انقلاب حسینی(ع)، امام خمینی(رح) کی سماجی اور سیاسی تفسیر کے آئینے میں

انقلاب حسینی(ع)، امام خمینی(رح) کی سماجی اور سیاسی تفسیر کے آئینے میں

امام خمینی(رح): سلام ہو حسين بن علي(ع) اور ان کے باوفا ساتھیوں پر جنہوں نے غاصب اور ظالم حاکموں کی بساط کو لپیٹنے کیلئے قیام کیا۔

امام حسین علیہ السلام، پوری تاریخ میں مظلومیت شیعہ کی علامت کے طور پہچانے جاتے ہیں، شیعیان علی بن ابی طالب علیہما السلام کے تمام دکھ درد، امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور عاشورا کی یاد میں منائے جانے والی رسومات میں منعکس ہوکر دنیا والوں کے سامنے آتے ہیں۔

شہادت اور قربانی کے عظیم معلم، امام حسین(ع) نے پوری انسانیت کو یہ تعلیم دی کہ اگر کسی دور میں ظالم کی سفاکیت، بنیادی اصولوں کو صحیح طرح سمجھنے میں روڑے اٹکاتے ہوئے سد راہ  بن جائے تو شہادت وہ  واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ظالم کے مکروہ چہرے پر پڑے نقاب کو ہٹایا جاسکتا ہے کیونکہ شہادت کے آئینے میں تمام چیزیں اچھی طرح نظر آتی ہیں اسی لئے شہادت زندگی کا دوسرا رخ ہے جو انسان کی اجتماعی زندگی سے مربوط ہے، انسان کا وہ رخ حیات جو اس کی فردی زندگی سے بالاتر ہوکر اجتماعی زندگی سے اپنا ناطہ جوڑے تو وہی معاشرے کو حیات بخشنے کیلئے سنگ میل ثابت ہوتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے شہادت کا اںتخاب کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیا، امام علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت وہ اسلحہ ہے جس کے ذریعے انسان یمیشہ زندہ رہ سکتا ہے اسی لئے امام حسین علیہ السلام، زندگی کی تفسیر عقیدہ اور جہاد سے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام حسین(ع) کے اصحاب بھی موت کے چھاوں میں زندگی کو تلاش کرتے ہیں۔

عبيد الله ‌بن زياد کے دربار میں ثانی زہرا(س) کا خطبہ بھی اسی بات کی عکاسی کرتا ہے، خاندان نبوت کو بظاہر شکست دینے اور ان پر مظالم ڈھانے کے بعد دربار ابن زیاد میں جناب زینب علیہا السلام نے فاتح خیبر کے لہجے میں فرمایا تھا:

الحمدلله ‌الذي اکرمنا بنبيه محمد صلی الله عليه وآله و طهرنا من ‌الرجس تطهيراً انما يفتضح ‌الفاسق و يکذب‌ الفاجر و هو غيرنا و الحمدلله.‏ (حمد اس اللہ کو کہ جس نے اپنے نبی محمد(ص) کے واسطے ہمیں عزت دی اور ناپاکیوں سے ہمیں پاکیزہ قرار دیا، بالیقین کہ فاسق رسوا ہوجاتا ہے اور فاجر جھوٹ بولتا ہے اور وہ ہم میں سے نہیں، الحمدللہ)۔

محرم اور صفر کے مہینوں کی تعظیم سے متعلق امام خمینی(رح) کی تاکید بھی اسی تناظر میں تھی۔ امام(رہ) نے انقلاب کربلا سے سماجی اور سیاسی تفسیر کرتے ہوئے اس کو عارضی واقعے کے آئینہ میں نہیں دیکھا بلکہ عاشورا، امام خمینی(رح) کی نظر میں شیعہ انقلاب کا وہ پہلا زینہ تھا جس نے پوری دنیا کو مسحور کردیا تھا، قیام حسینی(ع) کے حوالے سے امام(رہ) کی نگاہ فقط آخرت کے ثواب تک محدود نہ تھی بلکہ اخروی ثواب کو امام خمینی(رح) سماج میں عدالت کے نفاذ اور جابروں کی حاکمیت کو ختم کرنے کی کوششوں کے صلے میں خداکی جانب سے دئے جانے والے انعام کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔

امام خمینی علیہ الرحمہ کے زاویہ نگاہ میں قیام عاشور، دین اور دنیا دونوں کی بہتری کا ذریعہ ہے اسی لئے آپ(رہ)، امام حسین(ع) اور ان کے وفادار ساتھیوں کو خراج عقہدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

سلام ہو حسين بن علي(ع) اور ان کے باوفا ساتھیوں پر جنہوں نے غاصب اور ظالم حاکموں کی بساط کو لپیٹنے کیلئے قیام کیا اور کبھی بھی دشمن کے وعدوں کی لالچ میں یا پھر ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہوکر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہوئے، امام حسین علیہ السلام نے کربلا کو اپنے بچوں، اصحاب اور اپنی قتلگاہ کے طورپر انتخاب کرتے ہوئے «هيهات منّـــا الذِّلّه‌» کی آواز کو  پوری دنیا میں حق کے متلاشی افراد کے کانوں تک پہنچا دیا۔

 

بشکریہ انتخاب ویب سائٹ

ای میل کریں