او آئی سی اجلاس

او آئی سی اجلاس میں بیت المقدس کو فلسطین کا دار الحکومت تسلیم کر لیا گیا

امریکہ امن بات چیت میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے نااہل ہو گیا

ابنا۔ 57 اسلامی ممالک پر مشتمل تنظیم او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہوا جس میں امریکی صدر ڈولڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو غیرقانونی قرار دے کر مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا ہے۔

ترکی کے شہر استنبول میں او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی برادری نے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا ہے اور عالمی برادری سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی کو‎ئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کا فیصلہ امن عمل کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی بڑھے گی۔

تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہو گا کہ امریکہ ثالث کا کردار ادا کرے کیونکہ اس کا اسرائیل کے حق میں تعصب سامنے آ گیا ہے۔

صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکہ امن بات چیت میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے نااہل ہو گیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’امن بات چیت میں ہم امریکہ کے کسی کردار کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس نے اپنے تعصب کو ثابت کر دیا ہے‘۔

صدر رجب طیب اردوغان نے خطاب میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر رجب طیب اردوغان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی او آئی سی کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اقدام کی پرزور مذمت کی۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتا ہے اور ہم فلسطینیوں کی منصفانہ جد و جہد کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نے مزید کہا کہ امریکی اقدام سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے، مقدس شہر کی تاریخی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش ناقابل برداشت ہے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی القدس کے حوالے سے امریکہ کے غیرقانونی اور غلط فیصلے سے نمٹنے کے لئے سات تجاویز پیش کیں اور مزید کہا کہ امریکہ کو صرف صہیونیوں کے مفادات کی فکر ہے اور اس نے ہرگز فلسطینیوں کے مطالبات کا احترام نہیں کیا۔

اسلامی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی 7 تجاویز پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس اجلاس کے ذریعے امریکی فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت ہونی چاہئے، عالم اسلام کی وحدت ضروری ہے، آپس میں بعض مسائل پر اختلافات ہیں مگر القدس اور فلسطین کے دفاع پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عالم اسلام کے تمام مسائل کو باہمی مکالمے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

صدر روحانی نے اپنی تجاویز کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ امریکہ کو جان لینا چاہئے کہ عالم اسلام ہرگز فلسطین اور اس کے عوام سے غافل نہیں اور فلسطین کے حوالے سے عالمی قوانین کو نظر انداز کرنے کا اقدام ہرگز لاجواب نہیں رہے گا۔

انہوں نے تمام اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ امریکی فیصلے کے خلاف اپنے مؤقف کو کھل کر پیش کریں اور یورپی اور امریکی اتحادیوں کے ساتھ اس حساس مسئلے کو اٹھائیں۔

انہوں نے اپنی چھٹی اور ساتویں تجاویز کو بھی پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے کلیدی کردار کا حوالہ دیا اور اقوام متحدہ میں موجود اسلامی ممالک کے وفود پر زور دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کا فعالانہ انداز میں تعاقب کریں۔

انہوں نے کہا کہ القدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور القدس فلسطین کی اصل پہچان اور نشانی ہے۔

 

ای میل کریں