انٹرویو

ایران میں سیاسی انقلاب کے ساتھ ساتھ فرہنگی انقلاب بھی آیا ہے (1)

مغربی ممالک سے جو سکیولرزم کا تفکر آیا ہے وہ کہتا ہے کہ حکومت سب سے اوپر ہے اور یہی سے یہ فکر نکل کر آتی ہے کہ مذہبی لوگ سیاست میں داخل نہیں ہو سکتے

سب سے پہلے آپ ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔

میرا نام ابھیمنیو کوہر ہے میں ایک ہندو ہوں اور ہندوستان سے میرا تعلق ہے، اپنی پڑھائی پوری کرنے کے بعد اس وقت ہم اقوامی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف طرح کے سمینار وغیرہ منعقد کرتے رہتے ہیں، اور جو آج دنیا کے حالات اور جدید معاملات ہیں ان پر ہم کانفرنس کرتے رہتے ہیں۔

 

کیا آپ پہلے سے امام خمینی کو جانتے تھے یا نہیں اور اگر جانتے تھے تو کتنا؟

دیکھیں ہندوستان میں بدلاو لانا ہمارا خواب رہا ہے تو اگر آپ کو ایک ملک کے اندر بدلاو لانا ہے تو دنیا میں جو بدلاو ہو چکے ہیں ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے اسی سلسلے میں جب میں ایران کے انقلاب کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا تو امام خمینی کے بارے میں پڑھا، میری نظر میں ایرانی انقلاب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف خود انقلاب لانا ایک بہت بڑی چیز ہے لیکن اس کے بعد وہ آج ۳۵ سال سے اسی مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ اہم بات ہے، پوری دینا کی استکباری طاقتیں اس کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں جیسا کہ ابھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے ایران پر ظالمانہ پابندیاں لگا دی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود جس طرح سے آج ایران آگے بڑھ رہا ہے یہ امام خمینی کے تفکرات کا ہی نتیجہ ہے۔

 

کیا امام خمینی کے تفکرات کو اسلامی ممالک سے ہٹ کر غیر اسلامی ممالک میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے؟

میں آپ کو ایک مثال دینا چاہوں گا کہ مہاتما گاندھی تھے وہ ہندوستان کے ایک بڑے نیتا تھے لیکن ان کو دنیا کے بہت سے ملکوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح سے امام خمینی کی ایمج ہے، تو یہ مسلمان ہندو سکھ اور عیسائی ان کا کچھ مسئلہ نہیں ہے امام خمینی نے انسانیت کے لئے جو کچھ کیا اور انقلاب کے دنوں میں انہوں نے جو کیا اور کہا اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر ملک کے انقلاب اور وہاں کے بدلاو میں اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور امام خمینی کے تفکرات سے استفادہ ہو سکتا ہے۔

 

آخر کیا وجہ ہے کہ امام خمینی نے ایک مذہبی راہنما ہونے کے باوجود سیاست میں قدم رکھا اور جو عوام مذہبی راہنما کو سیاست سے دور دیکھنے کی عادی تھی اس نے ان کا بھرپور ساتھ دیا؟

دیکھیں سیاست اور دین کو جدا رکھنا سکیولرزم کا رفکر ہے اور یہ تفکر سولہویں صدی میں آیا ہے اور یہ وہ دور تھا کہ جب پوری مغربی دنیا چرچ کے ظلموں اور بے جا پابندیوں سے تنگ آچکی تھی جس کے بعد وہاں بلاو کی لہر اٹھتی ہے اور جس کے بعد چرچ کو ہٹا کر حکومت کا قیام کیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ تفکر وجود میں آتا ہے جس نے آنے کے بعد یہ کہا کہ مذہب الگ ہے اور سیاست الگ، اور اس کی اصل وجہ جاننے کے لئے ہم کو دیکھنا ہوگا کہ یہ سکیولرزم کا تفکر کیسے پیدا ہوا اور کیوں یہ کہا گیا کہ کوئی مذہبی انسان سیاست میں دخل نہیں دے سکتا یہ پوری طرح سے مغربی تفکر ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس موضوع پر تھوڑا تفصیل سے اپنی بات رکھنا چاہوں گا۔

مہاتما گاندی نے ایک بات کہی تھی کہ ہم مذہبی ہم آہنگی میں یقین رکھتے ہیں سکیولرزم میں نہیں، یہ مذہبی ہم آھنگی اور سکیولزم میں بہت معمولی سا فرق ہے لیکن جب عملی میدان میں آئیں تو یہ بہت بڑا فرق بن جاتا ہے، سکیولرزم یہ کہتا ہے کہ سبھی مذاہب برابر ہیں اور ان سب کے اوپر حکومت ہے لیکن مذہبی ہم آھنگی کہتی ہے کہ سب مذہب برابر ہیں اگر میں ہندو ہوں تو مجھے ہندو ہونے پر فخر ہے لیکن میں اسی وقت اسلام کا بھی اتنا ہی احترام کرونگا جتنا میں ہندو مذہب کا کرتا ہوں اور مذہبی ہم آہنگی ساتھ میں یہ بھی کہتی ہے کہ جو حکومت ہے اس کو بھی سب کا احترام کرنا ہوگا۔

