قلب عالم اسلام میں اسرائیل کا قیام، مسلمانوں کے آپسی اختلاف کا نتیجہ ہے

قلب عالم اسلام میں اسرائیل کا قیام، مسلمانوں کے آپسی اختلاف کا نتیجہ ہے

اگر ہم چھوٹی باتوں سے پیدا ہونے والے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے، خـــــدا، قرآن، پیغمبر اور کعبہ جیسے بنیادی اور متفق علیہ مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو جزوی اختلافات کو خود بخود گفتگو کے ذریعے حل کرسکتے ہیں۔

مولوی عبدالباری صالحی نے امت اسلامی میں اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت اور موجودہ دور میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے جماران کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا: اس وقت عالم اسلام کےلئے سب سے بڑا چیلنج، اتحاد کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں قلب عالم اسلام، فلسطین کی مقدس سرزمین پر اسرائیل کا ناجائز وجود، عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ داعش جیسے تکفیری گروہوں کا وجود بھی مسلمانوں کے آپسی اختلاف کا نتیجہ ہے۔

مولوی صاحب نے قرآن کی آیت " وَلاَ تَفَرَّقُواْ " (آپس میں اختلاف نہ کرو) سے استناد کرتے ہوئے مسلمانوں کو اختلاف سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں کو من پسندی اور انانیت سے دور رہتے ہوئے پرچم اسلام کے سائے تلے جمع ہوکر ایک مرتبہ پھر اسی عظمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے جو صدر اسلام میں مسلمانوں کی تھی، اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے امور کی بھاگ دوڑ مغربی ملکوں کے ہاتھ میں نہ ہوگی اور وہ کبھی بھی ہماری قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔

اہل سنت دینی مدرسے مظہر التوحید کے مدیر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آج مغرب والوں کو  مغربی دنیا میں ہونے والی اسلام کی پیشرفت نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے، کہا: آج مغربی دنیا نے اسلام کا مقابلہ کرنے کےلئے اسلام فوبیا کا سہارا لے رہی ہے اور لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کےلئے داعش جیسے شدت پسند اور افراطی گروہوں کے ذریعے اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کرکے پیش کرنے کی سر توڑ  کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ اہل مغرب نے مسلمانوں کی دولت سے اپنے ہی کچھ عناصر کو تربیت دیکر تکفیری گروہوں کو معرض وجود میں لایا ہے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاسکے۔

انہوں نے مسلمانوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے مزید کہا: اگر ہم چھوٹی باتوں سے پیدا ہونے والے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے، خـــــدا، قرآن، پیغمبر اور کعبہ جیسے بنیادی اور متفق علیہ مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو جزوی اختلافات کو خود بخود گفتگو کے ذریعے حل کرسکتے ہیں اور یوں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی فضا کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ، اسلام کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں یقیناً ہمیں کامیابی ملے گی۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں