مرجعیت اور قیادت

مرجعیت اور قیادت سے متعلق نئے نظرئے کے بارے میں بحث کی ضرورت

آج ہم ملک اور نظام کا انتظام چلا رہے ہیں لیکن یہ انتظام بہت سے امور میں اسلام کی عدم شناخت اناڑی پن ناتجربہ کاری اور عدم آگہی کے ہمراہ ہے

ایسا نہیں  ہوسکتا کہ جو لوگ دین مبین اسلام کی سربلندی کی آرزو رکھتے ہیں  اور ماضی بعید وقریب میں  مسلمانوں  کی ترقی وانحطاط کے اسباب کے بارے میں  سوچتے رہے ہیں  وہ اپنی قیادت کرنے والی جماعت (یعنی علما کے پاکیزہ گروہ) کے بارے میں  سوچ بچار نہ کریں  اور اس کی ترقی وسربلندی کی آرزو نہ رکھیں  اور اس کی مشکلات اور ناکامیوں  سے رنجیدہ خاطر نہ ہوتے ہوں ۔ ہمارے علمائے کرام کو اس نکتے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ علما اور اسلام کی بقا ودوام اس میں  ہے کہ زعمائے دین، آج کے دور میں  تخلیقی اور گہری اصلاحات اپنے ہاتھ میں  لیں ۔ آج ان کا واسطہ ایک نیم بیدار ملت کے ساتھ ہے جو آئے دن مزید بیدار ہوتی جا رہی ہے۔ امام خمینی  (ره) اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے کے بارے میں  ارشاد فرماتے ہیں :

’’اسلامی حکومت میں اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ انقلاب اور نظام کا فطری تقاضا یہ ہے کہ مختلف موضوعات میں اجتہادی اور فقہی آراء، اگرچہ ایک دوسرے کے مخالف ہوں ، ہمیشہ آزادی کے ساتھ بیان کی جائیں کسی کو انہیں بیان کرنے سے روکنے کا حق نہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۲۶)

 اس دور کی نسل، علما اور اسلام سے جو توقعات رکھتی ہے وہ گزشتہ نسلوں  کی توقعات سے مختلف ہیں ۔ غیر منطقی اور خام توقعات سے صرف نظر کریں  تو بھی ان میں  سے اکثر توقعات بجا اور درست ہیں ۔ اگر ہمارے علما جلدی حرکت میں  نہ آئیں ، اپنے گریبان کو عوام کے پنجوں  سے چھڑا کر انہوں  نے اپنی قوتوں  کو منظم نہ کیا اور روشن خیالی سے قدم نہ اٹھایا تو دین سے لاتعلّق اصلاح پسند افراد کی طرف سے ان کو ایک بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

باوجود اس کے کہ ولایت مطلقہ فقیہ کا نظریہ بذات خود معاشرے کا انتظام چلانے کیلئے بہترین نمونہ عمل ہے اور معاشرتی زندگی کے میدان میں  عصر حاضر کے انسان کی بہت سی ضرورتوں  کو پورا کرسکتا ہے لیکن تین وجوہات (۱۔  نظریہ کا مکمل طورپر استنباط نہ ہونا۔  ۲۔  عوام بلکہ خواص تک کیلئے اس کا ٹھیک طرح سے واضح نہ ہونا۔  ۳۔  اس پر ٹھیک طرح سے عمل درآمد نہ ہونا) کی بنا پر ابھی بھی کچھ سوالات اور مبہم پہلو اور اس کے بارے میں  پائے جاتے ہیں  جو کبھی کبھی یونیورسٹی اور حوزہ کی جانب منظر عام پر آتے اور ایک قسم کے تناؤ کا سبب بنتے ہیں  اگرچہ اس کا امکان پایا جاتا ہے کہ یہ سوالات بد نیت افراد کی طرف سے اٹھائے جائیں  لیکن اس میں  کوئی شک وشبہ نہیں  کہ بعض اہل فکر ونظر افراد کی طرف سے حتی اس نظریہ کے حامیوں  کی طرف سے بھی کچھ ایسے سنجیدہ اور متین سوالات اٹھائے گئے ہیں  کہ اگر ان کا مناسب اور شائستہ جواب نہ دیا گیا تو یہ سوالات وابہامات اس ترقی یافتہ اور نجات بخش نظریئے کے ناقابل اعتبار ہونے کی زمین فراہم کرسکتے ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ علمی اور دوستانہ فضا میں  ان سوالات کو زیر بحث لا کر ان کے حل کی ممکنہ راہیں  سوچیں۔

ای میل کریں