آیت ‌الله سیستانی، مرجعیت کے وقار کا حافظ

آیت ‌الله سیستانی، مرجعیت کے وقار کا حافظ

امام خمینی علیہ الرحمہ کے کلام: "جمہوری اسلامی نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ " اسلام اور جمہوریت کے درمیان امتزاج کےلئے مبنا قرار پایا۔

امام خمینی علیہ الرحمہ کے کلام: "جمہوری اسلامی نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ " اسلام اور جمہوریت کے درمیان امتزاج کےلئے مبنا قرار پایا۔

نامہ نگار: آپ کے خیال میں عراق میں قومی اتحاد کو برقرار رکھنے میں آیت الله سیستانی کا کردار کس حد تک موثر واقع ہوا ہے؟ اور عراقی سنی قبائل، با آسانی کیسے تکفیری گروہ داعش کے دھوکے میں آگئے؟

فرمانیان: آیت ‌الله العظمی سیستانی کا موقف، عراق میں بہت سے برکات کا منشا رہا ہے جس کی بدولت عراق کے بہت سے مسائل یا تو حل ہوئے ہیں یا پھر ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

عراق میں عراقی سنیوں کی نسبت بعض سخت گیر موقف کے حامل شیعوں کا کردار، عراقی شیعہ حکومت  اور وہاں کے وزیر اعظم ابراہیم جعفری اور نوری مالکی کے خلاف شدید رد عمل کا باعث بنا تھا تاہم آیت الله سیستانی کے موقف نے شعلہ فشاں آگ میں پانی کا کام کردیا۔

انہوں نے اپنی تمام نشستوں اور ملاقاتوں میں اہل سنت کے مسائل پر بطور خاص توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے ان کے حقوق کی ادائیگی پر کافی تاکید کی ہے اور شیعہ سنی جنگ سے متعلق ہمیشہ خبردار کرتے رہے ہیں، آپ نے سنی براداران کی حمایت میں اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

" یہ نہ کہو کہ سنی ہمارے بھائی ہیں بلکہ وہ ہماری جان ہیں"

آیت اللہ سیستانی کے اس بیان پر مبنی فتوے نے عراق میں بہت گہرے اثرات مرتب کئے۔ ایسے وقت میں جب تکفیری گروہ داعش  ملک کے وسیع اور عریض حصے پر خون آشام  پنجے گاڑ چکا تھا، آیت ‌الله العظمی سیستانی کے داعش کے خلاف جہاد پر مبنی حکم نامے نے قومی یکجہتی کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

وحدت سے متعلق آیت الله سیستانی کے طریقہ کار میں ایک طریقہ، لوگوں سے خصوصی اور عمومی ملاقات ہے، جب بھی اہل سنت کمونیٹی اور حکومتی اراکین، ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کےلئے آیت الله العظمی سیستانی سے ملاقات کرنا چاہتے تو وہ خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے تاکہ اہل سنت کے ساتھ دو طرفہ تعامل کا یہ سلسلہ جاری رہے۔

جنگ سے متعلق آپ کے بہت سے بیانات نے آپ کو صرف عراق ہی میں نہیں بلکہ اکثر اسلامی ممالک، خاص کر شیعہ مکتب کے پیروکاروں کےلئے آپ کو مرجع فکری کے طور پر پہچانوایا ہے، اس وقت بہت سے اہل سنت کے ہاں آپ کے موقف کو سیاسی اور سماجی میدان میں معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

نامہ نگار: آیت الله العظمی سیستانی کی  مسائل پر گہری نظر نیز ان کی رفتار، مرجعیت اور فتوی کے وقار تحفظ میں کس حد تک موثر رہی ہے؟

