور اپنے لئے سپاہی اور اصحاب و انصار اکھٹا کرتے رہے اور لوگوں پر حجت تمام کی۔ امام حسین (ع) کا قیام کوئی بند قیام نہیں تھا کہ امام حسین (ع) چند افراد اور مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کا آغاز کردیا ہو بلکہ امام حسین (ع) کے مخاطب ہر جگہ کے لوگ تھے۔ اے مسلمانو! اے مومنو! اسی طرح امام خمینی (رح) نے بھی انقلاب کو لوگوں کی مدد سے شروع کیا اور آگے بڑھایا ہے۔

 مقابلہ کی ثقافت یہ ہے کہ امام کے مقابلہ اور آپ کی راہ کی انتہا نہیں ہے۔ امام (رح) نے ایک تحریک شروع کی جس کا استمرار اور باقی رہنا اہم ہے۔ جیسا کہ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ظلم و جور سے ہمیشہ مقابلہ ہوتا رہا ہے اور رہے گا اور ہمارا اسلامی انقلاب اس کا ایک شعبہ تھا اور اس عظیم سنت الہی کی ایک برانچ تھی جو حضرت امام (رح) کے توسط ہدایت پاتی رہی۔ لہذا ہم آج بھی اسی روش اور طرز کے استمرار پر چلتے رہیں۔ استمرار اور مقصد تک پہونچنے کی شرط یہ ہے کہ جو پروگرام اور مقاصد حضرت امام (رح) رکھتے تھے اسے اپنے وصیت نامہ، اپنی رفتار، گفتار اور تقریر میں بیان کرتے رہے لہذا وہی راہ آگے بڑھے، لوگوں کا اتحاد و اتفاق مضبوط ہو، رہبر کی اطاعت کی جائے، خدا پر توکل کیا جائے اور درگاہ الہی میں مدد مانگی جائے۔ یہ سب لوگوں کی کامیابی کا راز تھا اور ان شاء اللہ رہے گا۔

ای میل کریں