شہید فخرالدین

شہید فخرالدین نظریہ پاکستان کے محافظ اور ارض شمال میں قافلۂ خمینی (رح)کے سپہ سالار تھے

شہید فخرالدین، پاکستان کے حوالے سے ایک عظیم سیاسی وژن بھی رکھتے تھے

دو سال قبل آل سعود کی مجرمانہ غفلت کے سبب دوران حج منٰی مقدس میں پیش آنے والے افسوسناک سانحے میں شہید ہونے والے پاکستان کے نامور عالم دین علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کی دوسری برسی آج قمراہ مرکزی عیدگاہ میں نہایت عقیدت و احترام کیساتھ منائی گئی۔ برسی کی تقریب میں علماء و عمائدین اور جوانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جلسہ گاہ کو شہید غلام محمد فخرالدین کی یادگار تصاویر اور شہدائے ملت اسلامیہ کی تصاویر سے مزین کیا گیا۔ برسی کی تقریب میں مقررین نے انکی شہادت کو پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا۔ انہوں نے اس بات کی طرف نشاندہی کی کہ جس انداز سے سانحہ منٰی پیش آیا وہ محض اتفاق و حادثہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے پیچھے منظم سازش ہونے کے امکانات کو کبھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس افسوسناک اور اندوہناک واقعے میں مسلمان سائنسدانوں، علماء اور مفکرین کی شہادتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ مقررین نے علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کی شہادت کو ملت اسلامیہ اور ملت پاکستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ شہید سانحہ منٰی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے خانوادہ شہید کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ مختار علی نے شیخ غلام محمد کی شہادت کو گھناونی سازش قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ شیخ غلام محمد فخرالدین ہر سال دفتر رہبری کی جانب سے تبلیغ و ترویج دین کے لئے حج پر تشریف لے جاتے تھے۔ آل سعود کی تکفیری حکومت شیخ غلام محمد فخرالدین کے نظریئے اور سعودی عرب میں تبلیغی خدمات سے خائف تھی۔ انہوں نے کئی بار نام نہاد مفتیوں سے علمی مبارزہ کرکے اسلام محمدی کی حقیقی تشریح کی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ آل سعود کی حکومت نے باقاعدہ سازش کے تحت انہی راستوں کو بند کیا، جن پر دنیائے اسلام کی نامور شخصیات حج پر تشریف لائی ہوئی تھیں، ان میں سائنسدان بھی تھے۔ خانوادہ شہداء کی نمائندگی میں انہوں نے شہید کی برسی کے انعقاد پر ایم ڈبلیو ایم کا شکریہ ادا کیا اور برسی کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کا بھی خیر مقدم کیا۔

شیخ غلام محمد فخرالدین کی علمی کاوش پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ شہید کی زندگی کا ایک غالب اور متاثر کن پہلو انکا علمی پہلو تھا۔ وہ علمی طور پر نہایت مستحکم تھے۔ وہ علمیت اور دلیل و برہان سے ہٹ کر گفتگو نہیں کرتے تھے۔ طالب علمی کے دور سے شہادت تک وہ علمی مبارزوں میں فتح و کامیابی کے جھنڈے بلند کرتے رہے۔ پی ایچ ڈی کے تھیسز کے دوران دفاع کرتے ہوئے نہ صرف انہوں نے جید اساتذہ کو متاثر کرکے غیر معمولی نمبر لئے بلکہ اساتذہ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہم سے زیادہ علامہ موصوف اہل نظر تھے۔ انہوں نے کہا کہ انکی شہادت سے علمی میدان میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے، جس کے بعد یہ قول صادر آتا ہے کہ موت العالم موت العالم۔ انکی موت بلا شبہ ایک عالم علم کی موت کے مترادف ہے۔ آغا علی رضوی نے شہید منٰی کی مجاہدانہ زندگی اور مبارزے سے پر زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مجاہدت کی اور انکی زندگی جامع الصفات زندگی تھی۔ وہ نہ تھکنے والا دین خدا کا مجاہد و مبارز اور عابد شب زندہ دار تھے۔ طاغوت کے خلاف مبارزہ آرائی اور حق آواز کو بلند کرنا انکا شعار انکی زندگی کا لازمہ تھا۔

وہ ایک طرف ارض شمال میں قافلہ خمینی(رح) کے سپہ سالار تھے اور دوسری طرف پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے امین اور پاسدار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں آئی ایس او پاکستان کو مثالی تنظیم قرار دیتے ہوئے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ ملکی افق پر مجلس وحدت مسلمین نے سیاسی و مذہبی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو انہوں نے اس جماعت کی قیادتوں کے کندھے سے کندھا ملا کر خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے قم میں ایم ڈبلیو ایم کی سربراہی بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ شہید فخرالدین پاکستان کے حوالے سے ایک عظیم سیاسی وژن بھی رکھتے تھے۔ وہ قائل تھے کہ پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں میں علماء اور مذہبییوں کا کردار ہونا چاہیے۔ سیاست کی زمام دین شناس اور عالموں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اس نظریئے کے لئے انہوں نے جدوجہد بھی کی۔ وہ ہر حوالے سے ایک جامع شخصیت تھے۔ انہوں نے میدان میں عمل میں رہ کر ایک ایسا نقش مرتب کیا ہے جو قوم کے لئے زندگی کا ذریعہ اور وسیلہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید کا رابطہ رہبر معظم کے قریبی ترین رفقاء سے تھا اور مجتہدین عظام و عالمی سطح کے مفکرین بھی انکی شخصیت کے معترف تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ شہید کے آثار کو جمع کرنے اور کتابی صورت میں لانے کے لئے ایک کوشش شروع کی ہے، جسے کامیاب بنانے کے لئے عوام، علماء، خانوادہ شہدء اور انکو چاہنے والے اپنی یادداشت اور شہید کے آثار کو مجلس وحدت کے دفتر تک پہنچائیں۔ برسی کی تقریب کا اختتام دعائے امام زمانہ سے ہوا۔

ای میل کریں