فرمانیان: آیت الله سیستانی کے مرجع ہونے سے پہلے، کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ مرجعیت کے تحفظ اور شیعوں کے وقار میں اس حد تک نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایران میں رونما ہونے والے تمام واقعات پر آیت الله العظمی سیستانی کی نظر ہے اور ان کے فیصلے مرجعیت میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان کی اچھی عادتوں میں سے ایک یہ ہےکہ وہ ایسے سیاسی مسائل میں مداخلت کرنے سے گریز کرتے ہیں جو جزئی اور معمولی ہیں اور ان کی یہ عادت، عراق اور ایران میں مرجعیت کی قدرت میں اضافہ کا باعث بنی ہے کیونکہ ایک دینی مرجع کےلئے عالم اسلام اور تشیع کے بڑے مسائل میں اظہار نظر کرنا چاہئے نہ کہ معمول مسائل میں، یہی وجہ ہےکہ جب بھی انہوں شیعہ جماعتوں کے درمیان عدم اتفاق کے احساس پر کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ ایک روحانی پیشوا کے عنوان سے دونوں فریقوں سے اختلافات کو دور کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اسے شیعوں کے حق میں غیر مفید قرار دیا ہے۔

جہاں ایک طرف آپ نے جزئی اور معمولی مسائل میں مداخلت کرنے سے گریز کیا ہے وہیں کسی پارٹی کی جانب سے ایسے اقدام پر جو بڑے پیمانے پر امت مسلمہ، قومی یکجہتی اور شیعیت کےلئے ممکنہ طور پر نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے، مداخلت کرتے ہوئے انہیں اس عمل سے باز رہنے کی تاکید کی ہے اور غالبا آپ کی جانب سے یہ تاکید خصوصی طور پر کی جاتی تھی اور انہی تمام عوامل نے بہت سے میدانوں میں مرجعیت کے وقار کو محفوظ بنایا، اور یہ وہی راز تھا جس نے لوگوں کے دلوں میں یہ احساس اجاگر کردیا کہ موجودہ دور میں جو ذات، قومی یکجہتی سمیت مختلف عراقی اقوام اور شیعوں کے درمیان اتحاد جیسے بہت سے مسائل کا بیڑا اٹھا سکتی ہے تو آیت الله العظمی سیستانی ہی کی شخصیت ہے۔

نامہ نگار: تاریخ ساز فتووں کی کچھ مثالیں کی جانب اشارہ کریں جو راہ گشا ہونے کے ساتھ تاریخ ساز بھی ہو؟

فرمانیان: تاریخ ساز فتووں کی ایک لمبی فہرست ہے، جیسے شیخ صدوق علیہ الرحمہ کا تحریف قرآن سے متعلق تاریخ ساز فتوی، جس میں آپ نے فرمایا:

" مکتب تشیع کے نزدیک، تحریف قرآن پر مشتمل تمام روایات، غیر معتبر ہیں اور کسی صورت میں قابل قبول نہیں اور اہل بیت علیہم السلام نے تحریف پر مشتمل روایات کو ٹھکرادیا ہے"

شیخ صدوق کے اس فتوے نے اس دور میں تحریف کے ذریعے شیعوں کے خلاف انجام دئے جانے والے پروپیگنڈوں پر پانے پھرتے ہوئے ایسی فضا قائم کی جو بدستور آج بھی قائم ہے۔

ناصر الدین شاه کے دور میں تنباکو نوشی کے خلاف فتوے کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، اس کے علاوہ امام خمینی علیہ الرحمہ کے بہت سے فتوے ہیں؛ امام خمینی نے فرمایا:

"جمہوری اسلامی نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ "

آپ کا یہ موقف اسلام اور جمہوریت کے درمیان امتزاج کےلئے مبنا قرار پایا، آپ کا یہ کلام درحقیقت موجودہ نظام کےلئے معیار ٹھہرا ہے اور موجودہ دور میں بہت سے اسلام پسند سیاسی گروہ اسی وادی میں داخل ہو رہے ہیں۔

یہ تاریخ ساز فتووں کے کچھ نمونے ہیں کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کا اثر ہزار سالہ تاریخ میں برقرار ہے اور ممکن ہےکہ آئندہ آنے والے ہزار سالوں میں بھی ان کا اثر اسی طرح  بدستور باقی رہے۔

http://www.ensafnews.com

ای میل کریں