امام خمینی اور قرآن

قرآن سے استفادہ کی راہ میں رکاوٹیں امام خمینی(ره) کی نظر میں

مسئلہ حجاب خود قرآن کریم کا ہی بیان کردہ ہے

قرآن کے مخاطبین اور اس سے استفادہ کرنے والوں  کی راہ میں  ایک بڑی مشکل جو حائل ہے وہ فاصلے ہیں  جن کو عرفانی اصطلاح میں  حجاب یعنی پردہ کہتے ہیں  اور یہ پردے نور ہدایت ومعرفت دل تک پہنچنے سے مانع ہوتے ہیں  یہ حجاب قرآن پڑھنے اور سننے والے کے دل کو معنوی نور سے روشن نہیں  ہونے دیتا اور آدمی قرآن کے ظاہری معنی کو تو حاصل کرسکتا ہے لیکن اصل پیام الٰہی کی گہرائیوں  تک نہیں  پہنچ سکتا۔ لہذا اس کیلئے آیات قرآن سرد اور تاریک بیابان میں  جلائی گئی آتش ہے جس سے اس کو نہ تو گرمی نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی روشنی۔

مسئلہ حجاب خود قرآن کریم کا ہی بیان کردہ ہے۔ البتہ مسلمان عرفاء کے بیانات میں  بھی اس کا ذکر نظر آتا ہے۔خداوند متعال جب گناہوں  کے نتیجے میں  دلوں  کے زنگ آلود ہونے کی بات کرتا ہے تو ان لوگوں  کے بارے میں  کہ جن پر خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں  اور وہ ان کا انکار کرتے ہیں  فرماتا ہے: { کلّا انّہم عن ربّہم یومئذٍ لمحْجوبُون } (مطففین ؍۱۵) ’’حیرت ان لوگوں  پر جو اس روز اپنے پروردگار سے حجاب میں  ہوں گے‘‘۔

آیات کے انکار کی وجہ سے خداوند عالم اور بندوں  کے درمیان پردے حائل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ شخص الٰہی حقائق کو نہیں  دیکھ سکتا ہے۔ دل کے ذریعے معارف اور حقائق کو آئینے میں  اشیاء کی صورت کے انعکاس کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اگر یہ آئینہ کثیف اور زنگ آلودہ ہو یا اس کے اور چیز کے درمیان پردہ واقع ہو تو پھر اس میں  ان اشیاء کا عکس نظر نہیں  آئے گا۔ پردے کا ہٹایا جانا، آئینے کا صاف کیا جانا اور زنگ کا ختم کیا جانا ضروری ہے تاکہ دیکھنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔ اس بارے میں  امام خمینی  (ره) فرماتے ہیں :

’’کتاب الٰہی کے متعلّم اور اس سے استفادہ کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ ایک اور اہم ادب کا خیال رکھے تاکہ اس سے فائدہ حاصل ہو اور وہ ادب استفادہ کی راہ میں  حائل رکاوٹوں  کو دور کرنے سے عبارت ہے جن کو ہم قرآن اور مستفید کے درمیان حجب سے تعبیر کرتے ہیں ‘‘۔ (آداب الصلاۃ، ص ۱۹۵)

ابن عربی (متوفی ۶۳۸ ق) کی نظر میں  حقائق کے ادراک کی راہ میں  سب سے بڑا مانع نفس انسانی ہے۔اور جب تک یہ بر طرف نہیں  ہوتا یہ پردے نہیں  اٹھ سکتے۔ اسی لئے امام خمینی  (ره) فرماتے ہیں : جب تک انسان اپنے پردے کے اندر ہے اس وقت تک قرآن کو، کہ جو ایک نور ہے، درک نہیں  کرسکتا وہ خیال کرتا ہے کہ درک کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں  درک نہیں  کرسکتا ہے، کیونکہ جب تک انسان  اپنے تاریک اور ظلمانی پردوں  سے باہر نہ نکلے، جب تک وہ خواہشات نفسانی اور خود پسندی میں  مبتلا رہے گا، جب تک ان امور سے دوچار رہے گا جو اس نے خود اپنے اندر قائم کر رکھے ہیں  اور اپنے لیے مقام ومنصب تصور کرے گا اور ان تاریکیوں  سے باہر نہیں  نکلے گا جو تہہ بہ تہہ ایک دوسری کے اوپر ہیں  (نور ؍۴۰) اس وقت تک اس کے دل پر نور الٰہی کا عکس نہیں  پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد چاہتے ہیں  کہ قرآن کو سمجھیں ، اس کے معانی سے آگاہ ہوں ، معنوی ترقی کی سیڑھی پر چڑھیں ، اوپر جائیں ، مقامات تک پہنچیں  اور ہر تلاوت کے ذریعے ایک مقام حاصل کریں  تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ تمام پردوں  کو ہٹا دیں ۔

حجاب راہ تویی حافظ از میان بر خیز          خوشا کسی کہ در این راہ بی حجاب رود   (کلیات حافظ، ص ۶۳)

[حافظ تو خود راستے کا حجاب ہے اور اس کو درمیان سے ہٹا دے۔ خوش قسمت وہ ہے جو اس راہ میں  بغیر پردوں  کے جائے]۔

امام خمینی  (ره)نے ایک دوسرے شعر کے اس مصرع کو بھی بطور دلیل پیش کیا ہے:’’ تو خود حجاب خودی حافظ از میان بر خیز‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۸۹)


ای میل کریں