آیت اللہ شاہ آبادی

آیت اللہ شاہ آبادی کے فضائل کے بارے میں امام خمینی(رح)کا بیان

امام خمینی(رح) نے آیت اللہ شاہ آبادی کے جذبہ جہاد و جنگ کو ہر خاص و عام کی زبان پر جاری ہونے والا جملہ قراردیا

جوان نیوز کی ثقافتی سائٹ یعنی قرآن وعترت پر مشتمل حصہ کی رپورٹ کے مطابق مرحوم آیت اللہ العظمی مرزا محمد علی شاہ آبادی(رہ) کی برسی کے موقع پر ہم غدیر شناسی نامی مؤسسہ کے سربراہ  آیت اللہ سعید شاہ آبادی کی خدمت  میں پہونچے اور ہم نےخاندانِ قیام  و شہادت  کی یادگار  عظیم الشان بزرگ و عالم دین کے بارے  میں سوال کیا:

جناب آپ سب سے پہلے سوال کے عنوان سے مرحوم آیت اللہ العظمی مرزا محمد علی شاہ آبادی  کے اخلاقی فضائل  کے بارے  میں کچھ  بیان فرمائیں:

پہلی بات  تو یہ ہے کہ مجھے عرض کرنا چاہئے  کہ  میں نے صحیح  طریقہ  سے ان کا زمانہ درک نہیں  کیا لیکن  خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے  توفیق نصیب فرمائی کہ میں ان کی تالیفات کے سلسلہ میں سرگرم رہنے  کے ساتھ ساتھ ان میں سے بعض کو چھپواسکوں۔ نیز ان کی رفتارو کردار کے بارے میں مختلف شخصیات کا انٹرویولوں اور اس سلسلہ میں بھی کچھ کتابیں تالیف کرسکوں۔

مرحوم آیت اللہ العظمی مرزا محمد علی شاہ آبادی(رح) کے اخلاقی فضائل   کے بارے میں بزرگوں سے جو کچھ  ہم نے سنا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بزرگ عارف و فقیہ کے اخلاقی فضائل  کو ایک مختصر سے انٹرویو  میں بیان کرنا اور حق ِ مطلب  ادا کرناناممکن ہے۔ لیکن اس جملہ "کسی چیز کو مکمل ادراک کرنے کا مطلب  ہر گز  یہ نہیں  کہ وہ مکمل طور  پر متروک ہوجاتی ہے" کے مصداق کے مطابق  اگرچہ ان کے تمام فضائل میں  نہیں بیان کرسکتا لیکن  ایک مختصر انٹرویو کی حد تک  فضائل کو بیان کررہاہوں۔

مذکوہ بزرگوار کی سب سے پہلی و اہم خصوصیت  ائمہ معصومین علیہم السلام بالخصوص حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ان  کی غیر معمولی محبت  تھی۔ ہمارے بزرگوار چچاجناب آیت اللہ  نصراللہ شاہ آبادی ( حفظہ اللہ ) نقل کرتے  ہیں کہ جب وہ استخارہ کرنا چاہتے تو فرمایا کرتے تھے : خدایا نور ِ زہرا و عصمتِ زہرا سلام  اللہ کا واسطہ  المختصر یہ کہ وہ حضرت زہرا (س) کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتے تھے اور اس کے بعد قرآن کھول کر استخارہ کرتے تھے۔ ان  کی ایک اور خصوصیت ان کی انکساری و تواضع میں پوشیدہ  تھی۔ ہمارے کچھ دوستوں سے منقول  ہے کہ  تہرا ن کے بازار میں مسجد سے  لے کر گھر تک  حتی اگر کوئی چھوٹا دس سالہ  بچہ بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ  اس سے گفتگو کرتے اور اس کی بات غور سے سنتے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اور پورے حوصلہ کے ساتھ اس بچہ کی بات سنتے اور اس کے بعد اگر اس کا جواب درکار  ہوتا تو وہ بھی دیتے اور اگر کوئی جدید مطلب ہوتا تو وہ بھی بیان کرتے تھے۔

موسسۂ غدیر شناسی کے سربراہ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے آیت اللہ شاہ آبادی کے فقہی پہلو سے غفلت  کے بارے میں شکوہ کرتے ہوئے  بیان کیا: میں نے یہ مطلب فقہ و اصول میں ان کے شاگرد مرحوم آیت اللہ العظمی مرزا ہاشم آملی (رہ) کی زبانی عرض کررہاہوں۔ جناب آملی بھی ناراضگی و افسوس کا اظہار کیا کرتے کہ ان کے فقہی و اصولی پہلو سے غفلت ہوئی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام خمینی(رح)  عرفان میں جناب شاہ آبادی کے شاگرد تھے البتہ عرفان  سے ہٹ  کر بھی آپ(رح) نے اخلاق میں بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام میں امام جیسی بے مثال بزرگ ونمایاں شخصیت کو توفیق حاصل ہوئی کہ انہوں نے ظالم حکومت اور پہلوی ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا نیز انہوں نے معاشرتی اور سیاسی پہلو میں جو مقام حاصل کیا توان تمام امور میں انہوں نے اپنے استاد شاہ آبادی  کے اخلاقی و عرفانی مراتب  کا نام لیا اور آپ(رح) نے جہاں  بھی ان کانام لیا تو لفظِ " روحی فداہ "کا استعمال ضرور کیا۔ یہ بہت بڑا جملہ ہے اور جب  یہ جملہ امام (رح) جیسے عظیم الشان شخص  کی زبان  سے جاری ہو اس کی اہمیت  دوبالا ہوجاتی ہے۔ نیز امام(رح) کی نظر میں جناب شاہ آبادی کا جو مقام تھا وہ آپ(رح) کے کسی ایک استادبزرگوار کو بھی نہیں ملا لہذا  امام(رح) کی زبانی یہ توصیفات نیز امام (رح) کی زبانی جناب شاہ آبادی کے عرفانی نکتہ نگاہ و نظریا ت ان کے فقہی پہلو کے مستور  رہنے کا سبب بنے۔ بہر حال یہ اہم ہے کہ ہمارے طلاب  اور بزرگ  یہ جان  لیں  کہ  فقاہت و اجتہاد میں شاہ آبادی کا بہت بڑا مقام ہے لیکن عرفان و فلسفہ میں ان   کی مہارت سبب بنی کہ لوگ ان سے توجہ ہٹا لیں اور ان کے اس پہلو کو نظر انداز کردیں۔  مرحوم دوسرے مرزا شیرازی یعنی آیت اللہ  مرزا محمد تقی شیرازی(رہ) جن کا شمار  بزرگ علماء میں سے ہوتا تھا اور انہوں نے اپنی پوری عمر میں صرف چھ افراد کو اجتہاد کی اجازت  دی اور ان چھ  بزرگوں  میں جناب شاہ آبادی تھے اور یہ چیز ان بزرگوار کے مرتبۂ  فقاہت کی اوجِ بلندی کی  علامت ہے۔  

ای میل کریں