محمدمصطفی، جناب عبداللہ کے دولت سرا میں جناب آمنہ کی گود میں چراغ افروز ہوگئے

محمدمصطفی، جناب عبداللہ کے دولت سرا میں جناب آمنہ کی گود میں چراغ افروز ہوگئے

امام خمینی(رح): اس زمانہ میں دو قوتیں تھیں، ظالم حکومت اور دوسری آتش پرست روحانی طاقتیں، پیغمبر اسلام کی ولادت ان دونوں قوتوں کی شکست کا سرچشمہ بنی۔

انسان جہالت، نادانی، ظلم و بربریت، ناانصافی، کدورت و دشمنی، قوم پرستی، بت پرستی، بے عفتی اور شراب خوری جیسی دسیوں برائیوں کے تاریک بادلوں کی اوٹ میں زندگی گزار رہا تھا۔ قتل و غارت گری ان کا پیشہ بنا ہوا تھا، گوشت و پوست کے رنگ کو معیار قرار دے کر سیاہ پوستوں کو انسان کے دائرے سے باہر سمجھنا ایک عام سی بات تھی۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا غیرت کی علامت بن چکا تھا۔ بتوں کی پوجا کرنے کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے بت تراشتے, اسی کی عبادت کرتے اور ہر قبیلے کا اپنا الگ بت ہوتا تھا۔ مختلف ناموں سے موسوم تھا۔ مایوسی اور ناامیدی سب کے دلوں پر سایہ فگن تھی۔
اچانک امید کی کرن نے بادلوں کے کنارے سے اپنا جلوہ دکھایا۔ آہستہ آہستہ ظلمت نورانیت میں بدلنے لگی۔ دلوں میں روشنی سی محسوس ہونے لگی۔ جیسے ایک عاشق اپنے معشوق کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، ویسے ہی لوگ کسی منجی کے انتظار میں بے چین دکھائی دینے لگے۔ اتنے میں آسمان رسالت کے مشرق سے رسالت الٰہی کے آخری علمبردار، منجی عالم بشریت، خلق عظیم کے مالک، کفّار و مشرکین کے آنکھوں کا خار، رحمة للعالمین و سید المرسلین، صاحب لولاک حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ظلمتوں کے بادلوں کو چیرتے ہوئے جناب عبداللہ کے دولت سرا میں جناب آمنہ کی گود میں رونق افروز ہوگئے۔
کائنات میں لاکھوں افراد روزانہ پیدا ہوتے ہیں اور زیادہ تر ولادتیں ماحول ومعاشرے پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال رہی ہوتی ہیں، لیکن کچھ ولادتوں کا اثر وسیع پیمانے پر محسوس کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت، ایک طرف ان کی ولادت خیر وبرکت کا منبع اور رحمتوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتی ہے اور دوسری طرف ظلم وشرک کی نابودی کا مظہر بھی دکھائی دیتی ہے۔ آپ کی ولادت کیونکہ عدل وتوحید کا سرچشمہ تھی اس لئے ظلم وشرک پر کاری ضرب لگی۔

امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:

ولادتیں مختلف ہوتی ہیں، ایک ولادت خیر وبرکت کا مبدا ہے، ظلم کو نابود کرنے کا ذریعہ، بت کدوں کو ڈھانے اور آتش کدوں کو خاموش کرنے کی بنیاد ہے، جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی ولادت باسعادت، اس زمانہ میں دو قوتیں تھیں، ظالم حکومت اور دوسری آتش پرست روحانی طاقتیں، پیغمبر اسلام کی ولادت ان دونوں قوتوں کی شکست کا سرچشمہ بنی۔

صحیفہ نور، ج۲، ص۲۱۴

آپ نے اپنے کردار و گفتار کے ذریعے اعلان نبوت سے قبل ہی صادق و امین کا لقب پایا۔ آپ نے دور جاہلیت کے تمام غلط معیاروں پر پانی پھیر کر الٰہی قانون کو معیار قرار دیا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا سورج طلوع ہونے لگا۔ عرب و عجم کے اختلافات بھائی چارے میں بدل گئے۔ اب ان انسانوں میں انسانیت کی بو آنے لگی۔ بے حس و بے جان بتوں کے پوجاری کو چھوڑ کر سب ایک خدا کے سامنے سر بہ سجود ہونے لگے۔ علامہ اقبالؒ کے بقول:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اللہ اکبر کی صدائیں کائنات کی فضاؤں میں گھونجنے لگیں۔ خدائی پیغام کے علمبردار نے کلمہ توحید کے اعلان کے ساتھ ہی قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔ کفار و مشرکین کی بولی بند ہوگئی۔ لوگ گروہ در گروہ قلعہ اسلام میں پناہ لینے لگے۔

 

والسلام علی عباد اللہ الصالحین

التماس دعــــا

ای میل کریں