عید اللہ الاکبر، غدیر ولایت کی عید

عید اللہ الاکبر، غدیر ولایت کی عید

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَم

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَم

امام خمینی کے کلام میں غدیر:

"مولا امیرالمومنین (ع) اسم اللہ الاعظم کا جلوہ ہے۔

غدیر، صرف گزشتہ سے منحصر نہیں، غدیر، تمام زمانوں میں ہونا ہی چاہئے۔

وہ جو حیثیت اور لائق اکرام ہے خود امیرالمومنین(ع) ہے اور اس اقدار و لیاقت کے نتیجے میں غدیر موجود ہوا ہے"۔

عید غدیر خم، عید اللہ الاکبر، رسول اللہ الاعظم(ص) اور اہلبیت عصمت (ع) نیز امت مسلمہ کی سب سے بڑی عید ہے؛ اس موقع پر، تمام امت اسلام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

خداوند عالم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اس روز کا احترام رکھتے ہوئے، عید منائے؛ تمام ملائکہ بھی عید غدیر کو آسمانوں پر جشن مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحفہ دیتے ہیں۔

یوم غدیر اور عید غدیر، سال حجۃ الوداع کو اسی صحراء میں پیغمبر اکرم(ص) کے خطبہ غدیر کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی اور حجاج کرام تین دن تک اس صحراء میں بسر کرتے، رسول خدا(ص) اور امیرالمومنین(ع) نیز ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے تھیں، ہر ایک اپنے انداز میں شعر و منقبت سنایا کرتا تھا۔

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:

اس دن ایک دوسرے کو تبریک و تہنیت کہو اور جب بھی کسی مومن بھائی سے ملاقات کرو اسے گلے لگا کر یہ جملہ کہو:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَم الحمدللہ کہ اللہ نے ہمیں امیرالمومنین(ع) کی ولایت سے وابستہ اور متمسک رہنے کی توفیق عطا کی۔

حدیث غدیر، اسلام کی متواتر احادیث میں سے ہے، جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد عامہ و خاصہ نے اصحاب رسول سے نقل کیا ہے؛ اس لئےکہ غدیر کا واقعہ، تاریخ اسلام کے سب سے اہم واقعات میں سے ہے۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ، مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کیطرف روانہ ہوئے، غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ آپ(ع) نے نماز ظہر باجماعت ادا کی اور منبر پر تشریف لے گئے؛ حضرت علی کو اپنے پاس بلایا۔ اللہ کی حمد و ثناء کے بعد، حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ " جس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں۔

اہل سنت برادران نے " مولا " کی تفسیر، دوستی اور محبت سے کی ہے، لیکن پیروان و شیعیان علی(ع) نے " مولا " سے مراد، زعامت اور امت اسلامی کی رہبری، اخذ کیا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ آیت: النَّبىِ‏أَوْلىَ‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ کے مطابق، جو بھی مجھے " مولا " کی حیثیت سے دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حقدار سمجھتا ہے، ان سب کا "علی" بھی مولا و امیر، اور ولایت کا حقدار ہے۔

رسول خدا (ص) نے اسلام کے تین بنیادی اصول " توحید، نبوت اور معاد " کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے تینوں اصولوں پر اقرار بھی لیا؛ پھر غدیر خم میں " مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ " کی بنا پر جو حکم خدا " يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ " کے مطابق تھا، اعلان اصل ولایت پر تاکید فرماتے ہوئے حاضرین سے بیعت لیں اور اس طرح اصول دین کے اقرار سے مربوط ہونے سے واضح ہو جاتا ہےکہ یہاں ولایت سے مراد، امت اسلامی کی رہبری اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ہونا ہے۔

علامہ امینی(رح) نے الغدیر میں 60 راویوں کا نام ذکر کیا ہے، جنہوں نے حدیث تہنیت «بَخْ بَخْ لَکَ یَا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ‏ مَوْلَایَ‏ وَ مَوْلَى‏ کُلِّ‏ مُسلِمٍ» کو نقل کیا ہے۔

واضح رہےکہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب، امت اسلامی کی رہبری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی ہے۔

والسلام علی من اتبع الھدی

ای میل کریں