مغربی ممالک سے جو سکیولرزم کا تفکر آیا ہے وہ کہتا ہے کہ حکومت سب سے اوپر ہے اور یہی سے یہ فکر نکل کر آتی ہے کہ مذہبی لوگ سیاست میں داخل نہیں ہو سکتے اور یہی تفکر آج ہم لوگوں کے اندر انجکٹ کیا جا رہا ہے، میرا ماننا ہے کہ مذہب انسان کو اچھی سمت اور صحیح راستہ پر لے جاتا ہے لیکن ہمارے قوم کی پریشانی یہ ہے کہ کچھ ہندو شدت پشند ہیں، عیسائی شدت پسند ہیں مسلم شدت پسند ہیں جن کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن وہ دنیا کو دکھاتے ہیں کہ جیسے وہی مذہب کے سب سے بڑے راہنما ہیں۔

میں ایک بات اور کہوں گا کہ یہ سکیولرزم جو مغرب سے آیا ہے اس کا ہمارے کلچر میں کوئی حصہ نہیں ہے چاہے وہ ایران کا کلچر ہو یا ہمارے ہندوستان کا، ہمارے یہاں کبھی ایسا رہا ہی نہیں کہ کوئی مذہب حکومت کو چلائیگا یعینی ہمارا یہ کلچر نہیں رہا ہے کہ جیسے کوئی مندر یا مسجد حکومت کو چلائے گی اور اپنے بے بنیاد فیصلوں کو عوام پر مڑھے گی، تو اگر صحیح سے دیکھا جائے تو سکیولرزم کا کانسپٹ ایک بیرونی کانسپٹ ہے اور یہ ہماری فکروں میں انجکٹ کیا گیا ہے اور چوں کہ یہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے اسی لئے ہم امام خمینی کے معاملے میں اس کو ہارتا ہوا دیکھتے ہیں کہ مغرب نے لاکھ یہ فکر ہمارے ذہنوں میں گھسانے کے کوشش کی لیکن جب امام خمینی جیسا مذہبی راہنما سیاست کے شیطان کے سامنے کھڑا ہوا تو عوام امام خمینی کے ساتھ تھی شاہ کے ساتھ نہیں۔

 

جب سبھی مانتے ہیں کہ سبھی مذاہب کا احترام کیا جائے تو پھر کیو مغربی میڈیا اور کافی حد تک ہمارے ہندوستان کی میڈیا بھی اسلام حراسی کو بڑھاوا دے رہی ہے؟

دیکھیں ۱۹۶۰ میں مغرب میں ایک دور آتا ہے مذہبی تنازعات کا تہذیب کے ٹکراو کا سمول بی ہلٹن کا خود کا کہنا ہے کہ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے تو آگے کو جو لڑائیاں ہوں گی وہ ہمارے مذہب، ذات وغیرہ پر لڑے جائیں گے اور یہی چیز آج ہم دیکھ رہے ہیں، آج جو عراق میں ہو رہا ہے لیبیا میں کیا ہوا تو یہ ساری چیزیں وہی مذہب اور تہذیب کے ٹکراو کے تحت کی جا رہی ہیں جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو امریکا نے اپنا ایک فرضی دشمن بنا لیا تا کہ اس کے اسلحے کی صنعت چلتی رہے اس کے ہتھیار بکتے رہیں، اور اپ جانتے ہیں کہ امریکی کے اقتصاد کا ۷۰ سے ۸۰ فیصد حصہ اس کے اسلحہ کی انڈسٹری سے آتا ہے تو یہ ان کی ضرورت ہے کہ کوئی ان کا دشمن رہے تو انہوں نے سب سے اچھا نشانا جو بنایا وہ اسلام کو بنایا اور جس کا نتیجہ ہم افغانستان، لیبیا، عراق اور شام میں دیکھ رہے ہیں۔ اور آج امریکا کی دکانداری چلتی رہنے کے لئے اسلام کو آج میڈیا بہت خطرناک طرح سے پیش کر رہا ہے اور اس میں سعودی عرب اور دوسرے اس کا حامی ممالک اس کا تعاون کر رہے ہیں اور اس طرح سے میڈیا کی ملی بھگت کے ساتھ ایک امن پسند مذہب کو غلط طریقہ سے پیش کیا جا رہا ہے۔

ای میل کریں