دین اسلام عدم تشدد اور ظلم سے دور رہنے کا درس دیتا ہے

دین اسلام عدم تشدد اور ظلم سے دور رہنے کا درس دیتا ہے

مغربی ممالک ہمیشہ دہشتگردوں کی حمایت کرتے آئے ہیں جس کا خمیازہ اب وہ بھگت رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے گزشتہ سال مغربی جوانوں کے نام اپنے دوسرے خط میں دین اسلام کو امن و سلامتی، محبت و دوستی اور متقابل احترام پرمبنی دین قرار دیتے ہوئے کہا: دین اسلام عدم تشدد اور ظلم و ستم سے دور رہنے کا درس دیتا ہے، رہبر انقلاب کے پہلے خط  کو بھی بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا اسی لئے مغربی جوانوں نے اس خط سے متعلق بھی رد عمل دیکھاتے ہوئے اپنے تاثرات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  اس ضمن میں بعض موارد کی جانب ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ اشارہ کرینگے:

کینیڈا میں سیاسی اور ثقافتی سرگرم کارکن حسن رضا فواض کہتے ہیں: ایران کے رہبر اعلا نے اپنے پہلے خط میں مغربی جوانوں سے مخاطب ہوکر دین اسلام سے متعلق معلومات کو قرآن کریم اور سیرت پیامبر سے حاصل کرنے کی تاکید کی تھی لیکن انہوں نے اپنے دوسرے خط میں موجودہ دور میں دنیا کو  درپیش  مشکلات کے حوالے سے بہت سے اہم مسائل کی جانب اشارہ کیا ہے۔

ایران کے رہبر اعلا نے اپنے دوسرے خط میں دنیا کے جوانوں کو مخاطب کرکے انہیں بہتر مستقبل کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرنے کےلئے تیار رہنے کی شفارش کی ہے۔

انہوں نے اس وقت دنیا کے اندر ناامنی کو فروغ دینے والے اصلی عناصر کی معرفی کی ہے جو ہمیشہ کی طرح حقیقت پرمبنی ہے، میری نظر میں اس خط کو کافی پہلے شایع کیا جانا چاہئے تھا۔

آسٹریلین سے جسٹن پکرنگ کہتے ہیں: میری نظر میں یہ خط بہت اہمیت کا حامل ہے، ایران کے رہبر اعلا نے بہت دلسوز انداز میں دور حاضر کی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے، مجھے اس خط سے پہلے میڈیا میں محدود پیمانے پر نشر ہونے والی باتوں کے علاوہ زیادہ معلومات ان کے بارے میں نہیں تھی، اب ان کے خط کو پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ ایک با خبر شخصیت ہونے کے ساتھ بہت اچھے بیان کے مالک بھی ہیں۔ ان کی وہ تمام باتیں جو دوسروں سے متعلق سوچتے وقت ہمیں رعایت کرنے کی ضرورت ہے، سبھی درست ہیں نیز ان کی یہ بات بھی حقیقت پرمبنی ہے کہ ہمیں مشرق وسطی کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھتے ہوئے مشرق وسطی کے لوگوں سے متعلق اپنے شعور اور ادراک میں بالندگی لانے کی ضرورت ہے۔ 

امریکی ریاست پنسلوانیا کے آرٹسٹ اور سیاسی کارکن کرس الڈریج کا کہنا ہے: یہ خط بہت عالی مضامین پر مشتمل ہے جس میں بنیادی مسائل پر بات ہوئی ہے اور نہایت حسین اور اچھے پیرائے میں تحریر کیا گیا ہے اور تخیلاتی آرزووں سے عاری ہے اور اس خط میں قتل و غارتگری کی روک تھام کےلئے نئے طریقہ کار پر گفتگو ہوئی ہے اور اس بات کو پوری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، اس خط سے واضح ہوگیا ہے کہ دین اسلام ایک دوسرے کےلئے احترام کا قائل ہے اور یہ امن و سلامتی کا مذہب ہے۔

فرینک پینسٹری اطالوی ماہر نفسیات اور اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں سرگرم کارکن کہتا ہے: میری نظر میں ایران کے رہبر اعلا کی جانب سے اس خط کا  لکھنا بہت اچھا عمل ہے، ایران ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس نے کسی دوسرے ملک پر لشکر کشی کی ہو  جبکہ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ  سے ایران ایک ایسے خطے میں واقع ہے کہ جہاں حالات بہت سنگین ہے، اسی خطے میں اسرائیل جیسی غاصب صہیونی ریاست بھی واقع ہے جو ایران کو نابود کرنے کے درپے ہے۔

مغربی ممالک ہمیشہ دہشتگردوں کی حمایت کرتے آئے ہیں جس کا خمیازہ اب وہ بھگت رہے ہیں جس کی ایک مثال پیرس میں پیش آنے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی ہے، اس وقت پورا یورپ اپنی گود کے پالے دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ ایران کے رہبر اعلا نے اپنے خط میں دہشتگردی کو مسلمانوں اور دنیا کے دوسرے لوگوں کےلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے مشترک درد کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔

 

حوالہ: ویژہ نامہ (1394) ہجدہمین جشنوارہ بین المللی پژوہشی شیخ طوسی

ای میل کریں